امریکا روس اور چین کی سیاسی مثلث کیا پاکستان اپنی اہمیت کیش کراپائے گا ۔۔۔۔

2015 میں پاکستان کو پھلنے پھولنے کا ایک اور نادر موقع میسر آنے والا ہے۔

حسب روایت اِس موقع کو بھی اپنی نا اہلی اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے بروقت کیش نہ کرایا تو پھر وطن عزیز کے پاس کھونے کے لیے تو بہت کچھ ہوگا۔فوٹو: فائل

عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی مجموعی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ سال 2015 میں پاکستان کو پھلنے پھولنے کا ایک اور نادر موقع میسر آنے والا ہے۔

پاکستانی راہ نماؤں نے اگر حسب روایت اِس موقع کو بھی اپنی نا اہلی اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے بروقت کیش نہ کرایا تو پھر وطن عزیز کے پاس کھونے کے لیے تو بہت کچھ ہوگا لیکن پانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ عالمی تزویراتی سطح پر طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے روس، امریکا اور چین کے درمیان جو غیر محسوس کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے، اس کے نمایاں اثرات سال 2015 میں سامنے آنے کی قوی امید ہے۔ طاقت کی اِس تکون کی زد پر جو ممالک آتے ہیں، اُن میں وطن عزیز بھی شامل ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کی کہانی ڈرامائی انداز میں آگے بڑھی تودوسری طرف پاک چین تعلقات اِس ڈرامائی انداز سے محفوظ رہے جب کہ پاک روس تعلقات گزشتہ پانچ دہائیاں سرد مہری کا شکار رہے کیوں کہ بھارت اور روس کے تعلقات نے پاکستان اور روس کے درمیان گرم جوشی کی فضا کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا تھا لیکن اب یہ ماضی کی باتیں ہیں اور آنے والے دن یہ فیصلہ کرنے والے ہیں کہ پاکستان نے ان تینوں بڑے ممالک کے ساتھ کس طرح اپنے تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے اپنے بہترین مفادات کا تحفظ کرناہے۔

قریباً 45 سال بعد پاک روس تعلقات میں گرم جوشی کا جو ایک نیا موڑ آیا ہے، وہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاست اور مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ عالمی طاقتیں نئی صف بندی کر رہی ہیں اور نئے زمینی حقائق، نئے رابطوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں نہایت خاموشی سے جب روس اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ فوجی تعاون کو عملی شکل دینے کے لیے سمجھوتے پر دونوں ممالک کی وزارت دفاع نے دست خط کیے تو عالمی سطح پر اِس کا نہ صرف نوٹس لیا گیا بل کہ اِس سمجھوتے کو خطے میں ایک نئی پیش رفت سے بھی تعبیر کیا گیا۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل 1969 میں سوویت وزیر دفاع آندرے گریچکو نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روس کے موجودہ وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد کہا کہ فریقین اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ دو طرفہ فوجی تعاون کو بھرپور انداز میں عملی شکل دی جانی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کی افواج کی جنگی صلاحیتوں میں بہتری لائی جا سکے۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور یہ اصرار بھی کیا کہ روس، شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے پاکستان کی مدد کرے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

ماسکو اور اسلام آباد کے عسکری طور پر قریب آنے سے روس بھارت تعلقات کے متاثر ہونے سے متعلق بھی بہت سے اندازوں نے جنم لیا ہے لیکن ہتھیاروں کی عالمی تجارت کے تجزیے کے مرکز کے ڈائریکٹر ایگور کوروت چینکو نے اس ضمن میں پاکستان بھارت ٹکراؤ کو یک سر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ روسی تعلقات کسی طرح بھی بھارت کی مخالفت نہیں ہیں۔ بھارت پہلے بھی روس کا اہم تزویری شراکت کار ہے اور اب بھی رہے گا۔ جہاں تک پاکستان کو روسی عسکری ساز و سامان دینے کا معاہدہ طے پایا ہے، (جس میں سرفہرست ہیلی کاپٹر ایم آئی۔35 شامل ہیں) اس سے خطے میں طاقت کا توازن نہیں بگڑے گا۔

افغانستان میں امریکی فوجی دستوں میں تخفیف سے پاکستانی قیادت کو جن نئے خطرات کا سامنا ہے اُن کا تعلق افغانستان اور پاکستان میں طالبان کی ممکنہ فعالیت اور افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون ہے۔ روس کے انسٹی ٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک محقق ایڈدر کورتوو ایسے ہی خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان قابل اعتماد شراکت کار تلاش کر رہا ہے، ان شراکت کاروں میں روس بھی شامل ہوسکتا ہے۔

پاکستان بہت عرصے سے شنگھائی تنظیم تعاون میں مبصّر ملک ہے۔ پاکستان اور ہندوستان ہی اب وہ ملک ہیں، جن کا آئندہ برس اس تنظیم میں مکمل رکن بن جانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس لیے روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا فروغ شنگھائی تنظیم تعاون کا بھی ایک اہم مقصد ہے اور روس بھی چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے چناںچہ اسے ایسے ساتھی درکار ہیں، جنہیں وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے اور سلامتی کے میدان میں کردار ادا کرنے کے لیے امداد دے، جو اسے اپنے مفادات کے پیش نظر دینی بھی چاہیے۔

یاد رہے کہ روس کے عسکری شعبے کے سربراہ کا پاکستان کا یہ دورہ پینتالیس برس کے وقفے کے بعد ہوا ہے، وہ چین کے بعد پاکستان پہنچے تھے۔ مذاکرات میں ہیلی کاپٹر ایم آئی۔ 35 کی بیس عدد پر مشتمل ایک کھیپ دینے سے متعلق بات چیت ہوئی کیوں کہ ان ہیلی کاپٹروں کی مدد سے پاکستان دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف لڑنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی فوج، کم اور وسطی فاصلے کے میزائل نظام، دور مار گائیڈڈ میزائلوں اور ملٹی پل راکٹ لانچنگ سسٹم خریدنے میں بھی دل چسپی رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا ساختہ اسلحہ چین اور روس کے مقابلے میں انتہائی منہگا پڑتا ہے۔

عسکری ماہر اور جیو پولیٹیکل اکادمی کے نائب صدر کانستِن تین سیوکوو کہتے ہیں کہ روس اور چین ہی پاکستان کے لیے سود مند ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی عسکری ساز و سامان اس عسکری ساز و سامان کے ہم پلہ نہیں ہوتا، جواُسے چین سے ملتا ہے جب کہ چین کا ساز و سامان روس کے ساز و سامان کے ساتھ بڑی حد تک ملتا جلتا ہے کیوںکہ وہ سوویت یونین یا روس میں تیار کیے جانے والے ساز و سامان کے معیار کے مطابق تیار ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کے لیے امریکا کے بجائے روس سے رجوع کرنا سود مند ہوگا کیوں کہ موثر ہونے میں روسی ہتھیار کسی طرح بھی امریکی ہتھیاروں سے کم نہیں۔

طاقت کی اس نئی تکوین کی ایک نئی جہت یہ بھی ہے کہ روس اور چین نے بھی ایک سمجھوتے پر دست خط کر دیے ہیں جس کے مطابق روس، چین کو بڑے فاصلے پر مار کرنے والے میزائل شکن آلات ایس۔400 فراہم کرے گا، اس بارے میں مذاکرات کچھ سال سے جاری تھے۔ روسی اخبار ویدوموستی نے دفاعی صنعت اور وازرت دفاع کے حوالے سے لکھا ہے کہ روسی ماہر سیاسیات اوان کونووالفو کا اندازہ ہے کہ یہ آلات جنوبی چین میں نصب کیے جائیں گے تاکہ تائیوان اور متنازعہ جزائر کی فضائی نگرانی کی جا سکے۔

یاد رہے کہ اس سال موسم بہار میں روس کے ذرائع ابلاغ عامہ نے خبر دی تھی کہ ولادی میر پیوتن نے چین کو ایس 400 آلات کی فراہمی کی منظوری دے دی ہے۔ جولائی میں یہ آلات سب سے پہلے چین کو برآمد کیے جا سکتے ہیں۔ روس کے معروف عسکری ماہر ایگور کوروت چینکو سمجھتے ہیں کہ روس اور پاکستان کی قربت سے سب کو فائدہ پہنچے گا کیوںکہ روس اپنے عسکری تعاون کے ذریعے ملکوں کو ان اسلامی بنیاد پرستوں کے خلاف لڑائی میں مضبوط بناتا ہے، جو وسط ایشیا میں مصروف عمل ہیں۔




دوسری جانب یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان پچھلے پینتیس برسوں سے روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں کر رہا تھا لیکن اس میں کام یابی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ روسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بھارتی اثر و رسوخ بہت نمایاں تھا مگراب حالات بدل چکے ہیں۔ بھارت نے امریکا کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کر لیا ہے، وہ اپنی فوج کے اسلحے کو مغربی ہتھیاروں سے بدلنا چاہتا ہے۔ اسے ماضی کی طرح اب روس کی ضرورت نہیں رہی۔ اس لیے بھارت نے یوکرائن اور کریمیا کے مسئلے پر بھی روس کا ساتھ نہیں دیا۔ اس لیے بدلتے ہوئے حالات روس اور پاکستان کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔

چین اور امریکا کے بعد روس سے تعلقات کی بحالی پاکستان کے غیر جانب دارانہ تاثر کو فروغ دے سکتی ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کو سستا اسلحہ ملنے کی امید ہے البتہ اس کے خلاف بھارت کی طرف سے ردعمل آ سکتا ہے اور بھارت اس معاہدے کو غیر موثر بنانے کی کوششیں کر سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دونوں ممالک مختلف عالمی ایشوز پر ایک دوسرے کے ساتھ کتنا چل سکیں گے؟

روس اور پاکستان کے مابین ہونے والا حالیہ معاہدہ ایک فریم ورک معاہدہ ہے، جس میں ان شعبوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن میں دونوں ملک باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان اور روس دونوں اپنی خارجہ پالیسی کے آپشنز کو وسیع کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ معاہدے کے باوجود بھارت سے تعلقات روس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رہے گا جب کہ پاک روس معاہدہ، بھارت اور امریکا کے خلاف نہیں بل کہ یہ امن کے قیام کی طرف ایک قدم ہے۔

اب اس بات کو بھی مان لینا چاہیے کہ کوئی ملک پاکستان کی فوج کو نظرانداز کر کے کاؤنٹر ٹیرر ازم کے حوالے سے سول حکومت سے تعلقات نہیں بنا سکتا۔ اس لیے اب پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے وعدوں کو نباہنا ہوگا، اسی سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بڑھ سکتی ہے اور پاکستان کے عالمی سطح پر بہتر تعلقات سے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔

یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ پاک روس معاہدہ، نہ صرف خطے میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف ہے بل کہ اس کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے، گو کہ یہ معاہدہ بہت عمدہ ہے لیکن اصل چیلنج، اس پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اب خارجہ پالیسی کی اہم ترجیحات کے حوالے سے سول حکومت، فوج اور فارن آفس میں بہتر انڈر اسٹینڈنگ قائم رہنی چاہیے اور نئی حکومت کے آنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

لیکن دوسری جانب یہ بھی اہم بات ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کی امریکا میں پذیرائی عین اس وقت ہوئی جب پاکستان کی سول حکومت کا روس کے ساتھ معاہدہ ہو۔ اس تناظر میں یہ معاہدہ معنی خیز بھی دکھائی دیا۔ اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ یہ معاہدہ پاکستان کی سول حکومت کی طرف سے پاکستانی آرمی چیف کی پذیرائی کرنے والے امریکا کے لیے کوئی پیغام تو نہیں ؟ کیوں کہ پاکستان کے آرمی چیف امریکا سے پلٹے بھی نہیں تھے کہ صدر اوباما نے مارچ 2015 میں بھارت کا دورہ کرنے اور بھارت کے ساتھ نئے معاہدوں کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اس لیے ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اس معاہدے کے ثمرات سمیٹنے کے ساتھ امریکا اور روس کی دو رْخی سیاست پر بھی گہری نظر رکھے۔

امریکا کی دو رخی پالیسیوں کو تو پاکستان بارہا بھگت چکا ہے لیکن روس کے قومی نشان ''عقاب'' کے بھی دو سر ہیں۔ ایک دائیں جانب دیکھتا ہے تو دوسرا بائیں جانب۔ دنیا کی کئی دیگر قوموں نے بھی اسی قدیم نشان کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے لیکن اگر بحران میں سفارت کاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف روس ہی اپنے اس قومی نشان کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔ روسی عقاب مغرب پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے اور مشرق پر بھی۔

اس لیے ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ روسی صدر پوٹن حال ہی میںکہ چکے ہیں کہ روس، امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ روابط ایک دوسرے کے مفادات، احترام اور داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصولوں کی بنیاد پر ہوں۔ جب امریکا کے نئے سفیر جان ٹَیفٹ نے اپنی تقرری سے متعلق سفارتی اسناد پیش کیں توکریملن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوتن نے کہا تھا کہ ہم اپنے امریکی پارٹنرز کے ساتھ مختلف شعبوں میں عملی تعاون پر تیار ہیں مگر اس کی بنیاد ان ایک دوسرے کے مفادات کا احترام ہی ہوگا، حقوق برابر ہوں اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت بھی نہ کی جائے۔

صدر پوٹن نے امریکا پر الزام لگایا تھا کہ وہ روس کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ ''ہاں'' کہنے والی ایک ریاست بنانا چاہتا ہے لیکن امریکا کی یہ کوشش کام یاب نہیں ہو گی، واشنگٹن ہمیں نیچا دکھانا چاہتا ہے اور اپنے مسائل ہماری قیمت پر حل کرنا چاہتا ہے۔ روسی تاریخ میں ایسا کرنے میں نہ تو کوئی کام یاب ہوا ہے اور نہ کبھی آئندہ ہو گا۔

اس تناظر میں اب پاکستان کو کسی شک و شبہے میں نہیں رہنا چاہیے کہ سال 2014 کے دوران امریکا اور روس کے درمیان یوکرائن کی وجہ سے جو تنائو پیدا ہوا، اُس نے روس کو پاکستان کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور اسی تناظر میں روس اور چین کے درمیان بھی تعلقات میں بھی بہتری آئی مگر بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ اور نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے باعث اس بات کا اندیشہ بدستور قائم رہے گا کہ ہمارے اندرونی خلفشار اور سیاسی سطح پر ہماری بداعمالیاں ہمیں کسی ایک طرف ہونے کے قابل ہی نہ چھوڑیں کیوں کہ 2015 میں وہ وقت آنے والا ہے جب پاکستان کو طے کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے بہترین مفاد میں اس تکون کے کس کونے میں رہ کر قوموں کی برادری میں سرخ رُو ہو سکتا ہے۔

تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود اِس تلخ حقیقت کو جھٹلانا اب اِس لیے بھی ممکن نہیں کہ وطن عزیز قوموں کی برادری میں آج جس مقام پر کھڑا ہے، وہاں مکمل طور پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے تو دوسری طرف نا اہل قیادت کی کم نظری کی وجہ سے پاکستان کے سامنے مستقبل سے متعلق کوئی بھی ترقیاتی ویژن موجود نہیں ہے، جس پر عالمی برادری اعتماد کرسکے۔

قیام پاکستان سے لے کر 2014 تک کی ملکی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم نے ہر سطح پر قوم بننے کی نسبت ہمیشہ ہجوم بننے میں دل چسپی لی ہے اور آج دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانیوں کو تشکیک و تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر محب وطن پاکستانیوں پر جو ڈیپریشن طاری ہوتا ہے، وہ بھی اب ایک تلخ حقیقت ہے۔
Load Next Story