پاک بھارت تعلقات اور سار ک کا کردار
ہندوستان کو پاکستان کا قیام ابتدا ہی سے گوارا نہ تھا، ورنہ اثاثہ جات کی تقسیم میں دیانت وامانت کا دامن نہ چھوڑا جاتا
WASHINGTON:
دو قومی نظریہ برصغیر میں مسلمانوں کو دیگر مذاہب سے اس لیے ممتاز کرتا ہے کہ اس کے تحت مسلمان بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک ایسی ذات کی پناہ میں آگئے تھے جہاں سے کسی شے کا انکار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مایوسی کے گمان کی توقع کی جاتی ہے۔ ماضی میں مسلمانوں نے اگر برصغیر میں ہندوؤں سمیت دیگر مذاہب سے وابستہ افراد پر حکمرانی بھی کی ہے تو اس کی اساس وہ تعلیمات تھیں جو خاتم المرسلین ﷺ کی جانب سے کل عالم کی بہتری کے لیے عطا کی گئی تھیں۔
ہندوؤں نے گوکہ اس خطے میں اپنی حاکمیت قائم رکھی لیکن وہ کسی بھی طرح سے ذات پات کی غلامی سے کبھی بھی آزاد ہوئے اور نہ ہی اپنے مذہب کی غلام گردشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بنیادی طور پر انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک طرح سے بھیک پائی ہے جو انھیں مسلسل کمپنی سرکار کی خوشامدوں کے بعد نصیب ہوئی، کیونکہ انھوں نے انگریز سرکار کو یہاں اپنی فلاح وبہبود کے لیے جگہ نہیں دی تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں سے اپنی حکمرانی چھیننے کا بدلہ لینا تھا۔ انگریزوں کے پاکستان کا نقشہ بنانے اور اس میں مسلم علاقوں کی تقسیم کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا، اس میں بھی انھوں نے رخنہ اندازی کی اور اقتدار کی منتقلی کے موقع پر بھی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر، جوناگڑھ سمیت کئی مسلم علاقوں کا آزاد مسلم ریاست کے ساتھ الحاق نہ ہوسکا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کو پاکستان کا قیام ابتدا ہی سے گوارا نہ تھا، ورنہ اثاثہ جات کی تقسیم میں دیانت وامانت کا دامن نہ چھوڑا جاتا اور نہ ہی 1965، 1971 سمیت دیگر جنگیں ہوتیں اور نہ ہی ملک میں عصیبت کا ماحول پیدا ہوتا، جس سے مشرقی پاکستان کا پاکستان سے الگ ہونے کا دل خراش واقعہ وقوع پذیر نہ ہوتا۔ پاکستان کا ظرف دیکھیے کہ اس کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کو اپنا بڑا بھائی گردانتے ہیں اور ان کی ہمیشہ بھرپور کوشش ہے کہ خطے میں قیام امن کے لیے باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی دیگر اقدامات کے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں تعطل کے خاتمے کے لیے ذاتی طور پر اہم کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سیکریٹریز کی سطح پر مذاکرات پر زور دیا۔ رواں سال تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بھی 1999 کی طرز پر پاک بھارت تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے نریندرمودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی، البتہ مودی نے بجائے ان کی جانب سے خیرسگالی کا مثبت جواب دینے کے، انھیں دہشت گرد ملک کا سربراہ قرار دیتے ہوئے چارج شیٹ تھما دی۔ علاوہ ازیں لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں پر فائرنگ کردی۔
پاک بھارت تعلقات میں سب سے اہم رکاوٹ کشمیر کا تنازع ہے، جس پر اقوام متحدہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کر رکھی ہے، جب کہ بھارت ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جو بنیادی طور پر اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں اور المیہ یہ ہے کہ مودی نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر اس کی مداخلت کو غلط ٹھہرا دیا، جسے کسی بھی طرح اقوام متحدہ کی توہین قرار نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ پاکستان کا روز اول سے تاحال یہی موقف ہے کہ کشمیریوں کو اظہار کا حق دیا جائے تاکہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ انھیں کس طرح سے رہنا ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ اس کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ان کی آزادی سلب کرنے کے لیے مسلسل ان پر مظالم ڈھارہا ہے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں۔
پاکستان، جس نے ہر دور میں بھارتی جارحیت اور من مانیوں کے باوجود مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور حد درجہ نرمی کے ساتھ پہل کی ہے اس بار بھی کوشش یہی کی گئی کہ معاملات دوستانہ ماحول میں حل کیے جائیں تاکہ خطے میں امن و امان کی فضا قائم ہوجائے مگر مسلسل اشتعال انگیزی کے باعث حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی وزیراعظم نے دلیری کا ثبوت دیا ہے کہ خطے میں اگر تنازعات پیدا ہو رہے ہیں تو ان کا اصل ذمے دار بھارت کے علاوہ کوئی اور نہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے۔
پاکستان اس ساری صورتحال کے باوجود آج بھی جنوبی ایشیا کو تنازعات سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اور غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے خاتمے سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں پر یقین پیہم رکھتا ہے۔ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والی اٹھارویں سالانہ سارک سربراہی کانفرنس سے خطاب میں میاں نواز شریف نے اس تنظیم کو امن و خوشحالی کے لیے خطے کے عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا ہے۔ انھوں نے سارک کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور اس حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں کیونکہ پاکستان کی خواہش ہے کہ سارک کو بھی یورپی یونین کی طرح موثر بنایا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یورپی یونین اور دنیا کی دیگر علاقائی تنظیمیں لائق رشک ترقی کرسکتی ہیں تو سارک جو 30 سال سے علاقائی تنظیم کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ بھی رکن ممالک کی باہمی ترقی اور بہبود کے شعبوں میں اپنا مقام کیوں نہیں بناسکتی۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے اور مقام افسوس یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی غربت، افلاس، بیماری اور ناخواندگی کا شکار ہے جب کہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسانی اور سماجی اشاریے نہایت نچلی سطح پر ہیں۔ اس خطے کا اہم ترین تشخص یہ ہے کہ اس کی آبادی کا 20 فیصد سے زائد حصہ 24 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن اس عظیم افرادی قوت سے سوائے شدت پسندی کے اور کوئی دوسرا تعمیری کام نہیں لیا جارہا۔
ہم جانتے ہیں کہ کشمیر کے تنازعے کا تصفیہ کیے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری ممکن نہیں، اسی تناظر میں سارک کا کردار بھی موثر تنظیم کی حیثیت سے نہیں رہا اور اس کا اٹھارواں اجلاس بھی اس کشیدگی کو کم نہیں کرسکا، جس کی واضح مثال دونوں رہنماؤں کا سٹی ہال میں موجود ہونے کے باوجود علیک سلیک نہ کرنا اور ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے گریز کرنا تھا، جو میڈیا پر موضوع بحث بھی رہا، البتہ اختتامی سیشن کے موقع پر گوکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم جس گرم جوشی سے ملے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے بہرکیف متاثر کن نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی۔
کیونکہ پاکستانی اور بھارتی سیاست کا بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست معاملہ فہمی کی پالیسی پر کاربند ہے اور یہاں کے سیاست دان کھلے دل سے سیاست کرتے ہیں، یہاں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو بھارت مخالفت، رجحانات اور تعصبات کو ہوا دے کر اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہی ہو۔ پاکستان کے رائے دہندگان بھارتی رائے دہندگان کے مقابلے میں کھلے ذہن کے حامل ہیں اور مقامی مسائل کے حل کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جب کہ بھارت آج بھی بنیاد پرستانہ اور انتہاپسندانہ سیاست کے نرغے میں ہے۔ نریندر مودی جیسے اکثر سیاستدانوں کی سیاست پاکستان کے محور کے گرد گھومتی ہے اور پاکستان دشمنی کے منفی دائرے سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتی جو خطے میں قیام امن سمیت دیگر معاملات کی بہتری کے لیے زہر قاتل ہے۔
المختصر یہ کہ اگر جنوبی ایشیا میں صورتحال کی بہتری مقصود ہے تو سارک اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو غاصبانہ عزائم سے باز رکھنے کے اقدامات کرے وگرنہ آگ کا یہ الاؤ بھڑکتا رہے گا جس سے بیرونی قوتوں کو اپنے مفاد کے حصول میں قدر ے کم دشواری کا سامنا ہوگا جو کسی بھی لحاظ سے خطے کے لیے خوش آیند نہیں ہے۔
دو قومی نظریہ برصغیر میں مسلمانوں کو دیگر مذاہب سے اس لیے ممتاز کرتا ہے کہ اس کے تحت مسلمان بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک ایسی ذات کی پناہ میں آگئے تھے جہاں سے کسی شے کا انکار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مایوسی کے گمان کی توقع کی جاتی ہے۔ ماضی میں مسلمانوں نے اگر برصغیر میں ہندوؤں سمیت دیگر مذاہب سے وابستہ افراد پر حکمرانی بھی کی ہے تو اس کی اساس وہ تعلیمات تھیں جو خاتم المرسلین ﷺ کی جانب سے کل عالم کی بہتری کے لیے عطا کی گئی تھیں۔
ہندوؤں نے گوکہ اس خطے میں اپنی حاکمیت قائم رکھی لیکن وہ کسی بھی طرح سے ذات پات کی غلامی سے کبھی بھی آزاد ہوئے اور نہ ہی اپنے مذہب کی غلام گردشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بنیادی طور پر انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک طرح سے بھیک پائی ہے جو انھیں مسلسل کمپنی سرکار کی خوشامدوں کے بعد نصیب ہوئی، کیونکہ انھوں نے انگریز سرکار کو یہاں اپنی فلاح وبہبود کے لیے جگہ نہیں دی تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں سے اپنی حکمرانی چھیننے کا بدلہ لینا تھا۔ انگریزوں کے پاکستان کا نقشہ بنانے اور اس میں مسلم علاقوں کی تقسیم کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا، اس میں بھی انھوں نے رخنہ اندازی کی اور اقتدار کی منتقلی کے موقع پر بھی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر، جوناگڑھ سمیت کئی مسلم علاقوں کا آزاد مسلم ریاست کے ساتھ الحاق نہ ہوسکا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کو پاکستان کا قیام ابتدا ہی سے گوارا نہ تھا، ورنہ اثاثہ جات کی تقسیم میں دیانت وامانت کا دامن نہ چھوڑا جاتا اور نہ ہی 1965، 1971 سمیت دیگر جنگیں ہوتیں اور نہ ہی ملک میں عصیبت کا ماحول پیدا ہوتا، جس سے مشرقی پاکستان کا پاکستان سے الگ ہونے کا دل خراش واقعہ وقوع پذیر نہ ہوتا۔ پاکستان کا ظرف دیکھیے کہ اس کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کو اپنا بڑا بھائی گردانتے ہیں اور ان کی ہمیشہ بھرپور کوشش ہے کہ خطے میں قیام امن کے لیے باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی دیگر اقدامات کے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں تعطل کے خاتمے کے لیے ذاتی طور پر اہم کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سیکریٹریز کی سطح پر مذاکرات پر زور دیا۔ رواں سال تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بھی 1999 کی طرز پر پاک بھارت تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے نریندرمودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی، البتہ مودی نے بجائے ان کی جانب سے خیرسگالی کا مثبت جواب دینے کے، انھیں دہشت گرد ملک کا سربراہ قرار دیتے ہوئے چارج شیٹ تھما دی۔ علاوہ ازیں لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں پر فائرنگ کردی۔
پاک بھارت تعلقات میں سب سے اہم رکاوٹ کشمیر کا تنازع ہے، جس پر اقوام متحدہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کر رکھی ہے، جب کہ بھارت ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جو بنیادی طور پر اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں اور المیہ یہ ہے کہ مودی نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر اس کی مداخلت کو غلط ٹھہرا دیا، جسے کسی بھی طرح اقوام متحدہ کی توہین قرار نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ پاکستان کا روز اول سے تاحال یہی موقف ہے کہ کشمیریوں کو اظہار کا حق دیا جائے تاکہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ انھیں کس طرح سے رہنا ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ اس کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ان کی آزادی سلب کرنے کے لیے مسلسل ان پر مظالم ڈھارہا ہے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں۔
پاکستان، جس نے ہر دور میں بھارتی جارحیت اور من مانیوں کے باوجود مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور حد درجہ نرمی کے ساتھ پہل کی ہے اس بار بھی کوشش یہی کی گئی کہ معاملات دوستانہ ماحول میں حل کیے جائیں تاکہ خطے میں امن و امان کی فضا قائم ہوجائے مگر مسلسل اشتعال انگیزی کے باعث حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی وزیراعظم نے دلیری کا ثبوت دیا ہے کہ خطے میں اگر تنازعات پیدا ہو رہے ہیں تو ان کا اصل ذمے دار بھارت کے علاوہ کوئی اور نہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے۔
پاکستان اس ساری صورتحال کے باوجود آج بھی جنوبی ایشیا کو تنازعات سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اور غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے خاتمے سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں پر یقین پیہم رکھتا ہے۔ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والی اٹھارویں سالانہ سارک سربراہی کانفرنس سے خطاب میں میاں نواز شریف نے اس تنظیم کو امن و خوشحالی کے لیے خطے کے عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا ہے۔ انھوں نے سارک کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور اس حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں کیونکہ پاکستان کی خواہش ہے کہ سارک کو بھی یورپی یونین کی طرح موثر بنایا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یورپی یونین اور دنیا کی دیگر علاقائی تنظیمیں لائق رشک ترقی کرسکتی ہیں تو سارک جو 30 سال سے علاقائی تنظیم کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ بھی رکن ممالک کی باہمی ترقی اور بہبود کے شعبوں میں اپنا مقام کیوں نہیں بناسکتی۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے اور مقام افسوس یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی غربت، افلاس، بیماری اور ناخواندگی کا شکار ہے جب کہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسانی اور سماجی اشاریے نہایت نچلی سطح پر ہیں۔ اس خطے کا اہم ترین تشخص یہ ہے کہ اس کی آبادی کا 20 فیصد سے زائد حصہ 24 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن اس عظیم افرادی قوت سے سوائے شدت پسندی کے اور کوئی دوسرا تعمیری کام نہیں لیا جارہا۔
ہم جانتے ہیں کہ کشمیر کے تنازعے کا تصفیہ کیے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری ممکن نہیں، اسی تناظر میں سارک کا کردار بھی موثر تنظیم کی حیثیت سے نہیں رہا اور اس کا اٹھارواں اجلاس بھی اس کشیدگی کو کم نہیں کرسکا، جس کی واضح مثال دونوں رہنماؤں کا سٹی ہال میں موجود ہونے کے باوجود علیک سلیک نہ کرنا اور ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے گریز کرنا تھا، جو میڈیا پر موضوع بحث بھی رہا، البتہ اختتامی سیشن کے موقع پر گوکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم جس گرم جوشی سے ملے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے بہرکیف متاثر کن نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی۔
کیونکہ پاکستانی اور بھارتی سیاست کا بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست معاملہ فہمی کی پالیسی پر کاربند ہے اور یہاں کے سیاست دان کھلے دل سے سیاست کرتے ہیں، یہاں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو بھارت مخالفت، رجحانات اور تعصبات کو ہوا دے کر اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہی ہو۔ پاکستان کے رائے دہندگان بھارتی رائے دہندگان کے مقابلے میں کھلے ذہن کے حامل ہیں اور مقامی مسائل کے حل کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جب کہ بھارت آج بھی بنیاد پرستانہ اور انتہاپسندانہ سیاست کے نرغے میں ہے۔ نریندر مودی جیسے اکثر سیاستدانوں کی سیاست پاکستان کے محور کے گرد گھومتی ہے اور پاکستان دشمنی کے منفی دائرے سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتی جو خطے میں قیام امن سمیت دیگر معاملات کی بہتری کے لیے زہر قاتل ہے۔
المختصر یہ کہ اگر جنوبی ایشیا میں صورتحال کی بہتری مقصود ہے تو سارک اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو غاصبانہ عزائم سے باز رکھنے کے اقدامات کرے وگرنہ آگ کا یہ الاؤ بھڑکتا رہے گا جس سے بیرونی قوتوں کو اپنے مفاد کے حصول میں قدر ے کم دشواری کا سامنا ہوگا جو کسی بھی لحاظ سے خطے کے لیے خوش آیند نہیں ہے۔