فلم ریویو روایت
اس وقت انیتا کی مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں جب اس کا شوہر راج بھی مخالفین کی صف میں جاکھڑا ہوتا ہے
ہندوستانی معاشرے میں کئی سماجی برائیاں موجود ہیں جن میں سے ایک برائی لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینا ہے۔
ابارشن کروانا انسانی جان لینے ہی کے مترادف ہے۔ بھارت میں لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینے کا رجحان وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ اس قتل عام کی بنیادی وجہ جہیز کی رسم اور بھارت میں پھیلی ہوئی غربت ہے۔ جہیز کے ڈر کی وجہ سے لوگ الٹراساؤنڈ کے ذریعے اپنے ہونے والے بچے کی جنس معلوم کرتے ہیں اور لڑکی ہونے پر ابارشن کروادیتے ہیں۔
اس مجرمانہ اور قبیح فعل کے خلاف ہندوستان میں مختلف سطحوں پر آواز بھی اٹھائی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ڈائریکٹر وجے پاٹکر کی اس فلم میں بھی یہی مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے۔ ''روایت'' کے مرکزی اداکاروں میں سماپیکا دیبناتھ، خالد صدیقی، سوربھ دوبے، ادیتیا لاکھیا اور راجندر گپتا شامل ہیں۔
'' روایت'' کا آغاز ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر سے دس کروڑ لڑکیاں غائب ہیں۔ ان لڑکیوں کو پیدا ہونے کے بعد یا پیدائش سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ ایک اہم سماجی مسئلے پر بنائی گئی فلم کا آغاز ایسا ہی ہونا چاہیے، تاہم آگے چل کر یہ فلم اپنے موضوع سے ہٹ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔
'' روایت ''کی کہانی ایک وکیل اور این جی او کی کارکن انیتا ( سماپیکا دیبناتھ) کے گرد گھومتی ہے۔ جو اپنے گاؤں، گنگا پور اور اپنے خاندان میں جاری ایک روایت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ اور وہ روایت ہے لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینے کی روایت۔ وہ اپنی ملازمہ رادھا کے شرابی شوہر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے پولیس کی مدد چاہتی ہے اور یہیں سے اس روایت کے خلاف اس کی جدوجہد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گاؤں کا واحد ڈاکٹر، پولیس انسپکٹر، گاؤں کا سرپنچ اور خود انیتا کا سسر بہ تدریج اس کے مخالف بن جاتے ہیں۔
یہ سب اسے گاؤں میں برسوں سے چلی آرہی روایت کے خلاف احتجاج کرنے سے روکتے ہیں۔ اس وقت انیتا کی مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں جب اس کا شوہر راج بھی مخالفین کی صف میں جاکھڑا ہوتا ہے۔ تاہم اسی دوران حالات نیا موڑ لیتے ہیں اور صورت حال کچھ ایسا رخ اختیار کرتی ہے کہ انیتا کو عدالت میں اپنے شوہر کا دفاع کرنا پڑتا ہے اور انھی دنوں اس کے ہاں ایک بیٹی کی ولادت بھی متوقع ہوتی ہے۔
اس موڑ پر آکر یہ فلم اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے۔
اس کے بعد سے آخر تک فلم کی کہانی شوہر کے دفاع کے لیے انیتا کی قانونی جنگ تک محدود ہوجاتی ہے۔ اگر وجے پاٹکر اپنی توجہ صرف پیدائش سے پہلے لڑکیوں کے قتل پر مرکوز رکھتے تو بلاشبہ یہ ایک بہترین اور بامقصد فلم ثابت ہوتی، لیکن اس موڑ پر آکر فلم ٹریک سے اُتر جاتی ہے۔ اداکاری کا شعبہ اگرچہ مضبوط ہے لیکن ڈرامائی موسیقی کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اگرسین کی ڈیمانڈ کے مطابق پس پردہ موسیقی شامل کی جاتی تو ناظرین پر فلم کا مضبوط تاثر قائم ہوتا، تاہم کم زور اسکرپٹ کی کمی اس سے بھی پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ مجموعی طور پر '' روایت '' بھارتی سماج میں پھیلی اس برائی کو صحیح طور پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ابارشن کروانا انسانی جان لینے ہی کے مترادف ہے۔ بھارت میں لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینے کا رجحان وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ اس قتل عام کی بنیادی وجہ جہیز کی رسم اور بھارت میں پھیلی ہوئی غربت ہے۔ جہیز کے ڈر کی وجہ سے لوگ الٹراساؤنڈ کے ذریعے اپنے ہونے والے بچے کی جنس معلوم کرتے ہیں اور لڑکی ہونے پر ابارشن کروادیتے ہیں۔
اس مجرمانہ اور قبیح فعل کے خلاف ہندوستان میں مختلف سطحوں پر آواز بھی اٹھائی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ڈائریکٹر وجے پاٹکر کی اس فلم میں بھی یہی مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے۔ ''روایت'' کے مرکزی اداکاروں میں سماپیکا دیبناتھ، خالد صدیقی، سوربھ دوبے، ادیتیا لاکھیا اور راجندر گپتا شامل ہیں۔
'' روایت'' کا آغاز ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر سے دس کروڑ لڑکیاں غائب ہیں۔ ان لڑکیوں کو پیدا ہونے کے بعد یا پیدائش سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ ایک اہم سماجی مسئلے پر بنائی گئی فلم کا آغاز ایسا ہی ہونا چاہیے، تاہم آگے چل کر یہ فلم اپنے موضوع سے ہٹ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔
'' روایت ''کی کہانی ایک وکیل اور این جی او کی کارکن انیتا ( سماپیکا دیبناتھ) کے گرد گھومتی ہے۔ جو اپنے گاؤں، گنگا پور اور اپنے خاندان میں جاری ایک روایت کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ اور وہ روایت ہے لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینے کی روایت۔ وہ اپنی ملازمہ رادھا کے شرابی شوہر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے پولیس کی مدد چاہتی ہے اور یہیں سے اس روایت کے خلاف اس کی جدوجہد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گاؤں کا واحد ڈاکٹر، پولیس انسپکٹر، گاؤں کا سرپنچ اور خود انیتا کا سسر بہ تدریج اس کے مخالف بن جاتے ہیں۔
یہ سب اسے گاؤں میں برسوں سے چلی آرہی روایت کے خلاف احتجاج کرنے سے روکتے ہیں۔ اس وقت انیتا کی مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں جب اس کا شوہر راج بھی مخالفین کی صف میں جاکھڑا ہوتا ہے۔ تاہم اسی دوران حالات نیا موڑ لیتے ہیں اور صورت حال کچھ ایسا رخ اختیار کرتی ہے کہ انیتا کو عدالت میں اپنے شوہر کا دفاع کرنا پڑتا ہے اور انھی دنوں اس کے ہاں ایک بیٹی کی ولادت بھی متوقع ہوتی ہے۔
اس موڑ پر آکر یہ فلم اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے۔
اس کے بعد سے آخر تک فلم کی کہانی شوہر کے دفاع کے لیے انیتا کی قانونی جنگ تک محدود ہوجاتی ہے۔ اگر وجے پاٹکر اپنی توجہ صرف پیدائش سے پہلے لڑکیوں کے قتل پر مرکوز رکھتے تو بلاشبہ یہ ایک بہترین اور بامقصد فلم ثابت ہوتی، لیکن اس موڑ پر آکر فلم ٹریک سے اُتر جاتی ہے۔ اداکاری کا شعبہ اگرچہ مضبوط ہے لیکن ڈرامائی موسیقی کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اگرسین کی ڈیمانڈ کے مطابق پس پردہ موسیقی شامل کی جاتی تو ناظرین پر فلم کا مضبوط تاثر قائم ہوتا، تاہم کم زور اسکرپٹ کی کمی اس سے بھی پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ مجموعی طور پر '' روایت '' بھارتی سماج میں پھیلی اس برائی کو صحیح طور پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے۔