صحرائے تھر

تھریوں کی دولت اُن کے مویشی ہوتے ہیں جو اناج اُگانے ، کنویں سے پانی نکالنے ، سفر کرنے اور دودھ دینے کے کام آتے ہیں ۔

SHEIKHUPURA:
اگر آپ پاکستان کے صحرائے تھر میں جائیں تو اسے دیکھ کر آپ پر تھر تھری طاری ہوجائے گی۔تھر میں پائے جانے والے بے شمار بچھوؤں اور سانپوں سے آپ کی زندگی کو خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے ۔

ماضی قدیم سے صحرائے تھر میں زندگی کا انحصار بارش کے پانی پر رہا ہے ۔ تھر میں دریا یا نہر کا کوئی وجود نہیں ۔وہاں پانی کا حصول کنوؤں سے ہوتا ہے جس سال صحرائے تھر میں بارشیں ہوتی ہیں تو کنوؤں کے پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جو نئے سال کی بارشیں ہونے سے قبل بہت نیچے چلی جاتی ہیں ، بعض کنویں تو خشک ہوجاتے ہیں ۔ بے آب وگیاہ صحرائے تھر میں بارش کا کرشمہ یہ ہے کہ بارش برسنے کے بعد سارے صحرائے تھر میں چہار جانب سبزہ نظر آنے لگتا ہے جسے دیکھنے کے لیے سندھ کے دیگر شہروں سے کافی لوگ آتے ہیں ۔

بارش کے بعد تھری عوام جشن مناتے ہیں ۔تھری عوام کے مویشی جن میں گائے،بکریاں، اُونٹ وغیرہ شامل ہیں بارش سے اُگنے والے سبزے کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں بارش نازل ہونے کے بعد تھری عوام کچھ مخصوص قابلِ کاشت زمین پر اناج اُگا لیتے ہیں اناج کے تیار ہونے تک اُسے کنویں کے پانی سے سینچا جاتا ہے اناج تیار ہو جاتا ہے تو اُسے اُتار کر سال بھر کھانے کے لیے جمع کر لیا جاتا ہے ۔کنویں کا پانی جو اُونٹوں اور گائے کے ذریعے رسی سے کھینچا جاتا ہے اُسے مویشی اور تھری عوام پینے اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ماضی میں جب انگریزوں کی حکومت تھی اُس دور میں تقریباً ہر سال بارشیں ہوجاتی تھیں اور کسی سال بارش نہیں ہوتی تو قحط کی صورتحال میں انگریز حکومت صحرائے تھر میں بر وقت اچھے امدادی اقدامات کر کے عوام کو اذیت سے بچا لیتی تھی ۔

پاکستان کے قیام کے بعد بنگال ، پنجاب اور صحرائے تھر کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔صحرائے تھر کا ایک حصہ بھارت کی ریاست راجھستان میں آگیا اور دوسرا حصہ پاکستان میں شامل ہوگیا ،بھارتی صحرائے تھر میں مارواڑی زبان اور پاکستانی صحرائے تھر میں مارواڑی اور سندھی بولی جاتی ہے ۔پاکستانی صحرائے تھر میں ہندو اور مسلمان آباد ہیں ۔ ہندو تھریوں کا پہناوا ثقافت آج بھی سیکڑوں سال پرانی والی ہیں ۔1970 کی دہائی تک تھر میں بارشیں ہر سال تقریباً ہوتی رہتی تھیں لیکن بعد کی دہائیوں میں دنیا بھر میں موسم میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگیں جس کی بنیادی وجہ پولیوشن (آلودگی) کو دنیا بھر کے موسمی ماہرین نے موردِ الزام ٹھہرایا ۔1970 کی دہائی تک حیدرآباد میں بارشیں ٹھیک ٹھاک ہو جاتی تھیں لیکن پچھلے دس سالوں میں بہت کم اور کسی کسی سال ہوتی ہی نہیں اس سال بھی حیدرآباد میں صرف دو مرتبہ ہلکی بارش ہوئی ایک مرتبہ 30 منٹ اور دوسری مرتبہ 5 منٹ تک ۔صحرائے تھر میں بھی تین سال سے بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے وہاں قحط نے ڈیرے جمالیے ۔تھریوں کی دولت اُن کے مویشی ہوتے ہیں جو اناج اُگانے ، کنویں سے پانی نکالنے ، سفر کرنے اور دودھ دینے کے کام آتے ہیں ۔


چونکہ تھر میں بارشیں نہ ہونے کے سبب مویشیوں کا چارہ ،اناج اور پانی کی کمی ہوگئی ہے اس لیے غذائیت کی کمی سے تھری عوام کے بچے اور مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں یہ بچے اور مویشی کسی وائرس یا بیماری سے ہلاک نہیں ہورہے ہیں بلکہ غذائیت کی انتہائی کمی سے مر رہے ہیں ۔ بچوں کے منہ میں چمچ سے دودھ یا دلیہ ڈالنے کے لیے دونوں اشیا ء موجود نہیں جس کی وجہ سے بچے روز بروز کمزور ہوتے ہوتے سوکھ کر جان دے دیتے ہیں یہ ہی حال مویشیوں کے چارے اور پانی کا ہے ۔ ماضی میں تھر میں تھری عوام کے علاج کے نام پر چند ڈسپنسریاں اور اکا دُکا چھوٹے اسپتال بنائے گئے تھے جن میں ڈھنگ کی اور بچھو ، سانپ کے ڈسنے کی ویکسین اور دوائیں موجود نہیں بیشتر عملہ اور ڈاکٹر غائب مگر ان کو تنخواہیں برابر ماہانہ ملتی رہتی ہیں یہ بھی لوٹ مار اور نوازنے کا ایک انوکھا طریقہ ہے ۔

تھر کے اسپتالوں میں علاج و خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو بڑے شہر حیدرآباد کے سرکاری ناقص بڑے اسپتال میں لایا جاتا ہے تب تک بچے انتقال کر چکے ہوتے ہیں ۔ بلوچستان کے مقام سوئی سے گیس نکلتی ہے تو پورے پاکستان میں اُس کی سپلائی شروع ہو جاتی ہے لیکن سندھ کے دریا سے کئی نہریں نکالی گئیں مگر آج تک کوئی نہر پانی کی سپلائی کے لیے صحرائے تھر تک نہیں پہنچائی گئی ۔ تھری عوام کے جان و مال کے نقصان کی ذمے داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ آیندہ سال بارشوں کے ہونے تک تھری عوام کے لیے بڑے پیمانے پر بڑی مقدار میں اناج اور پانی کی مدد صرف صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہی کرسکتی ہیں ۔ فلاحی ، خیراتی ،امدادی تنظیموں کے پاس اتنے وسائل نہیں جو ایک سال تک اُن کی مدد کر پائیں ان تنظیموں سے جو کچھ ہوسکتا تھا انھوں نے وہ کیا ۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ملک بھر میں مختلف فلاحی و دیگر تنظیموں کو ہر سال اربوں روپے چندہ عوام سے وصول ہوتا ہے لیکن ملک بھر میں شہری سماجی سطح پر لوگ عارضی طور پر چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر تھری عوام کے لیے چندہ جمع نہیں کرتے اگر وہ ایسا کریں تو اربوں روپے جمع ہوسکتے ہیں ۔

جن سے دودھ ، گیہوں ، چاول، بیسن ، چینی ،گھی اور منرل واٹر خرید کر اُن تک پہنچاکر اُن کی سال بھر کی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے اور عام عوام میں عزم ہو تو خدا ان عوام کی مدد سے اس کو کامیابی سے ہمکنار کر دے گا ۔اگر یہ مثال قائم ہوگئی تو آیندہ کے لیے بھی مثال بن جائے گی ۔ تھری عوام کی دُرگت بنانے میں جہاں صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہے وہاں شہری مڈل مین کا بھی حصہ ہے ۔ تھری لوگ چمڑے کے ہاتھ سے بنائے گئے خوبصورت جوتے ، رلی کی چادریں و دیگر اشیاء بناتے ہیں لیکن شہر کے مڈل مین وہاں آکر اُن سے ان اشیاء کو کوڑیوں کے مول خرید لیتے ہیں اور شہر جاکر دکانداروں کو مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں ۔

اے میرے تھری بھائیوں تم کو میرا پُر تپاک سلام کیونکہ آپ پُر امن ، صابر ، محنتی ، سختیاں برداشت کرنے والے ، قربانی دینے والے ، شریف ، سادہ بھولے عوام ہو آپ احتجاج نہیں کرتے آپ فرمانبردار ہو آپ نے کئی صدیوں سے اپنا پُرانا رہن سہن برقرار رکھا ہوا ہے آپ فطرت ، قدرت کے ساتھ سوتے جاگتے ہو آپ نے ایک ایسے ویرانے کو آباد کیا ہوا ہے جہاں کوئی مفت میں بھی رہنا نہیں چاہے گا آپ کو دیکھنے کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں سے سیانے آتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں ۔میرے تھری بھائیوں میں نے آپ کی جھونپڑیوں اور آپ پر گزرنے والی مصیبتوں کے مناظر مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھے مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کسی کی آنکھ پر نظر کا چشمہ نہیں تھا آپ محنت کش ہیں میلوں پیدل چلتے ہیں۔

آپ کے یہاں شوگر ، بلڈ پریشر ، ہارٹ و دیگر شہری بیماریاں نہیں ہوتیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ محنتی زندگی گزارنے سے آپ کی قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے اس لیے آپ پر بیماریاں حملہ نہیں کرتیں سوائے وائرس کے آپ بیمار نہیں ہوتے ۔آپ رنجیدہ نہ ہوں آپ شہری عذاب سے پاک ہیں آپ اپنے 100 بچے مرنے پر رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ پورے پاکستان کے شہری علاقوں میں روزانہ ہزاروں شہری بچے اچھی سہولیات و غذائیت ہونے کے باوجود پیدائش یا پیدائش کے بعد جاں بحق ہو جاتے ہیں ۔
Load Next Story