ایف بی آر کا ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس کو کریسٹ تک رسائی کا فیصلہ

مقصد فلائنگ انوائسز میں ملوث افراد اور جعلی ریفنڈز لینے والوں کا سراغ لگانا ہے


Irshad Ansari December 06, 2014
بعض ایف بی آر فیلڈ فارمیشنز میں کریسٹ کے بھی غلط استعمال کی اطلاعات ہیں، ذرائع فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو حکام کو جعلی اور فلائنگ انوائسز کے کاروبار میں ملوث لوگوں اور انکے ذریعے بوگس اور جعلی ریفنڈز لینے والے ٹیکس دہندگان کا سراغ لگانے کے لیے کمپیوٹرائزڈ رسک بیسڈ ایویلیوایشن آف سیلز ٹیکس (سی آر ای ایس ٹی۔ کریسٹ) تک رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے ایف بی آر سے کریسٹ تک رسائی مانگی تھی تاکہ کریسٹ کے ڈیٹا کو استعمال کر کے ان لوگوں کا پتا چلایا جائے جو فلائنگ اور جعلی انوائسز کے کاروبار میں ملوث ہیں اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ مذکورہ انوائسز کے ذریعے کون کون سے ٹیکس دہندگان جعلی ریفنڈز حاصل کرتے رہے ہیں تاکہ ان ٹیکس دہندگان سے ریکوری کو یقینی بنایا جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے بعض فیلڈ فارمشنز میں کریسٹ کے بھی غلط استعمال کی اطلاعات ملی ہیں۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ہدایت پر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے حکام کو کریسٹ تک رسائی دینے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں جس کے بعد اب انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے حکام کریسٹ کے ڈیٹا حاصل کرکے تجزیہ کرسکیں گے اور جو لوگ ٹیکس چوری اور جعلی و بوگس ریفنڈز کے حصول میں ملوث پائے جائیں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے مذکورہ سسٹم کو جعلی اور بوگس سیلزٹیکس ریفنڈز کی روک تھام کیلیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سسٹم میں جو ریفنڈ کیس مشکوک پائے جاتے تھے ان کے بارے میں ریڈ الرٹ جاری کیے جاتے تھے اور ان کیسوں کی مکمل چھان بین کے بعد ریفنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ سسٹم کے ذریعے بڑے پیمانے پر جعلی اور بوگس انوائسز کا کاروبار کرنے والے لوگوں کا سراغ لگایا گیا تھا مگر ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی، اب ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو حکام اس ڈیٹا کی چھان بین کریں گے تاکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا اور ریکوریاںکی جا سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں