عمران خان کی شامیں

مغربی ملکوں میں جہاں خان صاحب کی دیوانی جوانی گزری ہے وہاں شام کسی پسندیدہ مے خانے یا کسی رقص گاہ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔


Abdul Qadir Hassan December 07, 2014
[email protected]

قومی لیڈر جناب عمران خان نے اپنی تمام تر سیاسی مہم جوئی کا راز خود ہی افشاء کر دیا ہے اور اس مہم کے سب سے پرشور اور مقبول عام سلسلہ کی ایک کڑی عرف دھرنا میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اب سرشام کے دھرنے تو ایک مجبوری بن گئے ہیں اور سوچتا ہوں کہ اگر یہ دھرنے نہ ہوئے تو میری شامیں کیسے گزریں گی۔''

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

تو معلوم ہوا کہ قوم کو جو اتنا بڑا وخت ڈالا ہے وہ خان صاحب کی شاموں کو پر رونق بنانے کے لیے ہے۔ ہم سرشام گھروں میں گھس جانے والے پاکستانیوں کو اندازہ نہیں کہ جدید دنیا میں شام کی کیا اہمیت ہے بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ دن بھر کسی جانور کی طرح محنت کرنے کا مقصد ہی شام کو رنگین بنانا ہے جب کہ ہم پاکستانی دن بھر کی تکان بستر میں گھس کر دور کرتے ہیں۔

مغربی ملکوں میں جہاں خان صاحب کی دیوانی جوانی گزری ہے وہاں شام کسی پسندیدہ مے خانے یا کسی رقص گاہ میں جلوہ گر ہوتی ہے اور ان لوگوں کے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں شام کے چند گھنٹے ہی پورا دن ہوتے ہیں باقی کا سارا وقت تو ان شاموں کے استقبال یا ان کو الوداع کہنے میں گزر جاتا ہے۔ ہم لوگ تو نہ جانے کیسے زندہ رہتے ہیں۔ پانچ چھ دن صبح سے شام تک کوئی کام اور پھر ہفتہ وار چھٹی کا دن ہفتہ بھر کے جمع کام نپٹانے میں گزار دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں سے آوارگی کا گلہ رہتا ہے لیکن کیا ہم نے ان کی جوان خواہشوں کے لیے کچھ ایسی جگہیں بنا رکھی ہیں جہاں وہ دن بھر کا غصہ اور مایوسی نکال سکیں اور اپنی بے تاب جوانی کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔

ہمارے نوجوان جو پریشان ہو کر غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں اس لیے کہ ان کے لیے جوانی کی تسکین کے لیے صحیح راستہ موجود نہیں ہے بہرکیف خان صاحب کی جوانی شام کے ہنگاموں میں گزری ہے اور یہ ان کی ہمت اور ایک اختراع ہے کہ انھوں نے سیاست کی دنیا میں صبح و شام کو بھی رنگین بنا لیا ہے اور نوجوان نسل کو جوش و جذبہ نکالنے کے لیے ایک زبردست ذریعہ دے دیا ہے۔ خان صاحب کے دھرنے ہم پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا مشغلہ ہیں کہ اگر وہ کبھی ان کو بند کرنے کی سوچیں گے تو قوم کے جوان ان سے ناراض ہو جائیں گے۔

خود خان صاحب بھی جیسے کہ انھوں نے کہا ہے وہ اپنی شامیں کیسے گزاریں گے۔ خان صاحب کی عمر تاریخ کے حساب سے کتنی بھی ہو لیکن ان کی توانائیاں کسی نوجوان سے کم نہیں ہیں اور ابھی تو میں جوان ہوں والا مضمون ہے پھر ان کی وہ گل و گلزار اور مہکتی یادیں جو ان شاموں سے وابستہ ہیں ان کو کیسے چین لینے دیتی ہیں۔ اب وہ کچھ مختلف شاموں کی تلاش میں مغرب کی دنیا سے مشرق میں آئے ہیں اور یہاں انھوں نے اپنی ایک نئی رنگین دنیا بسا لی ہے تو وہ اسے کیسے بے رنگ کر سکتے ہیں۔ کیا آپ ان کے دھرنوں کا رنگ و نور نہیں دیکھتے اور ان بے چین جذبات کو محسوس نہیں کرتے جو ان دھرنوں سے پھوٹتے ہیں۔

پاکستان جیسی ثقافتی بنجر سرزمین میں انھوں نے ایک نیا پرنور گلشن کھلایا ہے اور کمال کر دیا ہے۔ پوری سیاسی دنیا کو چکرا دیا ہے جو مرغن کھانوں اور کھابوں کی غیر رومانی بلکہ حیوانی زندگی بسر کر رہی تھی اور سیاست دانوں اور کارکنوں کے سامنے چند منظر کھلاتے ہیں جو ان کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر انھیں بھی دن رات میں شاموں کے پراسرار وقت کا احساس ہو جائے تو وہ بھی دیوان خانوں میں بند ہو کر شام گزارنے باہر نکل آئیں اور قدرت کے ان نظاروں کو ملاحظہ کریں جو راتوں سے ہی مخصوص ہیں۔ رات کی رانی کی طرح جس کی خوشبو دن بھر اپنی رات کی یادوں میں گم خاموش سوتی رہتی ہے مگر سرشام کروٹ بدل کر اور بند آنکھیں کھول کر بیدار ہو جاتی ہے اور پھر ایک عالم کو مہکا دیتی ہے۔

قدرت کے بنائے ہوئے دنوں اور راتوں اور ان کے درمیان صبحوں اور شاموں کے وفقوں میں نئی دنیا آباد ہوتی ہے اور انسانوں کو ان تمام قدرتی رعنائیوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ قدرت کی ان نعمتوں سے کون کس قدر فیض یاب ہوتا ہے اور کس کو قدرت کبھی ایسی توفیق بھی دے دیتی ہے کہ وہ ان وفقوں کو ایک نیا رنگ دے دے۔ ایک دنیا سے کئی دنیائیں بسا لے۔ ہمارے ایک شاعر نے صبح سے مسحور ہو کر کہا تھا کہ ع اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی۔ قدرت کی رعنائیوں کو دن رات ہر وقت بیان کرتے ہیں اور ان کو سننے والوں میں کچھ عمران خان بھی ہوتے ہیں جو اپنی شاموں کو قومی سطح پر رنگین اور پرکیف بنا لیتے ہیں اور پوری قوم میں ایک ہلچل مچا دیتے ہیں۔ عمران نے اپنی سیاست کو بھی ان شاموں کا تحفہ سمجھ لیا ہے اور اب وہ سیاست دان بھی جو ایسی شاموں سے ناآشنا تھے ان پر رشک کرنے لگے ہیں۔

ان میں ایسے سیاست دان بھی ہیں جو ایک نہیں کئی عمران ان کی شاموں سمیت خرید سکتے ہیں لیکن ذوق ایک الگ شے ہے اور جو خریدی نہیں جا سکتی۔ یہ قدرت کا عطیہ ہوتی ہے۔ کسی کی قسمت میں دولت سے بھری تجوریاں ہوتی ہیں اور کسی کے نصیب میں فنون لطیفہ کی دنیا کی نعمتیں ہوتی ہیں جو تجوریوں کی طرح کسی برے حال میں بھی خالی نہیں ہوتیں۔ یہ وہ خزانہ ہے جو ہر دم بھرتا چلا جاتا ہے۔

شاعروں اور مصوروں کی بات چھوڑیں آج کے بعض سیاست دان بھی تاریخ بنا رہے ہیں۔ ہمارے قائد نے پاکستان بنا کر یہ معجزہ دکھایا کہ تاریخ میں اس سے پہلے کوئی ملک اس طرح عدم سے وجود میں نہیں آیا۔ پھر ہم نیلسن منڈیلا کو دیکھ رہے ہیں جس نے سیاست کی دنیا میں نئی طرح ڈالی اور جیتے جی امر ہو گیا۔ سیاست کی اعلیٰ ترین دنیا میں ہم پاکستانیوں کا حصہ بھی ہمارے قائد نے ڈال دیا ہے جسے ہم مٹانے میں دن رات مصروف ہیں اور اب تو ہمارے حکمرانوں کے ساتھی بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارا مقصد کاروبار ہے ملک چلانا نہیں ہے۔

کسی قوم اور ملک پر اس سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے حکمران ایسے ہوں جو اس ملک کی بادشاہی تو حاصل کر گئے لیکن اس ملک کو کاروبار کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اس طرح ہمارے حصے میں قدرت کے صبح و شام میں سے کوئی شب دیجور آئی ہے سیاہ ترین رات جس سے انسانوں نے ہمیشہ پناہ مانگی ہے۔ ہمارا بھی اللہ مالک ہے کھابے کھانے والے یا شاموں کو منانے والے ہماری قسمت میں ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بھی مل ہی جاتی ہیں لیکن آنے والوں کے لیے ایک عبرت بن کر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں