کھیل کھیل میں یہ کیا ہوگیا کیا باؤنسر پر پابندی لگ جائے گی
آسٹریلین کرکٹر فل ہیوز کی الم ناک موت سے جُڑے سوالات کرکٹ کے میدانوں میں پیش آنے والے سانحات پر ایک نظر
کسی نے شاعر نے کہا تھا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
لیکن یہ ایک حادثہ ہی تھا جو اچانک ہوا اور دنیائے کرکٹ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تماشائیوں کے خیرمقدمی نعروں اور کھلاڑیوں کے درمیان جیت کے حصول کی کشمکش کے ماحول میں ایسا الم ناک واقعہ رونما ہوگا، جسے طویل عرصے تک بھلایا نہیں جاسکے گا۔ دنیا والوں کی نظر میں تو فلپ ہیوز کی زندگی ناگہانی موت کے ذریعے ختم ہوئی لیکن قدرت کے کارخانے میں کوئی کام بغیر وقت کے نہیں ہوتا۔ قدرت نے فلپ ہیوز کی اتنی ہی زندگی لکھی تھی، لیکن اپنی 26 ویں سال گرہ سے دو تین روز قبل دنیا چھوڑ جانے کے واقعے نے صرف فلپ ہیوز کی فیملی کو ہی نہیں بلکہ ہر دردمند دل رکھنے والے کو افسردہ کردیا ہے۔
آسٹریلیا کے مشہور و معروف سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں منگل 25 نومبر کو آسٹریلوی ڈومیسٹک ٹورنامنٹ شیفیلڈ شیلڈ کے میچ کے پہلے روز ساؤتھ آسٹریلیا اور نیو ساؤتھ ویلز کی ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ کچھ ہی دنوں بعد ہوم سیریز میں بھارتی کرکٹ کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین فلپ ہیوز نے بھی ہر کھلاڑی کی طرح سوچا ہوگا کہ اچھی کارکردگی دکھائی جائے تاکہ سلیکٹرز اسے ٹیم میں منتخب کرلیں۔
ساؤتھ آسٹریلیا (South Australia)کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے فلپ ہیوز نے اس میچ میں بھی ایک بڑی اننگ کھیلنے کی تیاری کرلی تھی اور سوچا تھا کہ زیادہ سے زیادہ رنز بناکر خود کو منوایا جائے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلپ ہیوز میدان کے چاروں جانب شاٹس کھیل کر اسکور آگے بڑھارہا تھا۔ 63 کے انفرادی اسکور پر ہیوز نے مخالف ٹیم کے فاسٹ بولر سین ایبٹ کی ایک شارٹ پچ ڈیلیوری کو باؤنڈری لائن کے پار پھینکنے کی کوشش کی، لیکن ٹائمنگ کی غلطی کی وجہ سے بال ان کے سر کے نچلے حصے میں لگی، فلپ ہیوز تکلیف سے تھوڑا سا جُھکے، گرے، ایک بار اٹھنے کی کوشش کی اور پھر تکلیف کی شدت کی وجہ سے ایسا گرے کہ پھر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔
گراؤنڈ میں موجود تمام کھلاڑیوں اور ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے کروڑوں ناظرین نے یہ دردناک مناظر دیکھے اور صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرلیا۔ ہیوز کو فوری طور پر اسپتال روانہ کیا گیا۔ سینٹ ونسنٹ اسپتال میں ہیوز کے بہت سے ٹیسٹ ہوئے، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن فلپ ہیوز کو چوٹ اتنی زوردار لگی تھی کہ وہ کومے میں چلے گئے۔ 2 روز تک ان کے گھر والے، دوست احباب، دنیا بھر کے کرکٹر اور شائقین کرکٹ ہیوز کی زندگی اور صحت یابی کی دعائیں مانگتے رہے، لیکن 27 نومبر کو جب یہ اعلان ہوا کہ ''فلپ ہیوز اب نہیں رہے'' تو ساری دنیائے کھیل سوگوار ہوگئی۔
دو دن تک آسٹریلوی ٹیم کے سابق اور موجودہ کھلاڑی ، فلپ ہیوز کے ساتھ کھیلنے والے بہتے آنسوؤں کو پونچھتے میڈیا کا سامنا کرتے رہے لیکن جب فلپ ہیوز کے نہ ہونے کی تصدیق ہوگئی تو ہر کوئی پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ اس ساری صورت حال میں فاسٹ بولر سین ایبٹ کی حالت بھی انتہائی قابل رحم تھی، گوکہ یہ ایک حادثہ ہی تھا اور جان بوجھ کر ایبٹ نے فلپ ہیوز کو گیند نہیں ماری لیکن احساس ندامت اور احساس جرم کی کیفیت نے سین ایبٹ کو نڈھال کردیا ہے اور بہت سے لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہی کہ سین ایبٹ شاید اب کرکٹ ہی نہ کھیل سکے۔
30 نومبر 1988 کو جنم لینے والے فلپ ہیوز نے اپنے مختصر کرکٹ کیریر میں کافی مصروف وقت گزارا۔ انھوں نے اپنی کارکردگی سے سب کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کے علاوہ انگلش کاؤنٹی سیزن بھی کھیلے اور ٹیسٹ میچوں، ایک روزہ انٹرنیشنل مقابلوں اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی معرکوں میں بھی اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔
آسٹریلوی سیزن میں وہ ساؤتھ آسٹریلیا کے نمایاں کھلاڑی رہے، انگلش کاؤنٹی وورسیسٹر شائر (Worcestershire)کے لیے بھی وہ خوب کھیلے جب کہ قومی اسکواڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا شان دار انداز میں مظاہرہ کیا۔ 2009 میں جنوبی افریقہ کے خلاف جب ہیوز نے ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبو کیا تو ہر ایک کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا آگے چل کر نہ صرف آسٹریلوی ٹیم کے مرکزی بلے باز کی حیثیت اختیار کرجائے گا بل کہ اپنے ٹیلنٹ سے ہر مخالف بولر کے لیے چیلینج بن جائے گا۔
اعدادوشمار سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلپ ہیوز نے جو وقت کرکٹ کے میدانوں میں گزارا وہ نہ صرف انفرادی طور پر خود ہیوز کے لیے بل کہ اجتماعی طور پر پوری آسٹریلین کرکٹ کے لیے فائدہ مند رہا۔ ہیوز نے اپنے ٹیسٹ کیریر کے دوسرے ہی میچ میں شان دار سنچری (115) بنائی، میدان ڈربن کا تھا اور حریف ٹیم جنوبی افریقہ تھی جس کے تمام باصلاحیت بولر نوجوان فلپ ہیوز کے سامنے بے بس نظر آئے۔
اس یادگار اننگ نے فلپ ہیوز کو سب سے کم عمر سنچری میکر کا اعزاز بخشا، اسی میچ کی دوسری اننگ میں بھی ہیوز چھائے رہے اور 106 رنز بناکر دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس پرفارمنس کی وجہ سے وہ دونوں باریوں میں سنچریاں بنانے والے کم عمر ترین کرکٹر بھی بن گئے۔11 جنوری 2013 کو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں فلپ ہیوز نے سنچری بناکر ایک اور کارنامہ انجام دیا۔
مجموعی طور پرہیوز نے ٹیسٹ کرکٹ میں 26 میچ کھیلے اور 49 اننگز میں 32.65کی اوسط سے 1535 رنز اسکور کیے ۔ اس دوران ہیوز نے 3 سنچریاں اور 7 نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ ہیوز نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ جولائی 2013 میں لارڈز کے میدان میں میزبان انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔
فلپ ہیوز نے 25ایک روزہ میچوں میں 826 رنز اسکور کیے، ڈیبو پر سنچری سمیت ہیوز نے 2 بار سنچری بنانے کا کارنامہ انجام دیا جب کہ 4 نصف سنچریاں بھی اپنے ریکارڈ میں شامل کیں۔ ہیوز کا آخری ایک روزہ انٹرنیشنل میچ رواں سال اکتوبر میں پاکستان کے خلاف تھا۔ یہ میچ ابوظبی میں کھیلا گیا تھا۔ نوجوان آسٹریلوی اسٹار نے اپنے کیریر میں صرف ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا، پاکستانی ٹیم کے خلاف اس معرکے میں ہیوز 6 رنز بناسکے۔
اعدادوشمار کے مطابق فلپ ہیوز ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے 7ویں اور ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں کی تاریخ کے چھٹے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں جو مختصر عرصے کے لیے دنیائے کرکٹ میں جلوہ گر ہوئے اور پھر اپنی یادیں چھوڑ کر چلے گئے۔ گوکہ ان کھلاڑیوں میں سے اکثر کی اموات میدان سے باہر ہوئیں لیکن جس وقت یہ حادثات ہوئے تو وہ اپنے کیریر میں بیحد سرگرم تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے ان کم عمر ترین کھلاڑیوں کے بارے میں جانتے ہیں جو بہت جلد دنیا سے چلے گئے:
(i) بنگلادیش کے منظور الاسلام رانا 16 مارچ 2007 کو ایک کارحادثے میں چل بسے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 22 سال 316 دن تھی۔
(ii) فروری 1933 میں ٹی بی کی بیماری کی وجہ سے یہ دنیا چھوڑنے والے آسٹریلوی کرکٹر آرچی جیکسن کی عمر 23 سال 164 دن تھی۔
(iii)انگلش کھلاڑی بین ہالیک (Ben Hollioake) بھی کم عمری میں اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ مارچ 2002 میں کار حادثے نے ان کی جان لی، انتقال کے وقت بین ہالیک کی عمر 24 سال 132 دن تھی۔
(iv) ویسٹ انڈین کھلاڑی سیرل کرسٹیانی (Cyril Christiani) کا انتقال جون 2001 میں 24 سال 158 دن کی عمر میں ہوا، ملیریا ان کی موت کا باعث بنا۔
(v) زمبابوے کے ٹریور میڈونڈو (Trevor Medondo) کو 24 سال 201 دن کی عمر میں ملیریا نے سب سے دور کیا۔
(vi) برسوں پہلے 19 مئی 1890 کو جنوبی افریقہ کے گس کیمپس (Gus Kempis) ایک بیماری کی وجہ سے 24 سال288 دن کی عمر میں دنیا چھوڑگئے۔
(vii) عمر کے لحاظ سے 7 ویں کم عمر ترین ٹیسٹ کھلاڑی فلپ ہیوز ہیں، ان کی موت اس لیے زیادہ دردناک ہے کہ ایک تو وہ کھیل کے دوران سب سے جدا ہوئے۔ دوسرے جب یہ اندوہ ناک واقعہ رونما ہوا تو ہیوز کی 26 ویں سال گرہ میں صرف 3 دن باقی تھے۔ انتقال کے وقت ہیوز کی عمر 25 سال 362 دن تھی۔
کم عمری میں انتقال کرجانے والے ان کھلاڑیوں کی فہرست کم عمری کے حساب کچھ اس طرح بنتی ہے:
(i)بنگلادیش کے منظور الاسلام رانا: عمر 22 سال 316 دن
(ii)سری لنکا کے اسٹینلے ڈی سلوا: عمر 23 سال 147 دن
(iii)انگلینڈ کے بین ہالیک: عمر 24 سال 132 دن
(iv) زمبابوے کے ٹریور میڈونڈو: عمر 24 سال 201 دن
(v) نیدرلینڈز کے مارٹس وین نیروپ (Maurits Van Nierop) :عمر، 25 سال 136 دن
(vi) آسٹریلیا کے فلپ ہیوز: عمر 25 سال 362دن
فلپ ہیوز کے ساتھ ہونے والا حادثہ، کرکٹ کے میدانوں سے ایک باصلاحیت بیٹسمین کی جدائی اور آسٹریلوی کرکٹ کی مستقبل کے سپر اسٹار سے محرومی ہر ایک کے لیے تکلیف دہ ہے، لیکن اس واقعے نے بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے جو دنیا بھر کے شائقینِ کرکٹ ، سابق اور موجودہ کھلاڑیوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں، یہی سوالات ہم اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھیں گے۔
فلپ ہیوز کی اندوہ ناک موت کے بعد کیا کرکٹ میں باؤنسر پر مکمل پابندی لگ جائے گی؟ یہ وہ پہلا سوال ہے جو سب کے خاص طور پر تمام فاسٹ بولروں کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے۔ اس واقعے کے بعد تو ہر فاسٹ بولر چاہنے کے باوجود باؤنسر مارتے ہوئے جھجکے گا۔ ہوسکتا ہے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی باؤنسر کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کرلے۔ اگر ایسا ہوا تو بلے بازوں کو تو یقینی طور پر کچھ نہ کچھ تحفظ ملے گا لیکن سچی بات یہ ہے کہ بولرز بالکل بے بس ہوجائیں گے اور کرکٹ کا حُسن بھی گہنا جائے گا۔
بیٹسمینوں کے حفاظتی سامان کا معیار اور ڈیزائن کیسا ہونا چاہیے؟ اس سوال پر بھی بہت بحث ہورہی ہے، پہلے بھی لوگ اس حوالے سے اپنی آراء اور تجاویز پیش کرتے رہے ہیں، لیکن فلپ ہیوز کے حادثے کے بعد تواب ہیلمٹ کے ڈیزائن اور معیار پر ہر کوئی بات کررہا ہے۔ موجودہ کرکٹ ہیلمٹ کا ڈیزائن کچھ ایسا ہے کہ تیزرفتار بال بیٹسمین کے چہرے پر لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اب ہیلمٹ کے ڈیزائن کو بھی ازسرنو تیار کیا جائے گا، تاکہ بیٹسمین کے سر اور چہرے پر گیند لگنے کا ایک فی صد بھی چانس نہ رہے۔
اس حادثے کے بعد کرکٹ قوانین میں ترامیم کا معاملہ بھی اٹھایا جارہا ہے۔ مختلف حلقے باؤنسرز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے آواز بلند کررہے ہیں، جب کہ دوسری طرف سے کہا جارہا ہے کہ باؤنسرز پر پابندی کے بجائے بیٹسمینوں کی حفاظت کے لیے ان کی کرکٹ کٹ کو زیادہ جدید بنایا جائے۔ بہت سے لوگ ہیلمٹ میں استعمال کیے گئے مٹیریل (material) پر سوال اٹھارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک بیٹسمینوں اور فیلڈرز کی کٹ کو حفاظتی نقطۂ نگاہ سے دوبارہ تیار کرانا ہوگا۔
کرکٹ کے ایک عام شائق کی رائے کچھ مختلف بھی ہے دل چسپ بھی، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ ایک اننگ میں ہر بلے باز کو صرف ایک ہی باؤنسر مارنے کی اجازت ہو۔
بعض افراد بولر کی جانب سے باؤنسر کرانے کے حق میں ہیں، لیکن ان کا سوال ہے کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ لگاتار دو باؤنسر کرانے پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے اسکور میں اضافی رنز بطور جرمانہ شامل کیے جائیں، اس طرح بولر خود ہی باؤنسر سے گریز کریں گے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ کرکٹ بال کا مٹیریل بھی کچھ ہلکا کیا جائے، تاکہ اس کی سختی قابل برداشت ہوجائے۔ موجودہ صورت حال میں تو پتھر کی طرح آنے والی گیند جس کھلاڑی کے بھی جسم پر لگتی ہے وہ درد سے چلا اٹھتا ہے۔
ایک حلقے کا تو کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے، اکا دکا واقعات تو کبھی کبھی رونما ہوہی جاتے ہیں لیکن خدانخواستہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی کہ ہم کرکٹ کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیں۔
یہ بات بھی قارئین کو بتاتے چلیں کہ فلپ ہیوز کی موت اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں کھیل کے دوران کھلاڑیوں یا آفیشلز کی اموات پہلے بھی ہوئی ہیں، اعدادوشمار کے مطابق کرکٹ کے میدان میں کسی چوٹ یا حادثے کے باعث میچ کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی زندگی کی بازی ہارجانے والوں کی مجموعی تعداد تقریباً 13 ہے، جن میں 3 پاکستانی کرکٹر بھی شامل ہیں۔ فلپ ہیوز کی موت کا صدمہ اس لیے سب کو زیادہ ہے کیوں کہ وہ نوجوان کرکٹر کم عمر لیکن بہت باصلاحیت تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر اپنی اہلیت و صلاحیتوں کا شان دار ثبوت بھی دیا ۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ کرکٹ کے میدانوں میں کون کھلاڑی یا آفیشل کھیل کے دوران حادثے کا شکار ہوئے اور دنیا سے چلے گئے:
٭ فلپ ہیوز کی موت کے دو دن بعد ہی 29 نومبر 2014 کو یروشلم میں کھیلے گئے میچ کے دوران ایک ایمپائر 55 سالہ ہلیل آسکر (Hillel Oscar) کے چہرے پر گیند لگی جو ایمپائر کی زندگی ختم ہونے کا فیصلہ کربیٹھی۔
٭2013 میں جنوبی افریقہ کے ڈومیسٹک میچ کے دوران 32 سالہ کھلاڑی ڈیرن رینڈل(Darryn Randall) پُل شاٹ کھیلنے کی ناکام کوشش کے دوران سر پر گیند لگنے کے باعث شدید زخمی ہوئے اور اسپتال پہنچتے پہنچتے دنیا سے کوچ کرگئے۔
٭2013 ء ہی میں پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر ذوالفقار بھٹی سکھر میں میچ کے دوران گیند سینے پر لگنے کے باعث پچ پر گرگئے، انھیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دم توڑگئے۔
٭2012ء میں انگلینڈ کے 33 سالہ کھلاڑی کاؤنٹی میچ کے دوران میدان میں گرگئے، انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے ان کے ساتھیوں کو بتایا کہ بیومونٹ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔ اس حادثے سے ایک روز قبل ہی بیومونٹ نے 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
٭2009 میں انگلش سرزمین پر ایک لیگ میچ کے دوران 72 سالہ برطانوی ایمپائر ایلوان جینکنز (Alewn Jenkins)بھی ایسے ہی حادثے کا شکار بنے۔ فیلڈر کی تھرو سیدھی ان کے سر پر لگی اور وہ اسپتال پہنچ کر دم توڑگئے۔
٭2006 میں اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ پاکستانی بیٹسمین وسیم راجا سرے کاؤنٹی کی جانب سے میچ کھیل رہے تھے کہ گراؤنڈ میں ان کو دل کا دورہ پڑاجو جان لیوا ثابت ہوا۔
٭1998ء میں بھارتی کھلاڑی رامن لامبا (Raman Lamba)ڈھاکا میں بنگلادیشی کرکٹ لیگ کے دوران ڈھاکا میں میچ کھیلتے ہوئے کنپٹی پر بال لگنے سے شدید زخمی ہوئے، سنگین نوعیت کی اس چوٹ نے بھارتی کھلاڑی کی زندگی لے لی۔ رامن لامبا نے 4 ٹیسٹ اور 32 ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں بھارتی ٹیم کی نمائندگی کی تھی۔
٭1993 میں ایک میچ کے دوران انگلش کھلاڑی ایان فولے (Ayan Folay)ہک شاٹ کھیلنا چاہتے تھے، لیکن گیند ان کے چہرے پر لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔
٭ کچھ عرصے قبل سابق برطانوی بیٹسمین ولف سلیک گیمبیا میں بلے بازی کے دوران پچ پر گرے اور دم توڑگئے، ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ، اس کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے، لیکن قوی امکان یہی ہے کہ انھیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
٭1959 میں پاکستانی کھلاڑی عبدالعزیز کے کراچی میں بیٹنگ کرتے ہوئے سینے پر گیند لگ سکی ، یہ چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔
٭1942 میں انگلش کھلاڑی اینڈی ڈیوکیٹ لارڈز کے تاریخی میدان میں دوران بیٹنگ دل کا دورہ پڑنے کے باعث چل بسے۔
٭1870ء میں لارڈزمیں ہی 25 سالہ جارج سمرز (George Smerz)کے سر پر گیند لگی اور وہ اپنے دوست احباب کو روتا چھوڑگئے۔
ان افسوس ناک واقعات کے علاوہ کرکٹ کے میدانوں میں فیلڈنگ، بیٹنگ اور بولنگ کے دوران درجنوں کھلاڑیوں کو شدید چوٹیں لگی ہیں، بہت سے کھلاڑی مہینوں اسپتالوں میں رہے اور طویل عرصے تک کرکٹ سے دور ہوگئے۔ کچھ کھلاڑی چوٹیں لگنے کے بعد تو دوبارہ میدان میں نہیں اترسکے اور جو میدان میں واپس آئے وہ پہلے جیسی پرفارمنس دکھانے سے قاصر تھے۔ ابھی چند روز قبل ہی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران ابوظبی میں پاکستانی بلے باز احمد شہزاد کے سر پر گیند لگی تھی جس کی وجہ سے انھیں دورہ نامکمل چھوڑ کر وطن واپس آنا۔ وہ بھی کورے اینڈرسن کی گیند کو ہُک کرنا چاہ رہے تھے، لیکن گیند ان کی کنپٹی پر لگی۔ یہ احمد شہزاد کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔
فلپ ہیوز کی موت کے بعد دنیائے کرکٹ میں سوگ کی کیفیت ہے، مختلف میچوں کو منسوخ کیا گیا، کھلاڑیوں نے کچھ دیر کی خاموشی اختیار کرکے نوجوان بلے باز کو خراج عقیدت پیش کیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ تو کھیلی جانی ہے، اب یہ کرکٹ کے کرتا دھرتا آئی سی سی اور تمام بورڈز کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف بیٹسمینوں بل کہ تمام کھلاڑیوں کی حفاظت کے لیے پالیسیاں ترتیب دیں یا قانون بنائیں۔
مختلف کھیلوں میں حادثات کا شکار ہونے والے کھلاڑی
کرکٹ کے علاوہ مختلف کھیلوں میں بھی حادثات کا شکار ہونے والے کھلاڑیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان میں سے کچھ کھلاڑی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور بعض اتنے خوش قسمت ضرور تھے کہ ان کی زندگیاں بچ گئیں:
٭ کار ریسنگ
کار ریسنگ کے ٹریک کی عالمی شہرت یافتہ شخصیت جرمنی کے مائیکل شومیکر (Michael Schumacher)کو کون نہیں جانتا، وہ کئی برس اپنی مہارت اور صلاحیتوں کی وجہ سے فارمولا ونگراں پری کے ٹریک پر سب سے آگے رہے ہیں۔ دسمبر 2013 میں اسکیٹنگ کے دوران وہ شدید زخمی ہوئے، مائیکل شومیکر کی زندگی تو بچ گئی لیکن شدید چوٹوں کی وجہ سے ان کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگیا ہے اور اب وہ ریسنگ کار کے بجائے وہیل چیئر پر آگئے ہیں۔
٭ فٹ بال
فٹبال کے میدانوں میں درجنوں فٹبالر میچ کے دوران دوڑتے دوڑتے اس دنیا سے چلے گئے۔ گذشتہ چند سال کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں:
٭ مالی سے تعلق رکھنے والے 27جولائی 2013 میں سیکو کمارا (Abdoulaye Sekou Camara) انڈونیشیا میں ڈومیسٹک فٹبال میچ کی ٹریننگ کے دوران میدان میں گرے ، کمارا کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت ڈیکلیئر کردی۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ جولائی 2013 ہی میں پیرو سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ باصلاحیت فٹبالر یائر کلاویجو (yair clavijo) میچ کے دوران اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ طبی ماہرین کے مطابق یائر کی موت دل پر پڑنے والے شدید دباؤ کی وجہ سے ہوئی۔
٭بیرات سیسی پی (Berat Sacipi)، ڈومینیک رپ (Dominix Rupp)، کوئنٹن مارگرٹ (Quentin Margueritte)بھی ان فٹبالر زمیں شامل ہیں جو 2013 میں فٹبال کے گراؤنڈ میں دوستانہ میچ کھیلتے کھیلتے اپنی ٹیم، ساتھیوں اور گھر والوں سے جدا ہوئے۔
٭اگست 2012 میں نائیجیریا کے چنونسو ہنری (Chinonso Ihelwere Henry) کو میچ کے دوران دل کا دورہ پڑا ۔ ڈاکٹروں نے تقریباً نصف گھنٹے ہنری کو طبی امداد دی، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔
٭مئی میں ماریطانیہ کا فٹبالر محمد لیمن، اپریل 2012 میں اطالوی کھلاڑی پائیماریو موروسینی (Piermario Morosini) اور مارچ میں بھارتی کھلاڑیڈی وینکاتیش (D Venkatesh)گراؤنڈ میں گرے اور چل بسے۔ ڈاکٹروں نے ان کی موت کی وجوہ بھی ہارٹ اٹیک ہی بتائیں۔
٭2011 میں نائیجیریا کے بابسم ال جکو (Bobsam Elejiko) ، جاپانی کھلاڑی ناؤکی ماتسودا (Naoki Matsuda( ، چاڈ سے تعلق رکھنے والا لوکسمبے لوکو (Lokissimbaye Lokoکھیل کے دوران چل بسے۔
٭ 2010میں کمبوڈیا کے ولسن مینے (Wilson Mene) ، کروشیا کا 32سالہ کھلاڑی گوران تنجک (Goran Tunjic) ، گھانا کے بارتھولمیو اوپوکو (Bartholmew Opoku) ، اور سوڈان کے اینڈیورینس ادہور (Endurance Idahor) بھی عارضہ قلب کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
٭مارچ 2009 میں انڈونیشی کھلاڑی جمادی عابدی کے پیٹ میں حریف کھلاڑی کی کک لگی اور وہ شدید درد کے عالم میں میدان میں گرگئے۔ جمادی کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، جہاں 8 دن موت سے لڑنے کے بعد وہ زندگی کی بازی ہارگیا۔
٭ فروری 2008 میں کانگو کا کھلاڑی گائے چنگوما (Guy Tchingoma) میچ کھیلتے ہوئے مخالف کھلاڑی سے ٹکراگیا۔ اس نے پورا میچ تو کھیلا لیکن مقابلہ ختم ہوتے ہی وہ زمیں گرگیا اور چل بسا۔ اپریل میں ایک کلب میچ میں یوگوسلاویہ کا ہرووج کسٹک (Hrvoje Custic) میدان کے باہر لگی کنکریٹ کی دیوار سے ٹکراکر شدید زخمی ہوا اور اسپتال میں دوران علاج اس کی موت واقع ہوگئی۔ مئی میں روسی کھلاڑی رستم بلاتو(Rustem Bulatov) کی میچ کے دوران طبیعت خراب ہوئی، انتظامیہ نے اسے اسپتال بھیجا جہاں اگلے روز وہ چل بسا۔
ان کے علاوہ بھی دنیا بھر میں درجنوں کھلاڑی ہیں جو مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے دوران یا تربیتی سیشن میں کھیلتے ہوئے جاں سے گزرگئے۔ ایسے واقعات افسوس ناک ضرور ہوتے ہیں، قریبی ساتھیوں کا دل بھی بھر آتا ہے اور آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں لیکن پھر امپائر کا اشارہ ہوتا ہے، ریفری کی سیٹی بجتی ہے اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ میدان سج جاتے ہیں، تماشائیوں کا شوروغل، اپنی پسندیدہ ٹیموں کی ہمت بڑھانے کے نعرے، اچھے کھیل پر تعریفیں، دادوتحسین کے نعرے، مایوس کن پرفارمنس پر ہوٹنگ، یہ سب دوبارہ سے شروع ہوجاتا ہے۔ جانے والے کے ساتھی بھی اُس کا غم محسوس کرنے کے باوجود میدان میں بہتر سے بہترین پرفارمنس دینے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ کام یابیوں پر جشن بھی مناتے ہیں اور دل کھول کر ہنستے ہیں۔ اسی کو زندگی کہتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
لیکن یہ ایک حادثہ ہی تھا جو اچانک ہوا اور دنیائے کرکٹ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تماشائیوں کے خیرمقدمی نعروں اور کھلاڑیوں کے درمیان جیت کے حصول کی کشمکش کے ماحول میں ایسا الم ناک واقعہ رونما ہوگا، جسے طویل عرصے تک بھلایا نہیں جاسکے گا۔ دنیا والوں کی نظر میں تو فلپ ہیوز کی زندگی ناگہانی موت کے ذریعے ختم ہوئی لیکن قدرت کے کارخانے میں کوئی کام بغیر وقت کے نہیں ہوتا۔ قدرت نے فلپ ہیوز کی اتنی ہی زندگی لکھی تھی، لیکن اپنی 26 ویں سال گرہ سے دو تین روز قبل دنیا چھوڑ جانے کے واقعے نے صرف فلپ ہیوز کی فیملی کو ہی نہیں بلکہ ہر دردمند دل رکھنے والے کو افسردہ کردیا ہے۔
آسٹریلیا کے مشہور و معروف سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں منگل 25 نومبر کو آسٹریلوی ڈومیسٹک ٹورنامنٹ شیفیلڈ شیلڈ کے میچ کے پہلے روز ساؤتھ آسٹریلیا اور نیو ساؤتھ ویلز کی ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ کچھ ہی دنوں بعد ہوم سیریز میں بھارتی کرکٹ کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین فلپ ہیوز نے بھی ہر کھلاڑی کی طرح سوچا ہوگا کہ اچھی کارکردگی دکھائی جائے تاکہ سلیکٹرز اسے ٹیم میں منتخب کرلیں۔
ساؤتھ آسٹریلیا (South Australia)کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے فلپ ہیوز نے اس میچ میں بھی ایک بڑی اننگ کھیلنے کی تیاری کرلی تھی اور سوچا تھا کہ زیادہ سے زیادہ رنز بناکر خود کو منوایا جائے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلپ ہیوز میدان کے چاروں جانب شاٹس کھیل کر اسکور آگے بڑھارہا تھا۔ 63 کے انفرادی اسکور پر ہیوز نے مخالف ٹیم کے فاسٹ بولر سین ایبٹ کی ایک شارٹ پچ ڈیلیوری کو باؤنڈری لائن کے پار پھینکنے کی کوشش کی، لیکن ٹائمنگ کی غلطی کی وجہ سے بال ان کے سر کے نچلے حصے میں لگی، فلپ ہیوز تکلیف سے تھوڑا سا جُھکے، گرے، ایک بار اٹھنے کی کوشش کی اور پھر تکلیف کی شدت کی وجہ سے ایسا گرے کہ پھر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔
گراؤنڈ میں موجود تمام کھلاڑیوں اور ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے کروڑوں ناظرین نے یہ دردناک مناظر دیکھے اور صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرلیا۔ ہیوز کو فوری طور پر اسپتال روانہ کیا گیا۔ سینٹ ونسنٹ اسپتال میں ہیوز کے بہت سے ٹیسٹ ہوئے، ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن فلپ ہیوز کو چوٹ اتنی زوردار لگی تھی کہ وہ کومے میں چلے گئے۔ 2 روز تک ان کے گھر والے، دوست احباب، دنیا بھر کے کرکٹر اور شائقین کرکٹ ہیوز کی زندگی اور صحت یابی کی دعائیں مانگتے رہے، لیکن 27 نومبر کو جب یہ اعلان ہوا کہ ''فلپ ہیوز اب نہیں رہے'' تو ساری دنیائے کھیل سوگوار ہوگئی۔
دو دن تک آسٹریلوی ٹیم کے سابق اور موجودہ کھلاڑی ، فلپ ہیوز کے ساتھ کھیلنے والے بہتے آنسوؤں کو پونچھتے میڈیا کا سامنا کرتے رہے لیکن جب فلپ ہیوز کے نہ ہونے کی تصدیق ہوگئی تو ہر کوئی پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ اس ساری صورت حال میں فاسٹ بولر سین ایبٹ کی حالت بھی انتہائی قابل رحم تھی، گوکہ یہ ایک حادثہ ہی تھا اور جان بوجھ کر ایبٹ نے فلپ ہیوز کو گیند نہیں ماری لیکن احساس ندامت اور احساس جرم کی کیفیت نے سین ایبٹ کو نڈھال کردیا ہے اور بہت سے لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہی کہ سین ایبٹ شاید اب کرکٹ ہی نہ کھیل سکے۔
30 نومبر 1988 کو جنم لینے والے فلپ ہیوز نے اپنے مختصر کرکٹ کیریر میں کافی مصروف وقت گزارا۔ انھوں نے اپنی کارکردگی سے سب کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کے علاوہ انگلش کاؤنٹی سیزن بھی کھیلے اور ٹیسٹ میچوں، ایک روزہ انٹرنیشنل مقابلوں اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی معرکوں میں بھی اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔
آسٹریلوی سیزن میں وہ ساؤتھ آسٹریلیا کے نمایاں کھلاڑی رہے، انگلش کاؤنٹی وورسیسٹر شائر (Worcestershire)کے لیے بھی وہ خوب کھیلے جب کہ قومی اسکواڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا شان دار انداز میں مظاہرہ کیا۔ 2009 میں جنوبی افریقہ کے خلاف جب ہیوز نے ٹیسٹ کرکٹ میں ڈیبو کیا تو ہر ایک کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا آگے چل کر نہ صرف آسٹریلوی ٹیم کے مرکزی بلے باز کی حیثیت اختیار کرجائے گا بل کہ اپنے ٹیلنٹ سے ہر مخالف بولر کے لیے چیلینج بن جائے گا۔
اعدادوشمار سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلپ ہیوز نے جو وقت کرکٹ کے میدانوں میں گزارا وہ نہ صرف انفرادی طور پر خود ہیوز کے لیے بل کہ اجتماعی طور پر پوری آسٹریلین کرکٹ کے لیے فائدہ مند رہا۔ ہیوز نے اپنے ٹیسٹ کیریر کے دوسرے ہی میچ میں شان دار سنچری (115) بنائی، میدان ڈربن کا تھا اور حریف ٹیم جنوبی افریقہ تھی جس کے تمام باصلاحیت بولر نوجوان فلپ ہیوز کے سامنے بے بس نظر آئے۔
اس یادگار اننگ نے فلپ ہیوز کو سب سے کم عمر سنچری میکر کا اعزاز بخشا، اسی میچ کی دوسری اننگ میں بھی ہیوز چھائے رہے اور 106 رنز بناکر دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس پرفارمنس کی وجہ سے وہ دونوں باریوں میں سنچریاں بنانے والے کم عمر ترین کرکٹر بھی بن گئے۔11 جنوری 2013 کو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں فلپ ہیوز نے سنچری بناکر ایک اور کارنامہ انجام دیا۔
مجموعی طور پرہیوز نے ٹیسٹ کرکٹ میں 26 میچ کھیلے اور 49 اننگز میں 32.65کی اوسط سے 1535 رنز اسکور کیے ۔ اس دوران ہیوز نے 3 سنچریاں اور 7 نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ ہیوز نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ جولائی 2013 میں لارڈز کے میدان میں میزبان انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔
فلپ ہیوز نے 25ایک روزہ میچوں میں 826 رنز اسکور کیے، ڈیبو پر سنچری سمیت ہیوز نے 2 بار سنچری بنانے کا کارنامہ انجام دیا جب کہ 4 نصف سنچریاں بھی اپنے ریکارڈ میں شامل کیں۔ ہیوز کا آخری ایک روزہ انٹرنیشنل میچ رواں سال اکتوبر میں پاکستان کے خلاف تھا۔ یہ میچ ابوظبی میں کھیلا گیا تھا۔ نوجوان آسٹریلوی اسٹار نے اپنے کیریر میں صرف ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا، پاکستانی ٹیم کے خلاف اس معرکے میں ہیوز 6 رنز بناسکے۔
اعدادوشمار کے مطابق فلپ ہیوز ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے 7ویں اور ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں کی تاریخ کے چھٹے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں جو مختصر عرصے کے لیے دنیائے کرکٹ میں جلوہ گر ہوئے اور پھر اپنی یادیں چھوڑ کر چلے گئے۔ گوکہ ان کھلاڑیوں میں سے اکثر کی اموات میدان سے باہر ہوئیں لیکن جس وقت یہ حادثات ہوئے تو وہ اپنے کیریر میں بیحد سرگرم تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے ان کم عمر ترین کھلاڑیوں کے بارے میں جانتے ہیں جو بہت جلد دنیا سے چلے گئے:
(i) بنگلادیش کے منظور الاسلام رانا 16 مارچ 2007 کو ایک کارحادثے میں چل بسے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 22 سال 316 دن تھی۔
(ii) فروری 1933 میں ٹی بی کی بیماری کی وجہ سے یہ دنیا چھوڑنے والے آسٹریلوی کرکٹر آرچی جیکسن کی عمر 23 سال 164 دن تھی۔
(iii)انگلش کھلاڑی بین ہالیک (Ben Hollioake) بھی کم عمری میں اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ مارچ 2002 میں کار حادثے نے ان کی جان لی، انتقال کے وقت بین ہالیک کی عمر 24 سال 132 دن تھی۔
(iv) ویسٹ انڈین کھلاڑی سیرل کرسٹیانی (Cyril Christiani) کا انتقال جون 2001 میں 24 سال 158 دن کی عمر میں ہوا، ملیریا ان کی موت کا باعث بنا۔
(v) زمبابوے کے ٹریور میڈونڈو (Trevor Medondo) کو 24 سال 201 دن کی عمر میں ملیریا نے سب سے دور کیا۔
(vi) برسوں پہلے 19 مئی 1890 کو جنوبی افریقہ کے گس کیمپس (Gus Kempis) ایک بیماری کی وجہ سے 24 سال288 دن کی عمر میں دنیا چھوڑگئے۔
(vii) عمر کے لحاظ سے 7 ویں کم عمر ترین ٹیسٹ کھلاڑی فلپ ہیوز ہیں، ان کی موت اس لیے زیادہ دردناک ہے کہ ایک تو وہ کھیل کے دوران سب سے جدا ہوئے۔ دوسرے جب یہ اندوہ ناک واقعہ رونما ہوا تو ہیوز کی 26 ویں سال گرہ میں صرف 3 دن باقی تھے۔ انتقال کے وقت ہیوز کی عمر 25 سال 362 دن تھی۔
کم عمری میں انتقال کرجانے والے ان کھلاڑیوں کی فہرست کم عمری کے حساب کچھ اس طرح بنتی ہے:
(i)بنگلادیش کے منظور الاسلام رانا: عمر 22 سال 316 دن
(ii)سری لنکا کے اسٹینلے ڈی سلوا: عمر 23 سال 147 دن
(iii)انگلینڈ کے بین ہالیک: عمر 24 سال 132 دن
(iv) زمبابوے کے ٹریور میڈونڈو: عمر 24 سال 201 دن
(v) نیدرلینڈز کے مارٹس وین نیروپ (Maurits Van Nierop) :عمر، 25 سال 136 دن
(vi) آسٹریلیا کے فلپ ہیوز: عمر 25 سال 362دن
فلپ ہیوز کے ساتھ ہونے والا حادثہ، کرکٹ کے میدانوں سے ایک باصلاحیت بیٹسمین کی جدائی اور آسٹریلوی کرکٹ کی مستقبل کے سپر اسٹار سے محرومی ہر ایک کے لیے تکلیف دہ ہے، لیکن اس واقعے نے بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے جو دنیا بھر کے شائقینِ کرکٹ ، سابق اور موجودہ کھلاڑیوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں، یہی سوالات ہم اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھیں گے۔
فلپ ہیوز کی اندوہ ناک موت کے بعد کیا کرکٹ میں باؤنسر پر مکمل پابندی لگ جائے گی؟ یہ وہ پہلا سوال ہے جو سب کے خاص طور پر تمام فاسٹ بولروں کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے۔ اس واقعے کے بعد تو ہر فاسٹ بولر چاہنے کے باوجود باؤنسر مارتے ہوئے جھجکے گا۔ ہوسکتا ہے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی باؤنسر کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کرلے۔ اگر ایسا ہوا تو بلے بازوں کو تو یقینی طور پر کچھ نہ کچھ تحفظ ملے گا لیکن سچی بات یہ ہے کہ بولرز بالکل بے بس ہوجائیں گے اور کرکٹ کا حُسن بھی گہنا جائے گا۔
بیٹسمینوں کے حفاظتی سامان کا معیار اور ڈیزائن کیسا ہونا چاہیے؟ اس سوال پر بھی بہت بحث ہورہی ہے، پہلے بھی لوگ اس حوالے سے اپنی آراء اور تجاویز پیش کرتے رہے ہیں، لیکن فلپ ہیوز کے حادثے کے بعد تواب ہیلمٹ کے ڈیزائن اور معیار پر ہر کوئی بات کررہا ہے۔ موجودہ کرکٹ ہیلمٹ کا ڈیزائن کچھ ایسا ہے کہ تیزرفتار بال بیٹسمین کے چہرے پر لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اب ہیلمٹ کے ڈیزائن کو بھی ازسرنو تیار کیا جائے گا، تاکہ بیٹسمین کے سر اور چہرے پر گیند لگنے کا ایک فی صد بھی چانس نہ رہے۔
اس حادثے کے بعد کرکٹ قوانین میں ترامیم کا معاملہ بھی اٹھایا جارہا ہے۔ مختلف حلقے باؤنسرز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے آواز بلند کررہے ہیں، جب کہ دوسری طرف سے کہا جارہا ہے کہ باؤنسرز پر پابندی کے بجائے بیٹسمینوں کی حفاظت کے لیے ان کی کرکٹ کٹ کو زیادہ جدید بنایا جائے۔ بہت سے لوگ ہیلمٹ میں استعمال کیے گئے مٹیریل (material) پر سوال اٹھارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک بیٹسمینوں اور فیلڈرز کی کٹ کو حفاظتی نقطۂ نگاہ سے دوبارہ تیار کرانا ہوگا۔
کرکٹ کے ایک عام شائق کی رائے کچھ مختلف بھی ہے دل چسپ بھی، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ ایک اننگ میں ہر بلے باز کو صرف ایک ہی باؤنسر مارنے کی اجازت ہو۔
بعض افراد بولر کی جانب سے باؤنسر کرانے کے حق میں ہیں، لیکن ان کا سوال ہے کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ لگاتار دو باؤنسر کرانے پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے اسکور میں اضافی رنز بطور جرمانہ شامل کیے جائیں، اس طرح بولر خود ہی باؤنسر سے گریز کریں گے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ کرکٹ بال کا مٹیریل بھی کچھ ہلکا کیا جائے، تاکہ اس کی سختی قابل برداشت ہوجائے۔ موجودہ صورت حال میں تو پتھر کی طرح آنے والی گیند جس کھلاڑی کے بھی جسم پر لگتی ہے وہ درد سے چلا اٹھتا ہے۔
ایک حلقے کا تو کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے، اکا دکا واقعات تو کبھی کبھی رونما ہوہی جاتے ہیں لیکن خدانخواستہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی کہ ہم کرکٹ کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیں۔
یہ بات بھی قارئین کو بتاتے چلیں کہ فلپ ہیوز کی موت اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں کھیل کے دوران کھلاڑیوں یا آفیشلز کی اموات پہلے بھی ہوئی ہیں، اعدادوشمار کے مطابق کرکٹ کے میدان میں کسی چوٹ یا حادثے کے باعث میچ کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی زندگی کی بازی ہارجانے والوں کی مجموعی تعداد تقریباً 13 ہے، جن میں 3 پاکستانی کرکٹر بھی شامل ہیں۔ فلپ ہیوز کی موت کا صدمہ اس لیے سب کو زیادہ ہے کیوں کہ وہ نوجوان کرکٹر کم عمر لیکن بہت باصلاحیت تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر اپنی اہلیت و صلاحیتوں کا شان دار ثبوت بھی دیا ۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ کرکٹ کے میدانوں میں کون کھلاڑی یا آفیشل کھیل کے دوران حادثے کا شکار ہوئے اور دنیا سے چلے گئے:
٭ فلپ ہیوز کی موت کے دو دن بعد ہی 29 نومبر 2014 کو یروشلم میں کھیلے گئے میچ کے دوران ایک ایمپائر 55 سالہ ہلیل آسکر (Hillel Oscar) کے چہرے پر گیند لگی جو ایمپائر کی زندگی ختم ہونے کا فیصلہ کربیٹھی۔
٭2013 میں جنوبی افریقہ کے ڈومیسٹک میچ کے دوران 32 سالہ کھلاڑی ڈیرن رینڈل(Darryn Randall) پُل شاٹ کھیلنے کی ناکام کوشش کے دوران سر پر گیند لگنے کے باعث شدید زخمی ہوئے اور اسپتال پہنچتے پہنچتے دنیا سے کوچ کرگئے۔
٭2013 ء ہی میں پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر ذوالفقار بھٹی سکھر میں میچ کے دوران گیند سینے پر لگنے کے باعث پچ پر گرگئے، انھیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دم توڑگئے۔
٭2012ء میں انگلینڈ کے 33 سالہ کھلاڑی کاؤنٹی میچ کے دوران میدان میں گرگئے، انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے ان کے ساتھیوں کو بتایا کہ بیومونٹ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔ اس حادثے سے ایک روز قبل ہی بیومونٹ نے 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
٭2009 میں انگلش سرزمین پر ایک لیگ میچ کے دوران 72 سالہ برطانوی ایمپائر ایلوان جینکنز (Alewn Jenkins)بھی ایسے ہی حادثے کا شکار بنے۔ فیلڈر کی تھرو سیدھی ان کے سر پر لگی اور وہ اسپتال پہنچ کر دم توڑگئے۔
٭2006 میں اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ پاکستانی بیٹسمین وسیم راجا سرے کاؤنٹی کی جانب سے میچ کھیل رہے تھے کہ گراؤنڈ میں ان کو دل کا دورہ پڑاجو جان لیوا ثابت ہوا۔
٭1998ء میں بھارتی کھلاڑی رامن لامبا (Raman Lamba)ڈھاکا میں بنگلادیشی کرکٹ لیگ کے دوران ڈھاکا میں میچ کھیلتے ہوئے کنپٹی پر بال لگنے سے شدید زخمی ہوئے، سنگین نوعیت کی اس چوٹ نے بھارتی کھلاڑی کی زندگی لے لی۔ رامن لامبا نے 4 ٹیسٹ اور 32 ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں بھارتی ٹیم کی نمائندگی کی تھی۔
٭1993 میں ایک میچ کے دوران انگلش کھلاڑی ایان فولے (Ayan Folay)ہک شاٹ کھیلنا چاہتے تھے، لیکن گیند ان کے چہرے پر لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔
٭ کچھ عرصے قبل سابق برطانوی بیٹسمین ولف سلیک گیمبیا میں بلے بازی کے دوران پچ پر گرے اور دم توڑگئے، ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ، اس کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے، لیکن قوی امکان یہی ہے کہ انھیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
٭1959 میں پاکستانی کھلاڑی عبدالعزیز کے کراچی میں بیٹنگ کرتے ہوئے سینے پر گیند لگ سکی ، یہ چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔
٭1942 میں انگلش کھلاڑی اینڈی ڈیوکیٹ لارڈز کے تاریخی میدان میں دوران بیٹنگ دل کا دورہ پڑنے کے باعث چل بسے۔
٭1870ء میں لارڈزمیں ہی 25 سالہ جارج سمرز (George Smerz)کے سر پر گیند لگی اور وہ اپنے دوست احباب کو روتا چھوڑگئے۔
ان افسوس ناک واقعات کے علاوہ کرکٹ کے میدانوں میں فیلڈنگ، بیٹنگ اور بولنگ کے دوران درجنوں کھلاڑیوں کو شدید چوٹیں لگی ہیں، بہت سے کھلاڑی مہینوں اسپتالوں میں رہے اور طویل عرصے تک کرکٹ سے دور ہوگئے۔ کچھ کھلاڑی چوٹیں لگنے کے بعد تو دوبارہ میدان میں نہیں اترسکے اور جو میدان میں واپس آئے وہ پہلے جیسی پرفارمنس دکھانے سے قاصر تھے۔ ابھی چند روز قبل ہی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران ابوظبی میں پاکستانی بلے باز احمد شہزاد کے سر پر گیند لگی تھی جس کی وجہ سے انھیں دورہ نامکمل چھوڑ کر وطن واپس آنا۔ وہ بھی کورے اینڈرسن کی گیند کو ہُک کرنا چاہ رہے تھے، لیکن گیند ان کی کنپٹی پر لگی۔ یہ احمد شہزاد کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔
فلپ ہیوز کی موت کے بعد دنیائے کرکٹ میں سوگ کی کیفیت ہے، مختلف میچوں کو منسوخ کیا گیا، کھلاڑیوں نے کچھ دیر کی خاموشی اختیار کرکے نوجوان بلے باز کو خراج عقیدت پیش کیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ تو کھیلی جانی ہے، اب یہ کرکٹ کے کرتا دھرتا آئی سی سی اور تمام بورڈز کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف بیٹسمینوں بل کہ تمام کھلاڑیوں کی حفاظت کے لیے پالیسیاں ترتیب دیں یا قانون بنائیں۔
مختلف کھیلوں میں حادثات کا شکار ہونے والے کھلاڑی
کرکٹ کے علاوہ مختلف کھیلوں میں بھی حادثات کا شکار ہونے والے کھلاڑیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان میں سے کچھ کھلاڑی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور بعض اتنے خوش قسمت ضرور تھے کہ ان کی زندگیاں بچ گئیں:
٭ کار ریسنگ
کار ریسنگ کے ٹریک کی عالمی شہرت یافتہ شخصیت جرمنی کے مائیکل شومیکر (Michael Schumacher)کو کون نہیں جانتا، وہ کئی برس اپنی مہارت اور صلاحیتوں کی وجہ سے فارمولا ونگراں پری کے ٹریک پر سب سے آگے رہے ہیں۔ دسمبر 2013 میں اسکیٹنگ کے دوران وہ شدید زخمی ہوئے، مائیکل شومیکر کی زندگی تو بچ گئی لیکن شدید چوٹوں کی وجہ سے ان کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگیا ہے اور اب وہ ریسنگ کار کے بجائے وہیل چیئر پر آگئے ہیں۔
٭ فٹ بال
فٹبال کے میدانوں میں درجنوں فٹبالر میچ کے دوران دوڑتے دوڑتے اس دنیا سے چلے گئے۔ گذشتہ چند سال کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں:
٭ مالی سے تعلق رکھنے والے 27جولائی 2013 میں سیکو کمارا (Abdoulaye Sekou Camara) انڈونیشیا میں ڈومیسٹک فٹبال میچ کی ٹریننگ کے دوران میدان میں گرے ، کمارا کو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت ڈیکلیئر کردی۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ جولائی 2013 ہی میں پیرو سے تعلق رکھنے والا 18 سالہ باصلاحیت فٹبالر یائر کلاویجو (yair clavijo) میچ کے دوران اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ طبی ماہرین کے مطابق یائر کی موت دل پر پڑنے والے شدید دباؤ کی وجہ سے ہوئی۔
٭بیرات سیسی پی (Berat Sacipi)، ڈومینیک رپ (Dominix Rupp)، کوئنٹن مارگرٹ (Quentin Margueritte)بھی ان فٹبالر زمیں شامل ہیں جو 2013 میں فٹبال کے گراؤنڈ میں دوستانہ میچ کھیلتے کھیلتے اپنی ٹیم، ساتھیوں اور گھر والوں سے جدا ہوئے۔
٭اگست 2012 میں نائیجیریا کے چنونسو ہنری (Chinonso Ihelwere Henry) کو میچ کے دوران دل کا دورہ پڑا ۔ ڈاکٹروں نے تقریباً نصف گھنٹے ہنری کو طبی امداد دی، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔
٭مئی میں ماریطانیہ کا فٹبالر محمد لیمن، اپریل 2012 میں اطالوی کھلاڑی پائیماریو موروسینی (Piermario Morosini) اور مارچ میں بھارتی کھلاڑیڈی وینکاتیش (D Venkatesh)گراؤنڈ میں گرے اور چل بسے۔ ڈاکٹروں نے ان کی موت کی وجوہ بھی ہارٹ اٹیک ہی بتائیں۔
٭2011 میں نائیجیریا کے بابسم ال جکو (Bobsam Elejiko) ، جاپانی کھلاڑی ناؤکی ماتسودا (Naoki Matsuda( ، چاڈ سے تعلق رکھنے والا لوکسمبے لوکو (Lokissimbaye Lokoکھیل کے دوران چل بسے۔
٭ 2010میں کمبوڈیا کے ولسن مینے (Wilson Mene) ، کروشیا کا 32سالہ کھلاڑی گوران تنجک (Goran Tunjic) ، گھانا کے بارتھولمیو اوپوکو (Bartholmew Opoku) ، اور سوڈان کے اینڈیورینس ادہور (Endurance Idahor) بھی عارضہ قلب کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
٭مارچ 2009 میں انڈونیشی کھلاڑی جمادی عابدی کے پیٹ میں حریف کھلاڑی کی کک لگی اور وہ شدید درد کے عالم میں میدان میں گرگئے۔ جمادی کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، جہاں 8 دن موت سے لڑنے کے بعد وہ زندگی کی بازی ہارگیا۔
٭ فروری 2008 میں کانگو کا کھلاڑی گائے چنگوما (Guy Tchingoma) میچ کھیلتے ہوئے مخالف کھلاڑی سے ٹکراگیا۔ اس نے پورا میچ تو کھیلا لیکن مقابلہ ختم ہوتے ہی وہ زمیں گرگیا اور چل بسا۔ اپریل میں ایک کلب میچ میں یوگوسلاویہ کا ہرووج کسٹک (Hrvoje Custic) میدان کے باہر لگی کنکریٹ کی دیوار سے ٹکراکر شدید زخمی ہوا اور اسپتال میں دوران علاج اس کی موت واقع ہوگئی۔ مئی میں روسی کھلاڑی رستم بلاتو(Rustem Bulatov) کی میچ کے دوران طبیعت خراب ہوئی، انتظامیہ نے اسے اسپتال بھیجا جہاں اگلے روز وہ چل بسا۔
ان کے علاوہ بھی دنیا بھر میں درجنوں کھلاڑی ہیں جو مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے دوران یا تربیتی سیشن میں کھیلتے ہوئے جاں سے گزرگئے۔ ایسے واقعات افسوس ناک ضرور ہوتے ہیں، قریبی ساتھیوں کا دل بھی بھر آتا ہے اور آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں لیکن پھر امپائر کا اشارہ ہوتا ہے، ریفری کی سیٹی بجتی ہے اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ میدان سج جاتے ہیں، تماشائیوں کا شوروغل، اپنی پسندیدہ ٹیموں کی ہمت بڑھانے کے نعرے، اچھے کھیل پر تعریفیں، دادوتحسین کے نعرے، مایوس کن پرفارمنس پر ہوٹنگ، یہ سب دوبارہ سے شروع ہوجاتا ہے۔ جانے والے کے ساتھی بھی اُس کا غم محسوس کرنے کے باوجود میدان میں بہتر سے بہترین پرفارمنس دینے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ کام یابیوں پر جشن بھی مناتے ہیں اور دل کھول کر ہنستے ہیں۔ اسی کو زندگی کہتے ہیں۔