جمہوریت مارشل لا کے دہانے پر

فوجی حکومت نے نہری نظام اور زراعت کو فروغ دیا، ڈیم بنائے مگر خارجہ پالیسی میں امریکی مفادات کی حمایت جاری رہی۔

anisbaqar@hotmail.com

ایوب خان نے 8 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا مگر اس مارشل لا کو لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ اسکندر مرزا نے غلام محمد کی حکومت کو برطرف کر کے بیوروکریسی اور فوج کی حمایت سے ایسا کیا تھا۔ میں اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا یادداشت اور لوگوں کی زبانی سنی ہوئی بات کو رقم کر رہا ہوں مگر جو بھی رقم کیا جا رہا ہے انتہائی معلومات کو ازسر نو تازہ کر کے۔ ایسی ہی جمہوریت تھی جیسی آج ہے البتہ ملک اتنا مقروض نہ تھا اور ملک کا کوئی قومی ترانہ بھی نہ تھا جب غلام محمد سے اقتدار اسکندر مرزا کے پاس آیا تو پاکستان کی بائیں بازو کی انجمنوں نے متحد ہو کر کراچی جو ملک کا دارالسلطنت تھا ایک زبردست مظاہرہ کیا۔

مظاہرے کا اہتمام حیدر بخش جتوئی اور کامریڈ امام علی نازش نے کیا تھا اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ کراچی اس وقت 50 لاکھ کی آبادی والا شہر تھا مگر یہ مظاہرہ تقریباً (روایت کے مطابق) ایک لاکھ کا جلوس تھا۔ جلوس کی قیادت تو تمام تر مزدور کسان رہنماؤں کی تھی مگر یہ پورا شو نیشنل عوامی پارٹی کا تھا جو امریکا مخالف نعروں اور ہتھوڑے درانتی کے پوسٹر اٹھائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا۔ مزدور اور کسان انجمنوں کی قیادت عزیز سلام بخاری، حسن ناصر شہید کر رہے تھے سندھی اردو دانشوروں کی قیادت کاوش رضوی کر رہے تھے جو آج ہم میں سانس لے رہے ہیں۔ سیٹو اور سنٹو کے خلاف لوگ نعرہ زن تھے اور جاگیرداری ختم کرو کے نعرے تھے۔

صورت حال اس قدر پیچیدہ تھی کہ اگر ایوب خان مارشل لا نہ لگاتے تو بائیں بازو کی قیادت جو نیشنل عوامی پارٹی کے تحت تھی اقتدار پہ قابض ہو جاتی اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو جاتا۔ لہٰذا ایوب خان نے سب سے پہلے جس چیز پر غور کیا وہ جہانگیر پارک کو باغ میں تبدیل کر دیا جہاں پر عام طور سے جلسے اور جلوس ہوا کرتے تھے۔ عشرہ محرم بھی یہیں ہوتا تھا اور شیعہ سنی کا مشترکہ جلوس یہیں سے نکالا جاتا تھا پہلے ڈھول اور ماتمی جلوس ایک ساتھ نکلتے تھے صدر کراچی میں کرسچن اور پارسی برادری کی اکثریت تھی اس کے بعد ایوب خان نے فکری محاذ پر نظر کی۔ حفیظ جالندھری کو قومی ترانہ لکھنے کو دیا اور یہی منظور ہوا۔

رائٹرز گلڈ بنائی قلم کاروں کو عزت دی، ڈیم بنائے مگر امریکی مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور ملک پر بائیں بازو کے خطرات کو یکسر اپنی دانست میں ختم کر دیا۔ بائیں بازو پر کاری ضرب لگائی ان کی تنظیموں میں گروپ بندی کا آغاز ہوا مزدور انجمنوں اور ہاری تنظیموں میں گروہ بندی ادبی اور شعوری محاذ پر لوگ تقسیم ہوتے چلے گئے۔ تقریباً 10 برس ان کی حکومت بغیر کسی چیلنج کے چلتی رہی مگر ملک کے بائیں بازو کے کارکن متحد ہوتے رہے ان کی قیادت بھی تقسیم ہونے کے باوجود جاگیرداری نظام کے خاتمے پر متحد رہی۔ اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو یہ احساس ہو چلا کہ ملک پر بائیں بازو کی حکومت کا قبضہ ہو جائے گا اس لیے مارشل لا لگا اور 8 اکتوبر 1958ء سے براہ راست فوجی حکومت کا آغاز ہوا۔

فوجی حکومت نے نہری نظام اور زراعت کو فروغ دیا، ڈیم بنائے مگر خارجہ پالیسی میں امریکی مفادات کی حمایت جاری رہی۔ رفتہ رفتہ چین سے سرحدی تنازعات طے ہوئے اور تعلقات میں بہتری آئی جہاں ایک طرف چین سے تعلقات میں بہتری آئی دوسری جانب اسی دور میں بائیں بازو کی قیادت میں دراڑ پڑ گئی چینی سیاسی مفادات اور روسی سیاسی مفادات پر بائیں بازو کی تنظیمیں تقسیم ہو گئیں اس سے ملک میں جاگیرداری سماج کے خلاف محاذ آرائی کم ہو گئی بعض پارٹیاں جاگیرداری سماج کے خاتمے کی باتیں کرتی ہیں مگر وہ حقیقتاً اس پر سنجیدہ نہیں ہیں۔


1968ء کی طلبا تحریک نے ذوالفقار علی بھٹو کو بام عروج پر پہنچایا مگر جو اہداف بائیں بازو کی قوتوں نے طے کیے تھے ان اہداف پر ذوالفقار علی بھٹو پورے نہ اترے۔ معاہدہ تاشقند پر ان کا زور بہت تھا مگر وہ اس کی تفصیل نہ بتا سکے۔ معراج محمد خان جو کبھی ان کے جانشین تھے آج شدید علیل ہیں غرض سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف جب بھی قیادت متحرک ہو گی ایک خوف کا سماں پیدا ہو گا کیونکہ جاگیرداری سماج کی موجودگی خود جمہوریت کی نفی کرتی ہے۔

علامہ طاہر القادری نے جب انقلاب کی بات کی اور انقلاب مارچ کا آغاز کیا تو کس قدر بربریت کا ثبوت ان کے آگے بڑھنے پر دیا گیا اور جب علامہ طاہر القادری نے اپنی تقریر میں مارکس اور لینن کی بات کی تو ان کے خلاف بعض میڈیا ہاؤسز پر تنقیدی محفلیں منعقد کی گئیں جب کہ علامہ اقبال کے کلام میں ان دونوں شخصیات پر نظمیں لکھی گئیں۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے تعصبات سے پاک ہر ارض وطن پر بسنے والے کا پاکستان معاشی سماجی انصاف والا پاکستان۔ عمران خان بھی جاگیرداری سماج کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں اور ایک فلاحی ریاست کا تصور انھوں نے اپنے دھرنوں میں پیش کیا اور مسلسل پیش کرتے رہے مگر ان کے ساتھ جو قوتیں ہیں وہ تحریک کو اس طرف نہ لے جانے دیں گی جہاں سے انقلاب کی راہ شروع ہوتی ہو۔

جاوید ہاشمی تو ابتدا میں ہی چھوڑ گئے خود بھی رسوا ہوئے اور پارٹی پر ضرب لگائی۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین تحریک کو اس موڑ پر نہیں لے جانا چاہتے جہاں سے تحریک پر ان کا کنٹرول نہ رہ جائے ظاہر ہے جب عوامی مارچ کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو سے شروع ہو گا اور ہر شخص کے ہاتھ میں اس کا قانون ہو گا تو پھر نغموں کی گھن گرج نہ ہو گی اور نہ سہانے گیت ہوں گے پھر مجمع کا سنبھالنا محال ہو گا۔ تب تو یہی نعرہ ہر زبان پر ہو گا ''جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو'' اب جب کہ ڈائیلاگ کی بات ہو رہی ہے تو ڈی چوک پر کیے گئے وعدوں کو وفا کون کرے گا۔ کون استحصالی نظام سے نجات دلائے گا، کون سوشل جسٹس قائم کرے گا، فلاحی نظام اور جاگیرداری نظام جاگیرداروں کی اسمبلی میں کیسے ختم ہو گا، علامہ بہ غرض علاج ہماری زمین چھوڑ گئے۔

عمران خان کی ٹیم کے دو ارکان شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ڈائیلاگ پر مصر ہیں حکومت کو دباؤ میں رکھنے کی جو تاریخیں دی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کے بجائے اب گفتگو ہو رہی ہے۔ لہٰذا گفتگو کا دائرہ چند حلقوں کے بیلٹ باکس تک محدود ہو جائے گا اور دھرنے میں آنے والوں کی بہر حال ہمت شکنی ہو گی ۔ لہٰذا گفتگو ہونے میں کوئی برائی نہیں البتہ گفتگو کا ایجنڈا انتخابی اصلاحات، زرعی اصلاحات، مرکز میں تعلیمی اصلاحات کے بغیر عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی مانا کہ اس وقت پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں وہ کسی بڑے بحران کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا اور نہ کسی مارشل لا کا امکان ہے کیونکہ پاکستان میں مارشل لا مغربی اور امریکی مفادات کے منافی ہے اور ایسے میں جب کہ افغانستان اور بھارت ناقابل اعتبار ہیں اور افواج پاکستان ضرب عضب آپریشن کر رہی ہیں، پورے ملک میں ایک وقت میں ہڑتال کرانے کی کوئی مشق نہیں کی گئی ہے اور خاص طور سے کراچی میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔

ایسا نہیں کہ ناممکن ہے مگر اس کے لیے ماحول بنانا ہو گا۔ چند علاقوں کے بیلیٹ بکسوں کی گنتی میں مفاد عامہ کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی اس لیے ہر فیصلے سے قبل اس کا تجزیہ ضروری ہے شہر بند کرانا اعلیٰ طبقات اور مراعات یافتہ لوگوں کا کام نہیں۔ اس میں طلبا، مزدور کسان اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی شمولیت ضروری ہے اب چونکہ دوسری جانب بھی کوئی عوامی مفادات کا پیروکار نہیں۔ اس لیے امید یہی ہے کہ بڑے تصادم اور انقلابی تبدیلی کے امکانات کی امید کم نظر آتی ہے اور پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو جو مل جائے وہی بہت ہے عوام ضرور نکلیں گے بجلی کے نرخ پر آٹے کے نرخ پر تعلیم اور صحت کے اہداف پر مگر ان کو یقین کون دلائے گا کہ ہم کچھ لے کے آئیں گے خالی ہاتھ واپس نہ جائیں گے۔
Load Next Story