بات کچھ اِدھر اُدھر کی حادثے کا انتظار

بس ڈرائیور کے حوالے سے یہ پتا چلا کہ اس کی نہ صرف ایک آنکھ خراب تھی بلکہ وہ نشہ کا بھی عادی تھا.


احمر خان December 05, 2014
بس ڈرائیور کے حوالے سے یہ پتا چلا کہ اس کی نہ صرف ایک آنکھ خراب تھی بلکہ وہ نشہ کا بھی عادی تھا. فوٹو ایکسپریس نیوز

دو حادثات کے درمیان فاصلہ چاہے کم ہو یا زیادہ ایک چیز ہمیشہ مشترک رہی ہے او ر وہ ہے کمیٹی جس کو یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ حادثے کی وجوہات معلوم کرے تاکہ غلطی کا تدارک کیا جاسکے اور آئندہ ایسے حادثات سے بچا جاسکے ، لیکن پھردوبارہ اسی طرح کا حادثہ رونما ہوجاتا ہے، چاہے وہ کم عرصہ بعد ہو یا زیاددہ عرصہ بعد ۔ ایسا ہی ایک حادثہ کچھ دن پہلے لاہور کے قریب پیش آیا ، جہاں ایک ا سکول بس نالے میں جاگری۔

معلوم وجوہات میں پہلی بات یہ تھی کہ بس کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی جبکہ 75 بچوں والی بس میں لگ بھگ 150 بچے ٹھونسے ہوئے تھے ، تاہم بس ڈرائیور کے حوالے سے یہ پتا چلا کہ اس کی نہ صرف ایک آنکھ خراب تھی بلکہ وہ نشہ کا بھی عادی تھا ۔آخری اطلاعات تک 3 بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ۔ دوسری جانب ہمارے سیکورٹی اور ریسکیو اداروں کا اس علاقے میں دور دور تک کوئی پرسان حال نہیں، مجبورا گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو نکالا اور طبی امداد کے لئے اسپتال منتقل کیا۔

اس طرح کا ایک اور واقعہ کچھ عرصہ پہلے رونما ہوا تھا جس میں بس پل سے نیچے گر گئی تھی اور وجوہات تقریباً ملتی جلتی سی تھیں کہ بس کی حالت خراب ،اوور لوڈنگ اور ڈرائیور کا مستعد نہ ہونا شامل تھے۔ اس وقت بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا فرض ایسے حادثات کے ذمہ داروں کا تعین کرنا اور ان کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کرنا تھا۔ لیکن درحقیقت دونوں حادثوں کے بعد کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ نہ تو گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹ کے متعلق قانون میں کوئی بہتری لائی جا سکی اور نہ پہلے سے موجود قانو ن پر عمل درآمد پر کوئی مثبت تبدیلی کی گئی۔ بس چند دن حادثہ کو یاد کیا گیا اور بعد میں معمول کی زندگی شروع ہو گئی۔

آج کے ہمارے بچے مستقبل کے معمار ہیں۔ ان کو بنیادی سہولیات اور ضروریات فراہم کرنا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دیہی علاقے تو رہے ایک طرف ہمارے شہری علاقوں میں بھی اسکول و کالج کے بچے گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے بسوں پر لٹک کر خطرناک طریقوں سے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ کچھ تو بسوں کی چھت پر بھی سواری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ارباب اختیار عملی اقدامات کرنے کے بجائے صرف کمیٹی بنا کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا ہے۔ بہت ہے تو کسی ایک آدھ شخص کو معمولی سزا اور کیس ٹھپ ہو جاتا ہے۔ پھر کمیٹی کے دوبارہ فعال ہونے کے لئے کسی حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈورائیں تو ایک کمیٹی کی شکل ہمیں روزمرہ کی زندگی میں اپنی گلیوں محلے میں بھی نظر آتی ہے ، جن میں خواتین شامل ہوتی ہیں، ان کا کام تمام ممبر سے ماہانہ کی بنیاد پر پیسے اکھٹے کرکے کسی ایک ممبر کو دینا ہوتا ہے ،یہاں تک کہ کمیٹی کے تمام ممبر اس سے مستفید ہو جاتے ہیں۔یہ کمیٹیاں چند ماہ سے لے کر کئی سالوں پر بھی محیط ہوتی ہیں لیکن انکے غیر فعال ہونے یاخراب ہونے کا تناسب بھی کافی کم ہوتا ہے ۔ ہم ان کمیٹیوں کا مقابلہ حکومتی کمیٹی سے تو نہیں کر سکتے لیکن لیکن اختیارات کی موجودگی میں کسی حادثے کا دوبارہ اسی طرح رونما ہونا عملی اقدامات میں عدم توجہی کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔

ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ اگر کسی گھر کی چھت پر منڈیر نہ ہو تو اہل خانہ بچوں کے بڑے ہونے سے پہلے لازمی منڈیر بنا دیتے ہیں تاکہ کسی بھی حادثہ سے بچا جا سکے جبکہ معاملہ اگر قومی ہو اور ذمہ داری نہ پوری کی جائے یعنی جس طرح گھر کی منڈیر نہ بنی ہو تو اس گھر کے مالک کو ہی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح غفلت کی بنا پر مختلف حادثات کا ذمہ دار بھی اس دور حاضر کا حکمرانوں کو ہی ٹھہرایا جائے گا، نہ کہ پچھلے دور کے حکمران کو۔ کیونکہ جس طرح گزرا ہو لمحہ واپس نہیں آسکتا اسی طرح حادثے کا مالی نقصان تو شاید پورا ہو جائے لیکن زندگی بہت قیمتی ہے اور اسکا نعم البدل ماسوائے صبر کے کچھ نہیں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں