تشکیل پاکستان میں اقلیتوں کا کردار آخری حصہ
پاکستانی مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ان کا وطن ہے۔
عموعی طور پر پاکستان کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں سے اکثریتی مسلم حلقوں کا رویہ متشددانہ رہتا ہے اورمنارٹیز کے ساتھ پاکستانی مسلمانوں کا رویہ درست نہیں ہے۔اسی ضمن میں جب تحقیق کی گئی تو اندازہ ہوا کہ یہ چند واقعات کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔اقلیت کی اصطلاح پاکستان میں عمومی طور پر غیر مسلم کیمونٹی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس پر غیر مسلم کمیونٹی اعتراض کرتی ہیں اور اقلیت کے بجائے منارٹی کہلائے جانا زیادہ بہتر محسوس کرتی ہیں۔
دراصل 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے اس زمانے میں طاقتور جب بھی کمزور پر فاتح ہوجاتا تو اپنی قوت کے سہارے محکوم قوم کو اقلیت شمار کرتے۔عام طور پر اقلیت کی اصطلاح ایسے نسلی ، قومی ، مذہبی ، لسانی یا ثقافتی گروپوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تعداد میں باقی آبادی کے مقابلے میں کم ہوں اور جو اپنی شناخت کو قائم رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہوں۔پاکستانی مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ان کا وطن ہے اور یہ بھی دیگر مسلم شہریوں کی طرح مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ ہندوستان کی تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ''اقلیتوں کا معاہدہ'' کہلاتا ہے۔اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان ، شیڈول کاسٹ کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر ، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے ۔
اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔22دسمبر1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسوں کے احتجاج میں قائداعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے مستعفی ہونے پر ''یوم نجات'' منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ''یوم نجات'' میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی ، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئیں۔ 23مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں ستیا پرکاش سنگھا ، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام ، جوشو افصل الدین ، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری ، بہادر ایس پی سنگھا ، آر اے گومز ، ایس ایس البرٹ ، راجکماری امرت کور بھی شامل تھے ۔
ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے علاوہ کرن شنکر رائے ، دھیریندر ناتھ دتہ ، پریم ہری ورما ، راج کمار چکرورتی ، سرس چٹو پادھینا ، بھویندرکمار دتہ ،چندر موجدار ، بیروت چندرمنڈل ، سری ڈی رائے ، نارائن سانیال ، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار ، نارائن گجرال ، بھیم سین ، سی این گبن ، بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے۔
جب کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری سے تھا جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے علاوہ تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔یہ کوئی اچانک پیدا شدہ رویہ نہیں تھا بلکہ قیام پاکستان سے پہلے 1935میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے اسی طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968 مں راولپنڈی میں قائم کیا گیا تھا ۔
جس کا مقصد مسیحی اور مسلم علما کو مذہب اور الوہی موضوعات پر بحث اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی دوستی ، تفہیم اور تعاون کی بنیاد پر پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا تھا۔ لاہور میں قائم مذہب کی عالمی کونسل ( ڈبلیو سی آر ) مذہبی مکالمے کی ایک اور اہم شریک کار ہے جو دقیانوسی تصورات اور نفرت انگیز تقریروں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔اسی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی طلبا نے دوسرے عقائد کے بارے میں براہ راست ان کے نمایندے سے سیکھنے میں دلچسپی پائی گئی ہے۔ لاہور یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں مسیحیوں کے عقاید اور عبادات کے بارے میں لیکچر دینے کے لیے عیسائی رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
گزشتہ عرصے میں مسیحیوں کے ساتھ اکا دکا واقعات کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا گیا جیسے پاکستان میں مسیحی برادری کا جینا مشکل ہوگیاہو اور اسی حوالے سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر ایس پی سنگھا اپنا اضافی ووٹ پاکستان کے حق میں نہیں دیتے تو پاکستان کی تشکیل ناممکن تھی ، گو کہ کرسچین کیمونٹی کی جانب سے یہ دور اندیش فیصلہ تھا لیکن مذہبی منافرت کس ملک میں نہیں ہے ؟ پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے تو اس میں عوام سے زیادہ قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتے ہیں، پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیز سے زیادہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، منارٹیز کی عبادت گاہوں سے زیادہ مسلمانوں کے مقدس مقامات ، مساجد ، مزارعات ، قبرستان ، یہاں تک کہ جنازوں تک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگر کوئی بھارت کے خلاف جنگ میں ایک مسیحی پاکستانی آفیسر کے دوران جنگ آنجہانی ہونے کا ذکر کرتا ہے تو اس مسیحی آفیسر کے جذبہ حب الوطنی سے کسی کو انکار نہیں لیکن انھیںیہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم بھی ہیں جن کی حفاظت کے لیے مسلمان پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔لہذا اس ضمن میں پروپیگنڈہ کاروں کو خیال رکھنا ہوگا کہ اپنے چند مخصوص فائدے کے لیے کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے جذبات کا خیال رکھے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یکطرفہ پروپیگنڈے کا نقصان ہمیشہ ان اکائیوں کو ہوتا ہے جن کے مخلص نمایندے ان کے حقوق کے لیے بنیادی کردار ادا نہ کریں۔ پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ مل کر بھی ایک نشست مقابلہ کرکے نکال سکیں، اس لیے دیگر غیر مسلم کمیونٹیز کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں ۔
اب اگر ان کے نمایندے ان کے حقوق کے لیے آئین پاکستان کیمطابق کام کریں گے تو انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن بد قسمتی سے بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ان مخصوص نشستوں پر اپنے من پسند افراد کو تعینات کرتی ہیں ، جیسے اس قبل کالم میں بتا چکا ہوں کہ سندھ میں شیڈول کاسٹ ہندؤوں کی اکثریت کے باوجود انھیں سیاسی جماعتیں ایوانوں میں نہیں بھیجتیں ، اسی طرح کے مسائل مسیحی کمیونٹیز کے ساتھ بھی ہیں، ان کے درمیان بھی آپس کی نا اتفاقیوں کی وجہ سے مناسب قیادت کا سامنے نہ آنا اہم مسئلہ رہا ہے ۔
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت تھا جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا ہے اور اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام ، جبر کے بجائے امن کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی امن ہے ، اگر کسی فرد واحد کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش آتا ہے تو اسے معاشرے کی انحطاط پذیری قرار نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ اسے کسی فرد کا عدم برداشت کا رویہ کہا جاسکتا ہے لیکن اسے اسلام کا پیغام یا منشور ہرگز نہیں کہا جا سکتا ،اس سلسلے میں پاکستان کے قیام سے اول اور بعد میں قائداعظم کے افکار اور سیکڑوں تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ دو قومی نظریہ میں غیر مسلم اقلیت کے تحفظ کو ہمیشہ دہرایا گیا ہے اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا ہے ۔
اقلیتوں کے مسائل کا حل ان کے نمایندوں کے پاس ہے ، پاکستان میں غیر مسلموں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنانا چاہیے ،لیکن یہ سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مذہب اور خاص کر اسلامی شعائر اور مقدس ہستیوں اور قرآن پاک کی توہین جیسے واقعات میں تفتیش سے قبل کسی کو بھی یکطرفہ گناہگار قرار دینا مناسب نہیں ہے ، جب اس کے لیے آئین میں سخت ترین سزا مقرر ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔کسی انسان کی جان اسلام کے نزدیک انسانیت کی جان بچانے یا قتل کرنے کے مترداف قرار دی جاتی ہے ، ہمیںاسلام کی روح کے مطابق ایسے سمجھنا ہوگا۔
دراصل 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے اس زمانے میں طاقتور جب بھی کمزور پر فاتح ہوجاتا تو اپنی قوت کے سہارے محکوم قوم کو اقلیت شمار کرتے۔عام طور پر اقلیت کی اصطلاح ایسے نسلی ، قومی ، مذہبی ، لسانی یا ثقافتی گروپوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تعداد میں باقی آبادی کے مقابلے میں کم ہوں اور جو اپنی شناخت کو قائم رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہوں۔پاکستانی مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ان کا وطن ہے اور یہ بھی دیگر مسلم شہریوں کی طرح مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ ہندوستان کی تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ''اقلیتوں کا معاہدہ'' کہلاتا ہے۔اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان ، شیڈول کاسٹ کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر ، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے ۔
اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔22دسمبر1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسوں کے احتجاج میں قائداعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے مستعفی ہونے پر ''یوم نجات'' منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ''یوم نجات'' میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی ، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئیں۔ 23مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں ستیا پرکاش سنگھا ، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام ، جوشو افصل الدین ، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری ، بہادر ایس پی سنگھا ، آر اے گومز ، ایس ایس البرٹ ، راجکماری امرت کور بھی شامل تھے ۔
ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے علاوہ کرن شنکر رائے ، دھیریندر ناتھ دتہ ، پریم ہری ورما ، راج کمار چکرورتی ، سرس چٹو پادھینا ، بھویندرکمار دتہ ،چندر موجدار ، بیروت چندرمنڈل ، سری ڈی رائے ، نارائن سانیال ، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار ، نارائن گجرال ، بھیم سین ، سی این گبن ، بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے۔
جب کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری سے تھا جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے علاوہ تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔یہ کوئی اچانک پیدا شدہ رویہ نہیں تھا بلکہ قیام پاکستان سے پہلے 1935میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے اسی طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968 مں راولپنڈی میں قائم کیا گیا تھا ۔
جس کا مقصد مسیحی اور مسلم علما کو مذہب اور الوہی موضوعات پر بحث اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی دوستی ، تفہیم اور تعاون کی بنیاد پر پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا تھا۔ لاہور میں قائم مذہب کی عالمی کونسل ( ڈبلیو سی آر ) مذہبی مکالمے کی ایک اور اہم شریک کار ہے جو دقیانوسی تصورات اور نفرت انگیز تقریروں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔اسی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی طلبا نے دوسرے عقائد کے بارے میں براہ راست ان کے نمایندے سے سیکھنے میں دلچسپی پائی گئی ہے۔ لاہور یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں مسیحیوں کے عقاید اور عبادات کے بارے میں لیکچر دینے کے لیے عیسائی رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
گزشتہ عرصے میں مسیحیوں کے ساتھ اکا دکا واقعات کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا گیا جیسے پاکستان میں مسیحی برادری کا جینا مشکل ہوگیاہو اور اسی حوالے سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر ایس پی سنگھا اپنا اضافی ووٹ پاکستان کے حق میں نہیں دیتے تو پاکستان کی تشکیل ناممکن تھی ، گو کہ کرسچین کیمونٹی کی جانب سے یہ دور اندیش فیصلہ تھا لیکن مذہبی منافرت کس ملک میں نہیں ہے ؟ پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے تو اس میں عوام سے زیادہ قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتے ہیں، پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیز سے زیادہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، منارٹیز کی عبادت گاہوں سے زیادہ مسلمانوں کے مقدس مقامات ، مساجد ، مزارعات ، قبرستان ، یہاں تک کہ جنازوں تک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگر کوئی بھارت کے خلاف جنگ میں ایک مسیحی پاکستانی آفیسر کے دوران جنگ آنجہانی ہونے کا ذکر کرتا ہے تو اس مسیحی آفیسر کے جذبہ حب الوطنی سے کسی کو انکار نہیں لیکن انھیںیہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم بھی ہیں جن کی حفاظت کے لیے مسلمان پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔لہذا اس ضمن میں پروپیگنڈہ کاروں کو خیال رکھنا ہوگا کہ اپنے چند مخصوص فائدے کے لیے کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے جذبات کا خیال رکھے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یکطرفہ پروپیگنڈے کا نقصان ہمیشہ ان اکائیوں کو ہوتا ہے جن کے مخلص نمایندے ان کے حقوق کے لیے بنیادی کردار ادا نہ کریں۔ پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ مل کر بھی ایک نشست مقابلہ کرکے نکال سکیں، اس لیے دیگر غیر مسلم کمیونٹیز کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں ۔
اب اگر ان کے نمایندے ان کے حقوق کے لیے آئین پاکستان کیمطابق کام کریں گے تو انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن بد قسمتی سے بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ان مخصوص نشستوں پر اپنے من پسند افراد کو تعینات کرتی ہیں ، جیسے اس قبل کالم میں بتا چکا ہوں کہ سندھ میں شیڈول کاسٹ ہندؤوں کی اکثریت کے باوجود انھیں سیاسی جماعتیں ایوانوں میں نہیں بھیجتیں ، اسی طرح کے مسائل مسیحی کمیونٹیز کے ساتھ بھی ہیں، ان کے درمیان بھی آپس کی نا اتفاقیوں کی وجہ سے مناسب قیادت کا سامنے نہ آنا اہم مسئلہ رہا ہے ۔
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت تھا جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا ہے اور اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام ، جبر کے بجائے امن کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی امن ہے ، اگر کسی فرد واحد کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش آتا ہے تو اسے معاشرے کی انحطاط پذیری قرار نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ اسے کسی فرد کا عدم برداشت کا رویہ کہا جاسکتا ہے لیکن اسے اسلام کا پیغام یا منشور ہرگز نہیں کہا جا سکتا ،اس سلسلے میں پاکستان کے قیام سے اول اور بعد میں قائداعظم کے افکار اور سیکڑوں تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ دو قومی نظریہ میں غیر مسلم اقلیت کے تحفظ کو ہمیشہ دہرایا گیا ہے اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا ہے ۔
اقلیتوں کے مسائل کا حل ان کے نمایندوں کے پاس ہے ، پاکستان میں غیر مسلموں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنانا چاہیے ،لیکن یہ سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مذہب اور خاص کر اسلامی شعائر اور مقدس ہستیوں اور قرآن پاک کی توہین جیسے واقعات میں تفتیش سے قبل کسی کو بھی یکطرفہ گناہگار قرار دینا مناسب نہیں ہے ، جب اس کے لیے آئین میں سخت ترین سزا مقرر ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔کسی انسان کی جان اسلام کے نزدیک انسانیت کی جان بچانے یا قتل کرنے کے مترداف قرار دی جاتی ہے ، ہمیںاسلام کی روح کے مطابق ایسے سمجھنا ہوگا۔