کہانی ابھی تک جاری ہے
حالات ہماری بربادی کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی بربادی کے خود ذمے دار ہیں۔
آپ ،میں، ہم سب اپنی اپنی موجودہ زندگی سے تنگ آچکے ہیں مسائل ہیں کہ کم ہوہی نہیں پا رہے ۔ ہمیں انسان تو کیا جانور تک کوئی بااختیار اور طاقتور تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ایسی بے اختیاری، ذلت،غربت، افلاس، دھکے، گالیاں، دھتکار کہ اپنے آپ سے نظر نہیں ملا پاتے، ہمیں اس طرح حالات کے چنگل میں پھنسایا گیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہیں، سوچ سوچ کر دماغ شل ہو چکے ہیں۔ امید کی کوئی دور دور تک مدھم سی بھی کرن کہیں نظر نہیں آتی۔
کیا کیا جائے یہ سوال بار بار دماغ پر ہتھوڑے مارتا رہتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم حالات کے مارے ہوئے ہیں یا ہم اپنے آپ کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈزرائیلی اس طرح دیتا ہے کہ حالات انسان کو نہیں بلکہ انسان حالات کو بناتا ہے اور جا رج برنارڈشا کہتا ہے '' لوگ جو کچھ ہیں اس کی ذمے داری حالات پر ڈالتے ہیں، میں حالات پر یقین نہیں رکھتا اس دنیا میں جن لوگوں نے نام پیدا کیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے بلکہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان حالات کو ڈھونڈا جن کی انھیں ضرورت تھی اگر وہ انھیں نہیں ملے تو انھوں نے ان کو پیدا کیا۔ '' اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات ہماری بربادی کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی بربادی کے خود ذمے دار ہیں ہماری اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ماحول ہمیں بناتا اور بگاڑتا ہے یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ہماری زندگی کے واقعات ہمیں نہیں بناتے بلکہ ہمارے وہ عقائد ہمیں وہی کچھ بناتے ہیں جو ہم ان واقعات کے بارے میں رائے اپنا لیتے ہیں ۔
بودین نے اس کی بڑی واضح انداز میں وضاحت کی ہے '' دولت کی خواہش کرنا اور پھر بھی ہمیشہ غریب رہنے کی توقع رکھنا۔اس سے ہمیشہ آپ کو اپنی قابلیت پر شک رہتا ہے اس طریقے سے خواہشات کو حاصل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے مشرق کی طرف جانے کے لیے مغرب کی طرف سفر کرنا، دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو انسان کو اس وقت کامیابی دلانے میں مدد دے سکے جب کہ وہ اپنی قابلیت پر شک کی بنا پر ناکامی کو دعوت دے رہا ہے ۔ آپ اسی سمت جائینگے جس طرف آپ کا چہرہ ہوگا ایک کہاوت ہے کہ بھیڑ جب بھی بھیں بھیں کریگی، یہ مٹھی بھر چارے سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ہر مرتبہ جب بھی آپ خود سے ایسی شکایات کرینگے کہ میں غریب ہوں میں کبھی وہ کام نہیں کر سکتا جو دوسرے کرتے ہیں ۔
میں ایک ناکام انسان ہوں میری تو قسمت ہی خراب ہے تو ان باتوں سے آپ اپنے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر رہے ہوتے ہیں اگر آپ کے ذہن میں ناکامی کا خوف بھرا ہوا ہے تو یہ آپ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیگا آپ کی تمام جدوجہد کو بے اثر کر دیگا اورآپ کے لیے کامیابی کا حصول ناممکن ہوجائے گا، ہماری تمام ناکامیوں کا ذمے دار صرف ہمارا خوف ہے ہم اس بڑھیا کی طرح ہیں جس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کے پیچھے پہاڑی ہٹانا چاہتی ہے اس لیے اس نے سجد ے میں جا کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ پہاڑی کو میرے گھر کے پیچھے سے ہٹا دے۔ اگلی صبح اٹھنے کے بعد وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف دوڑی پہاڑی ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھی۔ وہ تڑاق سے بولی میں جانتی تھی کہ ایسا ہی ہوگا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی لیکن میں جانتی تھی کہ میری دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دور کا سب سے عظیم فاتح بنایا پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل بھروسہ تھا اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا اسے اس بات پر مکمل بھروسہ تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی یا کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس موجود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا جب وہ کئی ہفتوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ آیا اسے آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑ جانا چاہیے ۔وہ سردیوں میں جنگ کے دوران ماسکو میں پھنس گیا تھا قدرت نے پہلے پہل اسے بھرپور موقع دیا کیونکہ برف باری اس وقت پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا اس لیے وہ جنگ ہار گیا ایسا نہیں کہ اسے برف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو خوف نے ہرا دیا۔ بچپن میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ جس کہانی کا انجام خوشگوار اور ہنسی خوشی نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کہانی ابھی جاری ہے ہماری کہانی بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارا انجام خوشگواراور ہنسی خوشی نہیں ہوگا ۔
السپ نے کہا تھا خوشحالی و آسودگی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے ، قسمت پر تکیہ کرنے مندر و مسجد میں دعائیں مانگنے یا منتیں ماننے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ محنت ، مشقت اور ہمت کو باقاعدہ کام میں لانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آپ کو اپنی بے اختیاری ، ذلت ، غربت ، افلاس ، دھتکار سے پیار ہو گیا ہے تو پھر اور بات ہے آپ اپنا پیار اور لگاؤ اسی طرح سے جاری وساری رکھیے۔ خدا آپ کو اس پیار میں اور برکت دیگا لیکن اگر آپ اپنے حالات سے تنگ آچکے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں سب سے پہلے ہم اپنے خوف کو قتل کر دیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ یہ بربادی ہمارا مقدر نہیں۔
یاد رہے تمام جائیداد اور جاگیریں چوری ، رشوت ، ڈاکہ زنی اور مختلف بدعنوانیوں کا نتیجہ ہیں یہ ضروری نہیں کہ یہ اعمال موجودہ مالک نے ہی سرانجام دیے ہوں یہ کام اس کے باپ داد، پردادا یا پشتوں تک کے آباؤ اجداد کا بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ یہ سب بدعنوانیوں کا ہی نتیجہ ہیں اور بدعنوان سے بڑا بزدل کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔آؤ بزدلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور پانے کے لیے پور اجہاں ہے، بس ہمیں اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ کرنا ہو گا اپنی قابلیت پر اعتقاد رکھنا ہوگا۔ یاد رکھو ہماری کہانی ابھی تک جاری ہے ۔
کیا کیا جائے یہ سوال بار بار دماغ پر ہتھوڑے مارتا رہتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم حالات کے مارے ہوئے ہیں یا ہم اپنے آپ کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈزرائیلی اس طرح دیتا ہے کہ حالات انسان کو نہیں بلکہ انسان حالات کو بناتا ہے اور جا رج برنارڈشا کہتا ہے '' لوگ جو کچھ ہیں اس کی ذمے داری حالات پر ڈالتے ہیں، میں حالات پر یقین نہیں رکھتا اس دنیا میں جن لوگوں نے نام پیدا کیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے بلکہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان حالات کو ڈھونڈا جن کی انھیں ضرورت تھی اگر وہ انھیں نہیں ملے تو انھوں نے ان کو پیدا کیا۔ '' اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات ہماری بربادی کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی بربادی کے خود ذمے دار ہیں ہماری اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ماحول ہمیں بناتا اور بگاڑتا ہے یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ہماری زندگی کے واقعات ہمیں نہیں بناتے بلکہ ہمارے وہ عقائد ہمیں وہی کچھ بناتے ہیں جو ہم ان واقعات کے بارے میں رائے اپنا لیتے ہیں ۔
بودین نے اس کی بڑی واضح انداز میں وضاحت کی ہے '' دولت کی خواہش کرنا اور پھر بھی ہمیشہ غریب رہنے کی توقع رکھنا۔اس سے ہمیشہ آپ کو اپنی قابلیت پر شک رہتا ہے اس طریقے سے خواہشات کو حاصل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے مشرق کی طرف جانے کے لیے مغرب کی طرف سفر کرنا، دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو انسان کو اس وقت کامیابی دلانے میں مدد دے سکے جب کہ وہ اپنی قابلیت پر شک کی بنا پر ناکامی کو دعوت دے رہا ہے ۔ آپ اسی سمت جائینگے جس طرف آپ کا چہرہ ہوگا ایک کہاوت ہے کہ بھیڑ جب بھی بھیں بھیں کریگی، یہ مٹھی بھر چارے سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ہر مرتبہ جب بھی آپ خود سے ایسی شکایات کرینگے کہ میں غریب ہوں میں کبھی وہ کام نہیں کر سکتا جو دوسرے کرتے ہیں ۔
میں ایک ناکام انسان ہوں میری تو قسمت ہی خراب ہے تو ان باتوں سے آپ اپنے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر رہے ہوتے ہیں اگر آپ کے ذہن میں ناکامی کا خوف بھرا ہوا ہے تو یہ آپ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیگا آپ کی تمام جدوجہد کو بے اثر کر دیگا اورآپ کے لیے کامیابی کا حصول ناممکن ہوجائے گا، ہماری تمام ناکامیوں کا ذمے دار صرف ہمارا خوف ہے ہم اس بڑھیا کی طرح ہیں جس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کے پیچھے پہاڑی ہٹانا چاہتی ہے اس لیے اس نے سجد ے میں جا کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ پہاڑی کو میرے گھر کے پیچھے سے ہٹا دے۔ اگلی صبح اٹھنے کے بعد وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف دوڑی پہاڑی ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھی۔ وہ تڑاق سے بولی میں جانتی تھی کہ ایسا ہی ہوگا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی لیکن میں جانتی تھی کہ میری دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دور کا سب سے عظیم فاتح بنایا پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل بھروسہ تھا اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا اسے اس بات پر مکمل بھروسہ تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی یا کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس موجود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا جب وہ کئی ہفتوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ آیا اسے آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑ جانا چاہیے ۔وہ سردیوں میں جنگ کے دوران ماسکو میں پھنس گیا تھا قدرت نے پہلے پہل اسے بھرپور موقع دیا کیونکہ برف باری اس وقت پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا اس لیے وہ جنگ ہار گیا ایسا نہیں کہ اسے برف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو خوف نے ہرا دیا۔ بچپن میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ جس کہانی کا انجام خوشگوار اور ہنسی خوشی نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کہانی ابھی جاری ہے ہماری کہانی بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارا انجام خوشگواراور ہنسی خوشی نہیں ہوگا ۔
السپ نے کہا تھا خوشحالی و آسودگی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے ، قسمت پر تکیہ کرنے مندر و مسجد میں دعائیں مانگنے یا منتیں ماننے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ محنت ، مشقت اور ہمت کو باقاعدہ کام میں لانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آپ کو اپنی بے اختیاری ، ذلت ، غربت ، افلاس ، دھتکار سے پیار ہو گیا ہے تو پھر اور بات ہے آپ اپنا پیار اور لگاؤ اسی طرح سے جاری وساری رکھیے۔ خدا آپ کو اس پیار میں اور برکت دیگا لیکن اگر آپ اپنے حالات سے تنگ آچکے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں سب سے پہلے ہم اپنے خوف کو قتل کر دیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ یہ بربادی ہمارا مقدر نہیں۔
یاد رہے تمام جائیداد اور جاگیریں چوری ، رشوت ، ڈاکہ زنی اور مختلف بدعنوانیوں کا نتیجہ ہیں یہ ضروری نہیں کہ یہ اعمال موجودہ مالک نے ہی سرانجام دیے ہوں یہ کام اس کے باپ داد، پردادا یا پشتوں تک کے آباؤ اجداد کا بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ یہ سب بدعنوانیوں کا ہی نتیجہ ہیں اور بدعنوان سے بڑا بزدل کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔آؤ بزدلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور پانے کے لیے پور اجہاں ہے، بس ہمیں اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ کرنا ہو گا اپنی قابلیت پر اعتقاد رکھنا ہوگا۔ یاد رکھو ہماری کہانی ابھی تک جاری ہے ۔