ایک صائب مشورہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی پلان سی شروع بھی نہیں ہوا اور اُس کی ناکامی کاخوف اُنہیں پلان ڈی پر بھی سوچنے پرمجبورکررہا ہے۔

mnoorani08@gmail.com

قوم نے ابھی چند ماہ پہلے وہ دن بھی دیکھا تھا جب حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے اور پی ٹی آئی کے چھ مطالبات میں سے تقریبا پانچ مان لیے گئے تھے لیکن یہ مذاکرات پی ٹی آئی کی جانب سے اچانک معطل کر دیے گئے۔ہم نے عمران خان کو کنٹینر پر تقریر کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ تم چاہے کتنے مذاکرات کرلو میاں صاحب ہم تمھارا استعفیٰ لیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔گویا پانچ نکات کا تسلیم کیا جانا اُن کی نظر میں کوئی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔

وہ اپنے چھٹے اور آخری مطالبے پرسختی کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے مگر اب لوگوں نے اُن کی اپنی زبان سے یہ بھی سن لیا کہ میاں صاحب کے استعفیٰ کے بناء ہی جوڈیشل کمیشن بنا لیا جائے اور جلد سے جلد مذاکرات بھی شروع کیے جائیں ۔اُن کے رویے میں یہ حیران کن تبدیلی کیونکر اورکیسے پیدا ہوئی اِس کا تو وہ خود ہی جواب دے سکتے ہیں لیکن ہمیں اتنا پتا ہے کہ اگر اُن کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہوتی تو وہ ہرگز اِس پر راضی نہ ہوتے مگر شاید اب وہ خفیہ ہاتھ بھی نہ رہے ۔

جن کے اشارے پر یہ سارا کھیل رچایا گیا تھا اور وہ رئیل کزن بھی نہ رہے جن کے کمٹٹد،جفاکش اور وفادار پیروکاروں نے دھرنے کی تمام تکالیف برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک پر مسلسل ڈیرہ ڈالے رکھا۔شاید خود عمران خان اور اُن کے ساتھی یہ تکلیفیں برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ آرام دہ زندگی گزارتے رہے ہیں۔

وہ اور اُن کے چاہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مبنی ہے جنہوں نے شایدکبھی بُرے دن نہیں دیکھے۔پی ٹی آئی اور پی اے ٹی دونوں کے دھرنوں میں یہ فرق اور امتیاز نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ ایک طرف مصیبت زدہ ، غربت کے مارے لوگ عورتوں اور بچوں سمیت گرمی سردی بارش کی پرواہ کیے بغیر اُس وقت تک وہاں جمے رہے جب تک کہ اُن کے رہنما نے اُنہیں گھرجانے کی اجازت نہیں دیدی جب کہ قریب ہی دوسرے دھرنے کے شرکاء ہرروز صرف چند گھنٹوں کے لیے جمع ہوتے اور پھر دلکش نغموں کی دھنوں پر رقص کرتے ہوئے رات گئے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔

عمران خان نے دھرنے سے نکل کر ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے اپنے پلان بی کے اختتام پر اسلام آباد میں 30نومبر کو ایک اور بڑاجلسہ بھی کر ڈالا۔ جہاں اُنہوں نے حکومت سے مذاکرت پھر سے شروع کرنے کی استدعا بھی کی اور ساتھ ساتھ شہروں کو بند کرنے کے اپنے پلان سی کا بھی اعلان فرما ڈالا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی پلان سی شروع بھی نہیں ہوا اور اُس کی ناکامی کاخوف اُنہیں پلان ڈی پر بھی سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت مل جانے کا چرچہ جو وہ بڑے زوروشور سے کر رہے تھے وہ صرف ایکسٹرا بیلٹ پیپر چھاپنے سے زیادہ کچھ نہ نکلا۔وہ اگر اِس ثبوت کو لے کر اپنا مقدمہ جیت سکتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی ہے۔


ایکسٹرا بیلٹ پیپر تو ہر الیکشن میں چھاپے جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے اور اِس ثبوت کے بل بوتے پر دنیا کی کوئی عدالت اُنہیں ریلیف نہیں دے سکتی۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اِس لیے اِس کو لے کر وہ کسی عدالت میں جانے کا ارادہ بھی نہیں کررہے ہیں۔یہ شواہد اور ثبوت کی ساری کہانی اپنے بے وقتی احتجاج کو جواز بخشنے کی ایک سعی ِ لا حاصل کے سوا کچھ نہیں۔سیاسی ٹکراؤ کا سفر عمران خان نے جس سیاست دان کی یقین دہانیوں پر شروع کیا تھا لگتا ہے وہ درست سمت نہیں جا رہا۔ اُس کی اپنی تو کوئی مقبول سیاسی پارٹی نہیں ہے۔

ہمارے تمام سیاست دانوں میں اُسے صرف ایک عمران خان ہی ایسا ملا تھا جو اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اُس کی باتوں میں آسکتا تھا۔جیسے جیسے وقت گذرتا جائے گا عمران خان کو اچھے اور بُرے کی تمیز یقینا آتی جائے گی۔ابھی وہ سیاسی طالب علمی کے دور سے گذر رہے ہیں۔ اُنہیں سیاست کے اِس وسیع و عریض میدان میںابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بے صبری، عدم برداشت اور جلد بازی ان کے لیے نقصان دہ ہو گی۔

میاں صاحب اور زرداری صاحب نے بھی کبھی یہی غلطیاں کی تھیں لیکن اب اُنہیں احساس ہو گیا ہے کہ آپس میں لڑ کر وہ اپنا ہی نقصان کیا کرتے ہیں۔وقت کی سختیوں، دشواریوں اورکرختگیوں نے اُنہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے اپنے اِس دور میں زرداری صاحب کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی اور بیان بازی نہیں کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف وہ کچھ نہیں کر رہے ہیں جو اپنے پہلے اور دوسرے دورِاقتدار میں کرتے رہے۔کرپشن اور مالی بدعنوانیوں سے متعلق بھی ابھی تک وہ خاموش ہیں۔ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اب جان گئے ہیں کہ اِس ساری مشقت کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ ہماری عدالت نے آج تک کسی بھی مقدمے میں زرداری صاحب کو مجرم قرار دیکر سزا نہیں سنوائی۔ دس دس سال تک مقدمے چلتے رہے ۔ زرداری جیل کی صعوبتیں بھی بھگتے رہے اور پھر باعزت بری بھی ہوتے رہے دیگر یہ کہ وہ بیک وقت دو محاذوں پر لڑائی مول نہیں لے سکتے تھے۔

ایک طرف عمران خان اپنا سارا زور میاں صاحب کو اقتدار سے بیدخل کرنے پر لگائے ہوئے ہیں ایسے میں اگر میاںصاحب زرداری صاحب کو بھی اپنا دشمن بنا لیتے تو کب کے محرومِ اقتدار ہو چکے ہوتے۔سیاسی بصیرت، دور اندیشی اور عقلمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ابھی صرف ایک ہی محاذ پر لڑا جائے۔عمران خان نے ایک بڑی غلطی یہی کی کہ اُنھوں نے پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو اپنا دشمن بنا لیا ۔ اُنھوں نے ہر ایک سے تصادم کا رویہ اپنایا۔ سیاستدانوں، صحافیوں اور ججوں پر بھی الزام تراشی کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آج اکیلے ہی کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ بس ایک طرف شیخ رشید ہیں اور دوسری طرف جہانگیر ترین۔سیاست میں ہوشمندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاتا۔زرداری صاحب اور میاں صاحب نے سیاست میں بہت مشکلات دیکھی ہیں۔

اِسی لیے وہ احتیاط ، حکمت اور دانش سے کام لے رہے ہیں۔ویسے بھی ہمارے ملک کے حالات سیاسی استحکام کے متقاضی ہیں ۔ہم مزید عدم استحکام اور ہنگامہ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔یہ سچ ہے کہ عمران خان نے عوام کی ایک بڑی تعداد کی پذیرائی اور حمایت حاصل کر لی ہے۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ اِسے مناسب وقت پر استعمال کرنے کے لیے سنبھال کر رکھیں جلد بازی، اضطراب اور بے چینی اُنہیں ناکامی سے دوچار کر سکتی ہیجس طرح وہ میاں صاحب کے پیشگی استعفیٰ کے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو چکے ہیں ۔ مزید سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیاب مذاکرات کی طرف ایک قدم اور بڑھائیں۔ انتخابی اصلاحات کے کاموں میں اپنا موثر کردار ادا کریں اور ایک جوڈیشل کمیشن کے فیصلے تک اپنے احتجاجی پروگرام کو اگر روک نہیں سکتے تو کم از کم پُر امن طریقے سے آگے بڑھائیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور تصادم کی سیاست سے پرہیز کریں ۔

عوام کی طاقت کو مثبت طریقوں سے استعمال کریں۔ اِس دوران وہ حکومت کے کاموں پر بھی گہری نظر رکھیں۔ اُسے کرپشن اور مالی غبن کا موقعہ نہ دیں۔ناقابل عمل اور فضول اعلانات نہ کریں جن پر بعد ازاں خفت شرمندگی اُٹھانی پڑے۔ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، سول نافرمانی اور ہنڈی کے ذریعے زرِ مبادلہ بھیجنے کی ترغیبات کو عوام ایسے کسی اقدام کے حمایت نہیں کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے ایسے کسی مطالبے پر لوگوں نے توجہ نہیں دی۔لوگوں کی اکثریت نے اُن کے پلان سی کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہی عوام جو اُنکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر روز جمع ہوجاتے ہیں کہیںاُن کی اشتعال انگیزی اور تلخ و ترش تقریروں سے بیزار ہو کر ایک بار پھر مایوسیوں اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں میں نہ بھٹک جائیں۔
Load Next Story