عزیز میاں قوال کو مداحوں سے بچھڑے 14 برس بيت گئے

عزیزمیاں کو شعروں کی ادائیگی میں ایسی مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی

عزیز میاں نے دنیا کے درجنوں ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا فوٹو: فائل

NEW YORK/SAN FRANCISCO:
فن قوالی میں منفرد مقام رکھنے والے عزیز میاں قوال کو مداحوں سے بچھڑے 14 برس بيت گئے لیکن ان کا گایا ہوا کلام آج بھی مقبول ہے۔

17 اپریل 1942 کو نئی دلی میں پیدا ہونے والے عبدالعزیز نے قیام پاکستان کے بعد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لاہور میں سکونت اختیار کی۔ عزیز میاں قوال نے معروف قوال استاد عبدالوحید سے یہ فنِ سیکھنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے علامہ اقبال سمیت کئی شعرا کا کلام گایا لیکن اپنی بیشتر قوالیوں کی شاعری خود لکھی تھی۔


عزیز میاں نے قوالی کو کوئی جدت نہیں دی اور ان کا انداز بھی روایتی قوالوں ہی کی طرح تھا لیکن ان کی آواز بارعب اور گونج دار تھی اس کے علاوہ انہیں شعروں کی ادائیگی میں ایسی مہارت حاصل تھی جو ان کے سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ ان کی بیشتر قوالیوں میں اللہ تبارک تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت اور اولیائے کرام سے والہانہ عشق کا رنگ چھلکتا تھا لیکن انہوں نے رومانی کلام بھی بہت خوبصورتی سے گایا۔ ان کی گائی ہوئی قوالیوں میں ''میں شرابی''، ''تیری صورت'' اور ''اللہ ہی جانے کون بشر ہے'' کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مقبول عام ہیں۔ عزیز میاں نے وطن عزیز سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا لیکن ایران میں انہیں خصوصی پزیرائی حاصل ہوئی، ان کے مداحوں میں سابق شاہ ایران بھی شامل تھے۔

2000 میں عزیز میاں قوال کو یرقان کا عارضہ لاحق ہوگیاتھا، ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے قوالی کو ترک نہیں کیا۔ اسی برس وہ حکومت ایران کی دعوت پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے تہران گئے جہاں ان کا انتقال ہوگیا تاہم ان کے جسد خاکی کو وطن لایا گیا اور ان کی تدفین ملتان میں کی گئی۔
Load Next Story