افسانہ نہیں حقیقت
ریبوں کا مسئلہ امیروں کا طبقہ جب حل کرسکتا ہے تو کسی صنعت کارکے در دولت پر دستک دینے کی کیا ضرورت ہے؟
FAISALABAD:
میرا ایک مسئلہ غریب خاندان کی کسی بچی کی شادی کروانے کا ہے اور غریبوں کی شادی بیاہ میں خرچ ہی کیا ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ تو ہمارے کچھ خوشحال لوگ آسانی سے حل کرسکتے ہیں غریبوں کا مسئلہ امیروں کا طبقہ جب حل کرسکتا ہے تو کسی صنعت کارکے در دولت پر دستک دینے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ سوچ کر کئی جاننے والے خوشحال لوگوں سے رجوع کیا۔ اور انھیں بتایا کہ ایک بوڑھے اور غریب ماں باپ کی ایک بیٹی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ تو ان لوگوں سے کچھ اس قسم کے جواب موصول ہوئے۔''ہمارا کاروبار ان دنوں بہت مندا ہے۔ اگر دھندہ اچھا ہوتا تو شادی کروا دیتے۔''
''اگر کچھ پہلے کہتے تو شاید آپ کا کام ہوجاتا۔ اس وقت تو ہم خود لاکھوں کے قرض دار ہوگئے ہیں اپنی بیٹی کی شادی کروا کر۔''''ہمیں حج پر نہ جانا ہوتا تو ہم کچھ کردیتے۔''
ایک صاحب جو غالباً فلم ''بول'' دیکھ کر آئے تھے کہنے لگے:''لوگ جب اپنے بچوں کی شادی بیاہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟''
ایک صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے ایک دوست ہر سال کینیڈا سے رمضان کے مہینے میں چار پانچ لاکھ روپے زکوٰۃ کے پیسے بھیجتے ہیں کہ وہ مستحق لوگوں میں تقسیم کردیں۔ ان سے جاکر مسئلہ بیان کیا، بولے:''ٹھیک ہے آنے والے رمضان شریف میں ملاقات کرنا۔''
ان کی بات پر بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ سوچا شاید وہ پوری شادی کے اخراجات ادا کردیں گے۔ رمضان کا مہینہ آیا تو ان کے پاس گیا۔ انھیں ان کا وعدہ یاد دلایا تو بولے:''میں نے تمام رقم (پانچ لاکھ) ایک ویلفیئر ٹرسٹ والوں کو بلا کر دے دی اور ان سے یہ رسید حاصل کرلی ہے جو رقم بھیجنے والے کو بھیج دوں گا۔'' ایسا کرنے کی وجہ انھوں نے یہ بتائی۔ ''کچھ لوگ مجھے بدنام کر رہے تھے کہ تھوڑے بہت پیسے میں مستحق لوگوں کو دے کر باقی خود رکھ لیتا ہوں۔''
دوسری طرف کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کی شادی کی تاریخ ٹلتی رہی۔ عید سے بقر عید، بقر عید سے ربیع الاول۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ لڑکی والے، لڑکے والوں سے مختلف حیلے بہانے کرکے شادی کی تاریخ تبدیل کراتے رہے۔
ایک نیک دل نے جو کسی ٹی وی چینل میں ملازم تھے بولے۔ ''اگر آپ کہیں تو اپنے چینل کے ذریعے ایک امدادی فوٹیج چلوا دوں۔'' لڑکی والوں سے اس کا ذکر کیا تو بولے۔ ''اس طرح تو ہماری سفید پوشی کا جنازہ نکل جائے گا۔ اور شاید لڑکی کو زندگی بھر طعنے سننے پڑیں گے کہ ''تمہاری تو یہ حیثیت ہے۔''ایک صاحب نے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا، بولے: ''یار! تم اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دے دو۔ میرے کچھ جاننے والے ایسے ہیں جو حسب توفیق اس اکاؤنٹ میں رقم جمع کرادیں گے۔''''میرا تو کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں۔'' میں نے کہا۔''تو لڑکی والوں سے ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ لے آؤ۔''لڑکی والوں کے پاس گیا تو میری بات پر مسکرانے لگے۔ ''جہاں ہر مہینے قرض ادھار کی نوبت آتی ہو، وہاں پس انداز کیا ہوں گے۔ بینک میں کیا جمع کرائے جائیں گے؟'' ان سے کہا ''اپنے کسی رشتے دار کا اکاؤنٹ نمبر لادیں۔''کئی ہفتوں کے بعد ایک صاحب سے ایک نمبر ملا، مگر انھوں نے یہ شرط لگائی کہ ان کا نام سامنے نہ لایا جائے۔ بہرحال انھوں نے اپنا نمبر دیا ۔
کئی مہینوں کے بعد ان صاحب کے پاس گیا جنھوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط لگائی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بینک لے گئے اور وہاں اپنا بیلنس چیک کیا تو اس میں وہی رقم درج تھی جو انھوں نے اپنا نمبر دیتے ہوئے بتایا تھا۔ اس دوران انھوں نے خود بھی کوئی رقم جمع نہیں کرائی تھی۔ یہی صورت حال مزید چار پانچ مہینے بھی برقرار رہی۔ ہمدرد صاحب کو ساری بات بتائی گئی تو انھوں نے کہا ''بھئی! ہم نے تو اپنا کام کردیا تھا، ان لوگوں نے اپنا کام کیوں نہیں کیا یہ ہمیں نہیں معلوم۔''
کچھ دنوں کے بعد ایک خوش حال فرد سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے لوگوں کی اس سردمہری کا احوال سن کر بہت لعن طعن کی۔ بولے ''امداد باہمی سے تو ایک لڑکی کیا بیسیوں لڑکیاں بیاہی جاسکتی ہیں ، میں ہی اس بے چاری لڑکی کی ڈولی اٹھوا دوں گا۔''''اللہ آپ کی خوش حالی کو مزید خوش حال کرے۔'' ہم نے انھیں دل ہی دل میں دعا دی۔
''مگر دیکھو بھئی! میری کچھ شرطیں ہیں۔''
''جی، وہ کیا ہیں؟''
''ایک تو یہ کہ کسی مایوں، کسی مہندی کی تقریب کے انعقاد سے پرہیز کرنا ہوگی۔ دوسرے مسجد میں نکاح پڑھواکر رخصتی کردی جائے۔ اگر کھانا کھلایا بھی جائے تو ایک ڈش سے زیادہ نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ مجھے اس خاندان کے پورے کوائف سے آگاہ کیا جائے۔''''میرا خیال ہے آپ کی یہ ساری شرطیں لڑکی والے قبول کرلیں گے۔ ان کے کوائف کے بارے میں میں ہی آپ کو بتا دیتا ہوں ۔ آپ چاہیں تو اس خاندان کے افراد سے مل بھی سکتے ہیں۔''''نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ پندرہ دن بعد آپ یہیں ملاقات کریں۔'' پندرہ دنوں کے بعد موصوف سے ملاقات ہوئی تو بولے۔ ''آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے اس پر مجھے یقین تو ہے لیکن اگر ان کے کسی بندے سے ملاقات کرادیں تو۔۔۔''
میں نے لڑکی کے ایک بہنوئی، جس کا موبائل نمبر مجھے یاد تھا۔ اسے فون کر کے اسی وقت بلا لیا۔ اس سے مل کر اس کا باضابطہ ایک انٹرویو کرلیا اور جب میری بتائی ہوئی ساری باتوں کی تصدیق ہوگئی تو اس سے بولے۔ ''اگلے مہینے آپ آج کی تاریخ میں ہی یہیں ملیں ۔'' کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن میں نے لڑکی کے بہنوئی کو فون کیا۔ ''ارے بھئی! تم نے کچھ بتایا نہیں، ان کے پاس گئے بھی یا نہیں گئے؟''
''گیا تھا۔''
''کچھ دیا انھوں نے؟''
''دس ہزار روپے اور ایک پرچی ۔ پرچی پر لکھا تھا۔ معذرت خواہ ہوں کہ بس اتنے ہی کا بندوبست کرسکا۔ بچوں کا اپنی ماں کے ساتھ سوات اور مری وغیرہ جانے کا پروگرام بن گیا اور انھوں نے میری نیکی کے پروگرام کو سبوتاژ کردیا۔''
لڑکی کا بہنوئی بولا۔ ''بریکنگ نیوز یہ ہے انکل! جب لڑکی والوں نے اس تاریخ میں شادی نہ کرنے کا ایک نیا بہانہ بنایا تو لڑکے والوں نے رشتہ ختم کرنا ہی بہتر سمجھا۔''
میرا ایک مسئلہ غریب خاندان کی کسی بچی کی شادی کروانے کا ہے اور غریبوں کی شادی بیاہ میں خرچ ہی کیا ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ تو ہمارے کچھ خوشحال لوگ آسانی سے حل کرسکتے ہیں غریبوں کا مسئلہ امیروں کا طبقہ جب حل کرسکتا ہے تو کسی صنعت کارکے در دولت پر دستک دینے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ سوچ کر کئی جاننے والے خوشحال لوگوں سے رجوع کیا۔ اور انھیں بتایا کہ ایک بوڑھے اور غریب ماں باپ کی ایک بیٹی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ تو ان لوگوں سے کچھ اس قسم کے جواب موصول ہوئے۔''ہمارا کاروبار ان دنوں بہت مندا ہے۔ اگر دھندہ اچھا ہوتا تو شادی کروا دیتے۔''
''اگر کچھ پہلے کہتے تو شاید آپ کا کام ہوجاتا۔ اس وقت تو ہم خود لاکھوں کے قرض دار ہوگئے ہیں اپنی بیٹی کی شادی کروا کر۔''''ہمیں حج پر نہ جانا ہوتا تو ہم کچھ کردیتے۔''
ایک صاحب جو غالباً فلم ''بول'' دیکھ کر آئے تھے کہنے لگے:''لوگ جب اپنے بچوں کی شادی بیاہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟''
ایک صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے ایک دوست ہر سال کینیڈا سے رمضان کے مہینے میں چار پانچ لاکھ روپے زکوٰۃ کے پیسے بھیجتے ہیں کہ وہ مستحق لوگوں میں تقسیم کردیں۔ ان سے جاکر مسئلہ بیان کیا، بولے:''ٹھیک ہے آنے والے رمضان شریف میں ملاقات کرنا۔''
ان کی بات پر بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ سوچا شاید وہ پوری شادی کے اخراجات ادا کردیں گے۔ رمضان کا مہینہ آیا تو ان کے پاس گیا۔ انھیں ان کا وعدہ یاد دلایا تو بولے:''میں نے تمام رقم (پانچ لاکھ) ایک ویلفیئر ٹرسٹ والوں کو بلا کر دے دی اور ان سے یہ رسید حاصل کرلی ہے جو رقم بھیجنے والے کو بھیج دوں گا۔'' ایسا کرنے کی وجہ انھوں نے یہ بتائی۔ ''کچھ لوگ مجھے بدنام کر رہے تھے کہ تھوڑے بہت پیسے میں مستحق لوگوں کو دے کر باقی خود رکھ لیتا ہوں۔''
دوسری طرف کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کی شادی کی تاریخ ٹلتی رہی۔ عید سے بقر عید، بقر عید سے ربیع الاول۔ اس طرح کئی سال گزر گئے۔ لڑکی والے، لڑکے والوں سے مختلف حیلے بہانے کرکے شادی کی تاریخ تبدیل کراتے رہے۔
ایک نیک دل نے جو کسی ٹی وی چینل میں ملازم تھے بولے۔ ''اگر آپ کہیں تو اپنے چینل کے ذریعے ایک امدادی فوٹیج چلوا دوں۔'' لڑکی والوں سے اس کا ذکر کیا تو بولے۔ ''اس طرح تو ہماری سفید پوشی کا جنازہ نکل جائے گا۔ اور شاید لڑکی کو زندگی بھر طعنے سننے پڑیں گے کہ ''تمہاری تو یہ حیثیت ہے۔''ایک صاحب نے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا، بولے: ''یار! تم اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دے دو۔ میرے کچھ جاننے والے ایسے ہیں جو حسب توفیق اس اکاؤنٹ میں رقم جمع کرادیں گے۔''''میرا تو کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں۔'' میں نے کہا۔''تو لڑکی والوں سے ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ لے آؤ۔''لڑکی والوں کے پاس گیا تو میری بات پر مسکرانے لگے۔ ''جہاں ہر مہینے قرض ادھار کی نوبت آتی ہو، وہاں پس انداز کیا ہوں گے۔ بینک میں کیا جمع کرائے جائیں گے؟'' ان سے کہا ''اپنے کسی رشتے دار کا اکاؤنٹ نمبر لادیں۔''کئی ہفتوں کے بعد ایک صاحب سے ایک نمبر ملا، مگر انھوں نے یہ شرط لگائی کہ ان کا نام سامنے نہ لایا جائے۔ بہرحال انھوں نے اپنا نمبر دیا ۔
کئی مہینوں کے بعد ان صاحب کے پاس گیا جنھوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط لگائی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بینک لے گئے اور وہاں اپنا بیلنس چیک کیا تو اس میں وہی رقم درج تھی جو انھوں نے اپنا نمبر دیتے ہوئے بتایا تھا۔ اس دوران انھوں نے خود بھی کوئی رقم جمع نہیں کرائی تھی۔ یہی صورت حال مزید چار پانچ مہینے بھی برقرار رہی۔ ہمدرد صاحب کو ساری بات بتائی گئی تو انھوں نے کہا ''بھئی! ہم نے تو اپنا کام کردیا تھا، ان لوگوں نے اپنا کام کیوں نہیں کیا یہ ہمیں نہیں معلوم۔''
کچھ دنوں کے بعد ایک خوش حال فرد سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے لوگوں کی اس سردمہری کا احوال سن کر بہت لعن طعن کی۔ بولے ''امداد باہمی سے تو ایک لڑکی کیا بیسیوں لڑکیاں بیاہی جاسکتی ہیں ، میں ہی اس بے چاری لڑکی کی ڈولی اٹھوا دوں گا۔''''اللہ آپ کی خوش حالی کو مزید خوش حال کرے۔'' ہم نے انھیں دل ہی دل میں دعا دی۔
''مگر دیکھو بھئی! میری کچھ شرطیں ہیں۔''
''جی، وہ کیا ہیں؟''
''ایک تو یہ کہ کسی مایوں، کسی مہندی کی تقریب کے انعقاد سے پرہیز کرنا ہوگی۔ دوسرے مسجد میں نکاح پڑھواکر رخصتی کردی جائے۔ اگر کھانا کھلایا بھی جائے تو ایک ڈش سے زیادہ نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ مجھے اس خاندان کے پورے کوائف سے آگاہ کیا جائے۔''''میرا خیال ہے آپ کی یہ ساری شرطیں لڑکی والے قبول کرلیں گے۔ ان کے کوائف کے بارے میں میں ہی آپ کو بتا دیتا ہوں ۔ آپ چاہیں تو اس خاندان کے افراد سے مل بھی سکتے ہیں۔''''نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ پندرہ دن بعد آپ یہیں ملاقات کریں۔'' پندرہ دنوں کے بعد موصوف سے ملاقات ہوئی تو بولے۔ ''آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے اس پر مجھے یقین تو ہے لیکن اگر ان کے کسی بندے سے ملاقات کرادیں تو۔۔۔''
میں نے لڑکی کے ایک بہنوئی، جس کا موبائل نمبر مجھے یاد تھا۔ اسے فون کر کے اسی وقت بلا لیا۔ اس سے مل کر اس کا باضابطہ ایک انٹرویو کرلیا اور جب میری بتائی ہوئی ساری باتوں کی تصدیق ہوگئی تو اس سے بولے۔ ''اگلے مہینے آپ آج کی تاریخ میں ہی یہیں ملیں ۔'' کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن میں نے لڑکی کے بہنوئی کو فون کیا۔ ''ارے بھئی! تم نے کچھ بتایا نہیں، ان کے پاس گئے بھی یا نہیں گئے؟''
''گیا تھا۔''
''کچھ دیا انھوں نے؟''
''دس ہزار روپے اور ایک پرچی ۔ پرچی پر لکھا تھا۔ معذرت خواہ ہوں کہ بس اتنے ہی کا بندوبست کرسکا۔ بچوں کا اپنی ماں کے ساتھ سوات اور مری وغیرہ جانے کا پروگرام بن گیا اور انھوں نے میری نیکی کے پروگرام کو سبوتاژ کردیا۔''
لڑکی کا بہنوئی بولا۔ ''بریکنگ نیوز یہ ہے انکل! جب لڑکی والوں نے اس تاریخ میں شادی نہ کرنے کا ایک نیا بہانہ بنایا تو لڑکے والوں نے رشتہ ختم کرنا ہی بہتر سمجھا۔''