پاکستان ایک نظر میں ملک ٹوٹ جائے گا۔۔۔ اگر
پاکستان میں صرف ایک مرتبہ شفاف انتخابات ہوئے اور ملک تقسیم ہوگیا۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مزید شفافیت ہمیں مزید دکھ دے جائے،
KARACHI:
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے' سردار' کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے باہمی 'رضا' سے جسٹس (ریٹائرڈ) سردا رمحمد رضا خان صاحب کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ حکومت و اپوزیشن میں کافی عرصے سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر مذاکرت جاری تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ 16 ماہ سے خالی پڑا تھا اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے حکومت پر شدید دباؤ بھی تھا جس کی وجہ سے چارو ناچار تقرری لازمی تھی۔ بادی النظر میں سردار صاحب کے نام پر کسی قسم کا کوئی اختلاف نظر نہیں آ رہا۔ لیکن اب ان کا بطور چیف الیکشن کمشنر کردار کیسا رہے گا اس کا اندازہ تو ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اور خاص طور پر بلدیاتی انتخابات کے بعد ہو گا (اگر بلدیاتی انتخابات ہو ئے تو)۔
ایبٹ آباد کے گاؤں نملی میرا میں 10فروری 1945ء کو پیدا ہونے والے جسٹس (ریٹائرڈ) سردارمحمد رضا خان صاحب کے لیے یہ عہدہ یقیناًایک چیلنج ہے کیوں کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ریٹائرڈ) رانا بھگوان داس پہلے ہی یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کر چکے تھے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں شاید یہ مشکل ترین عہدہ ہے۔ جس کے مقدر میں ہر وقت تنقید کے نشتر ہوتے ہیں۔فخر الدین جی ابراہیم صاحب کے نام پر بھی سب کا اتفاق تھا لیکن پھر بھی 2013 کے انتخابات متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے۔اور کم و بیش حکمران جماعت کے علاوہ ہر سیاسی جماعت نے دھاندلی کا کسی نہ کسی صورت اقرار کیا۔ حیران کن طور پر حکمران جماعت نے بھی ایک صوبے کے علاوہ باقی صوبوں میں دھاندلی کا ڈھکے چھپے لفظوں میں گلہ کیا۔ جس کی وجہ سے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور شدید تنقید کے بعد فخرالدین جی ابراہیم صاحب منظر سے ہی ہٹ چکے ہیں۔
نئے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے لیے سب سے اہم کام اس وقت بلدیاتی الیکشن ہیں۔ اگر وہ اس معاملے سے دانشمندی کے ساتھ نمٹ لیتے ہیں تو پھر یقیناان کے لیے کام آسان ہوتا جائے گا اور شفاف بلدیاتی انتخابات سے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف چہ مگوئیاں ختم ہو جائیں گی بلکہ دھرنے والوں کی تشفی بھی ہو جائے گی ۔
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کا مسئلہ شفاف انتخابات رہا ہے۔ ہر کوئی ہارپر دھاندلی اور جیت پر شفافیت کے نعرے لگاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام صاحبان دانش اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں سب سے شفاف الیکشن 70ء کے تھے۔ تمام سیاستدانوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ انتخابات شفاف ہوں لیکن پاکستانی سیاستدان شفاف انتخابات کو ہضم کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے ۔ ملاحظہ کیجیے۔ 70ء کے عام انتخابات شفافیت کی سند تو پاتے ہیں لیکن انہی انتخابات کی وجہ سے ملک کے دو ٹکڑے بھی ہو گئے۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اگر پاکستان اگر نہ ٹوٹتا تو آج اقوام عالم میں اس کا رتبہ کیا ہوتا؟ اگر خود مختاری کے جن کے قابو کرنے کے بجائے اس کو عقل سے استعمال کیا جاتا تو آج وطن عزیز ترقی کی کن منازل پر ہوتا۔ پاکستان میں سیاست کا پہلا سبق ہی یہی ہے کہ اپنی شکست پر واویلا ور جیت پر جشن مناؤ۔ شفاف انتخابات کو ہضم کرنے کی ہمت و صلاحیت ہوتی تو جیسے مشرقی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ مانا گیا ویسے ہی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا بھی مانا جاتا۔ لیکن اقتدار کی کرسی پر شراکت تو ہمارے سیاستدانوں کا شیوہ ہی نہیں رہا۔ شاید اسی لیے 16دسمبر کادن پاکستان کی تاریخ کا سیا ہ ترین دن قرار پایا۔ سانحہ ء مشرقی پاکستان صرف کتابوں میں پڑھنے کے باوجود میری نسل کا نوجوان دکھ محسوس کیے بناء نہیں رہ سکتا۔
70ء کے انتخابات کے دنوں کا ایک اخباری تراشہ مجھ تک کسی ذریعے سے پہنچا۔ یہ اخباری تراشہ روزنامہ آزاد کا ہے جو اس وقت کا ایک مشہور اخبار تھا۔شفاف انتخابات کی طرح شاید شفاف صحافت بھی اس دور کا ایک خاصہ تھی ۔ روزنامہ آزاد کا نام اس لیے بھی تاریخ میں زندہ رہے گا کہ اُس وقت کے نیوز ایڈیٹر مرحوم سید عباس اطہر صاحب نے بھٹو اور مجیب کے مذاکرات میں ناکامی کے بعد وہ شہرہ آفاق ہیڈ لائن لگائی تھی کہ 'اِدھر ہم، اُدھر تم'(سننے میں یہ بھی آتا ہے کہ یہ لفظ بھٹو نے مجیب الرحمٰن کو کہے تھے)۔
پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر کوئی بھی ہو انتخابات کی شفافیت یا غیر شفافیت کا ملبہ اس پر ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شفاف انتخابات اس ملک کی اشرافیہ کو ہضم ہی نہیں ہو سکتے ۔ اور میں تو حیران ہوں ان جماعتوں پر جو شفاف انتخابات کا واویلا کرتی ہیں۔ اگر واقعی نئے چیف الیکشن کمشنر صاحب موجودہ دور کے عبد الستار(70ء انتخابات کے وقت چیف الیکشن کمشنر) بن گئے تو خدانخواستہ، میرے منہ میں خاک، پاکستان کی سالمیت پھر خطرے میں نہ پڑ جائے۔ کیوں کہ پاکستان میں صرف ایک مرتبہ عام انتخابات شفاف قرار پائےاور شفاف انتخابات کے نتیجے میں ملک تقسیم ہو گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مزید شفافیت ہمیں مزید دکھ دے جائےکیوں کہ ہم چھوٹے دل کے لوگ ہیں ہم کسی کی جیت برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو 70ء کے انتخابات کے بعد39.2فیصدووٹ لینے والی جماعت کا راستہ 18.6فیصد ووٹ لینے والی جماعت نہ روکتی ۔بلکہ صوبائی خود مختاری کا راستہ اپناتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچاتی ۔ اگر شفاف الیکشن اس ملک کے نام نہاد خیر خواہوں کو ہضم ہو پاتے تو پھر کیسے )160کم و بیش) نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کو 81(کم و بیش)نشستیں حاصل کرنے والی جماعت علیحدگی کی طرف مائل کر دیتی ۔
خدا کرے کہ اس ارض پاک پر وہ دن آئے کہ حقیقی معنوں میں شفاف انتخاب ہو سکیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی دل کے گم گشتہ گہرایوں میں سر ابھارنا شروع کر دیتا ہے کہ نصف صدی سے زائد کے قصے میں ایک شفاف انتخابات سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا اسی طرح اگر دوبارہ شفاف انتخابات ہو گئے تو وطنِ عزیز پرکیا بیتے گی؟اگر واقعی نئے چیف الیکشن کمشنر اس ملک میں شفاف انتخابات کی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کیا ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ اس شفافیت کو قبول کر پائیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ' ملک ٹوٹ جائے گا۔۔۔ اگر شفاف انتخابات ہو گئے تو'۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے' سردار' کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے باہمی 'رضا' سے جسٹس (ریٹائرڈ) سردا رمحمد رضا خان صاحب کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ حکومت و اپوزیشن میں کافی عرصے سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر مذاکرت جاری تھے۔ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ 16 ماہ سے خالی پڑا تھا اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے حکومت پر شدید دباؤ بھی تھا جس کی وجہ سے چارو ناچار تقرری لازمی تھی۔ بادی النظر میں سردار صاحب کے نام پر کسی قسم کا کوئی اختلاف نظر نہیں آ رہا۔ لیکن اب ان کا بطور چیف الیکشن کمشنر کردار کیسا رہے گا اس کا اندازہ تو ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اور خاص طور پر بلدیاتی انتخابات کے بعد ہو گا (اگر بلدیاتی انتخابات ہو ئے تو)۔
ایبٹ آباد کے گاؤں نملی میرا میں 10فروری 1945ء کو پیدا ہونے والے جسٹس (ریٹائرڈ) سردارمحمد رضا خان صاحب کے لیے یہ عہدہ یقیناًایک چیلنج ہے کیوں کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ریٹائرڈ) رانا بھگوان داس پہلے ہی یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کر چکے تھے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں شاید یہ مشکل ترین عہدہ ہے۔ جس کے مقدر میں ہر وقت تنقید کے نشتر ہوتے ہیں۔فخر الدین جی ابراہیم صاحب کے نام پر بھی سب کا اتفاق تھا لیکن پھر بھی 2013 کے انتخابات متنازعہ حیثیت اختیار کر گئے۔اور کم و بیش حکمران جماعت کے علاوہ ہر سیاسی جماعت نے دھاندلی کا کسی نہ کسی صورت اقرار کیا۔ حیران کن طور پر حکمران جماعت نے بھی ایک صوبے کے علاوہ باقی صوبوں میں دھاندلی کا ڈھکے چھپے لفظوں میں گلہ کیا۔ جس کی وجہ سے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور شدید تنقید کے بعد فخرالدین جی ابراہیم صاحب منظر سے ہی ہٹ چکے ہیں۔
نئے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے لیے سب سے اہم کام اس وقت بلدیاتی الیکشن ہیں۔ اگر وہ اس معاملے سے دانشمندی کے ساتھ نمٹ لیتے ہیں تو پھر یقیناان کے لیے کام آسان ہوتا جائے گا اور شفاف بلدیاتی انتخابات سے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف چہ مگوئیاں ختم ہو جائیں گی بلکہ دھرنے والوں کی تشفی بھی ہو جائے گی ۔
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کا مسئلہ شفاف انتخابات رہا ہے۔ ہر کوئی ہارپر دھاندلی اور جیت پر شفافیت کے نعرے لگاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام صاحبان دانش اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں سب سے شفاف الیکشن 70ء کے تھے۔ تمام سیاستدانوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ انتخابات شفاف ہوں لیکن پاکستانی سیاستدان شفاف انتخابات کو ہضم کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے ۔ ملاحظہ کیجیے۔ 70ء کے عام انتخابات شفافیت کی سند تو پاتے ہیں لیکن انہی انتخابات کی وجہ سے ملک کے دو ٹکڑے بھی ہو گئے۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اگر پاکستان اگر نہ ٹوٹتا تو آج اقوام عالم میں اس کا رتبہ کیا ہوتا؟ اگر خود مختاری کے جن کے قابو کرنے کے بجائے اس کو عقل سے استعمال کیا جاتا تو آج وطن عزیز ترقی کی کن منازل پر ہوتا۔ پاکستان میں سیاست کا پہلا سبق ہی یہی ہے کہ اپنی شکست پر واویلا ور جیت پر جشن مناؤ۔ شفاف انتخابات کو ہضم کرنے کی ہمت و صلاحیت ہوتی تو جیسے مشرقی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ مانا گیا ویسے ہی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا بھی مانا جاتا۔ لیکن اقتدار کی کرسی پر شراکت تو ہمارے سیاستدانوں کا شیوہ ہی نہیں رہا۔ شاید اسی لیے 16دسمبر کادن پاکستان کی تاریخ کا سیا ہ ترین دن قرار پایا۔ سانحہ ء مشرقی پاکستان صرف کتابوں میں پڑھنے کے باوجود میری نسل کا نوجوان دکھ محسوس کیے بناء نہیں رہ سکتا۔
70ء کے انتخابات کے دنوں کا ایک اخباری تراشہ مجھ تک کسی ذریعے سے پہنچا۔ یہ اخباری تراشہ روزنامہ آزاد کا ہے جو اس وقت کا ایک مشہور اخبار تھا۔شفاف انتخابات کی طرح شاید شفاف صحافت بھی اس دور کا ایک خاصہ تھی ۔ روزنامہ آزاد کا نام اس لیے بھی تاریخ میں زندہ رہے گا کہ اُس وقت کے نیوز ایڈیٹر مرحوم سید عباس اطہر صاحب نے بھٹو اور مجیب کے مذاکرات میں ناکامی کے بعد وہ شہرہ آفاق ہیڈ لائن لگائی تھی کہ 'اِدھر ہم، اُدھر تم'(سننے میں یہ بھی آتا ہے کہ یہ لفظ بھٹو نے مجیب الرحمٰن کو کہے تھے)۔
پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر کوئی بھی ہو انتخابات کی شفافیت یا غیر شفافیت کا ملبہ اس پر ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شفاف انتخابات اس ملک کی اشرافیہ کو ہضم ہی نہیں ہو سکتے ۔ اور میں تو حیران ہوں ان جماعتوں پر جو شفاف انتخابات کا واویلا کرتی ہیں۔ اگر واقعی نئے چیف الیکشن کمشنر صاحب موجودہ دور کے عبد الستار(70ء انتخابات کے وقت چیف الیکشن کمشنر) بن گئے تو خدانخواستہ، میرے منہ میں خاک، پاکستان کی سالمیت پھر خطرے میں نہ پڑ جائے۔ کیوں کہ پاکستان میں صرف ایک مرتبہ عام انتخابات شفاف قرار پائےاور شفاف انتخابات کے نتیجے میں ملک تقسیم ہو گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مزید شفافیت ہمیں مزید دکھ دے جائےکیوں کہ ہم چھوٹے دل کے لوگ ہیں ہم کسی کی جیت برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو 70ء کے انتخابات کے بعد39.2فیصدووٹ لینے والی جماعت کا راستہ 18.6فیصد ووٹ لینے والی جماعت نہ روکتی ۔بلکہ صوبائی خود مختاری کا راستہ اپناتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچاتی ۔ اگر شفاف الیکشن اس ملک کے نام نہاد خیر خواہوں کو ہضم ہو پاتے تو پھر کیسے )160کم و بیش) نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کو 81(کم و بیش)نشستیں حاصل کرنے والی جماعت علیحدگی کی طرف مائل کر دیتی ۔
خدا کرے کہ اس ارض پاک پر وہ دن آئے کہ حقیقی معنوں میں شفاف انتخاب ہو سکیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی دل کے گم گشتہ گہرایوں میں سر ابھارنا شروع کر دیتا ہے کہ نصف صدی سے زائد کے قصے میں ایک شفاف انتخابات سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا اسی طرح اگر دوبارہ شفاف انتخابات ہو گئے تو وطنِ عزیز پرکیا بیتے گی؟اگر واقعی نئے چیف الیکشن کمشنر اس ملک میں شفاف انتخابات کی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کیا ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ اس شفافیت کو قبول کر پائیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ' ملک ٹوٹ جائے گا۔۔۔ اگر شفاف انتخابات ہو گئے تو'۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔