بے حسی کا ایبولاوائرس
ایک بار یہ مرض ایک انسان میں داخل ہوجائے تو پھر اس کا دوسرے انسان میں منتقل ہونا مشکل نہیں ہوتا۔
www.facebook.com/draffanqaiser
8 دسمبر 2013ء کی گونج Black میں ، برِ اعظم افریقہ اور اس سے جڑی تاریکیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ سائنس دان آج بھی یہ بات جاننے سے قاصر ہیں کہ ہر مہلک ترین بیماری کا افریقہ کے کالے دیسوں سے کیا رشتہ ہے۔
اسی سال اگست کے وسط میں مغربی افریقہ کے تین ممالک گنی(GUINEA)،سیر الیون اور لائبیریا میں ایک پراسرار وبا پھیل گئی، اس کا سبب ایک پراسرار وائرس ایبولا کو قرار دیا گیا۔طاعون کی بیماری یورپ کے جنوبی ممالک میں سات سال1346ء سے 1353ء تک پھیلتی رہی۔ کروڑوں افراد اس بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے۔کہا جاتا ہے کہ وبا ختم ہونے تک یورپ کی دو تہائی آبادی اس بیماری سے ختم ہوچکی تھی۔یورپ میں ایک ایسا چرچ بھی ان انسانی ہڈیوں سے تعمیر کیا گیا کہ جنہوں نے اپنی جانیں طاعون کی وبا میں کھو دیں۔کچھ عرصہ پہلے 1976ء میں وسطی افریقہ کے دو ممالک کانگو اور سوڈان میں ایک نئی بیماری دیکھنے میں آئی۔ اس بیماری میں مریض کے جسم سے باہر اور اندر خون نہ جمنے کی وجہ سے اس کا ضایع ہونا نہیں روکا جا سکتا تھا، چنانچہ اسے EBOLA HEMORRHAGIC FEVER کا نام دیا گیا، بعد میں اس بیماری کا نام ' ای وی ڈی' EBOLA VIRUS DISEASE رکھ دیا گیا۔ایبولا نام کی وجہ کانگو سے گزرنے والا ' ایبولا ' نامی دریا ہے ۔
جس سے متصل آبادیاں اس وائرس کی جنم بھومی قرار دی جاتی ہیں۔ایبولا وائرس یوں تو تین اقسام کا ہوتا ہے ، مگر اگست سے وبائی صورت اختیار کرنے والا وائرس وہی ہے جو 1976ء میں کانگو میں دیکھا گیا تھا۔ایڈز کے وائرس کی طرح ایبولا بھی افریقہ کے بندروں(یا چمگادڑوں) کے گوشت، خون اور دیگر رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔
افریقہ میں بندروں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ، کئی دیگر وجوہات بھی ، انسانوں تک اس بیماری کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہیں، ایک بار یہ مرض ایک انسان میں داخل ہوجائے تو پھر اس کا دوسرے انسان میں منتقل ہونا مشکل نہیں ہوتا۔ایڈز ہی کی طرح ایبولا بھی متاثرہ مریض کے قریب بیٹھنے،اس کے سانس لینے یا کھانسنے سے نہیں پھیلتا۔ ایبولا کی علامات میں تیز بخار،پٹھوں اور سر میں درد،قے،دست اور گلے کا دکھنا شامل ہیں۔آخری مراحل میں خون بیرونی اور اندرونی طور پر بہنے لگتا ہے ،اور ڈینگی کی آخری اسٹیج کی طرح پھر ایبولا پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔
ایبولا سے ڈر کر اس پر اربوں ڈالر خرچ کرنا ان قوموں کے لیے آسان ہے کہ جن کا ہیلتھ سسٹم ترقی کی بلندیاں چھو رہا ہے۔وہ اب اپنے معاشروں میں فلاحی طور پر جسمانی اعضاء کے عطیہ کرنے کو فروغ دے رہے ہیں۔ایسے میں بڑے بڑے Celebrities سب سے آگے ہیں۔وہ پیوندکاری کی انڈسٹری کو فروغ دے رہے ہیں۔جہاں ایک طرف انھوں نے ، عوام کی معاشی ترقی کو عروج دے کر ، اعضاء کی فروخت کو روکا ہے،وہیں وہ فلاحی طور پر عوام میں یہ شعور اجاگر کر رہے ہیں کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے Living Donor کے طور پر اور موت کے بعد، اپنی موت سے پہلے ہی اپنے اعضاء عطیہ کرکےCadaveric Donor کے طور پر سسکیاں لیتی زندگیاں بچا پائیں۔ ایبولا ایک تلخ حقیقت ہے۔
مگر اس بھی زیادہ تلخ یہ سچائی ہے کہ ہم معاشرتی طور اپنے خونی رشتہ داروں کو خون تک عطیہ نہیں کرتے۔ ہمارے ڈاکٹر اگر باہر سے تعلیم حاصل کرکے اس ملک میں گردوں، جگر اور دیگر اعضاء کی پیوندکاری کو فروغ دینے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں، تو بجائے ان کی مدد کے کبھی معاشرتی رویے،کبھی طرح طرح کے انتہا پسند رویے اور کبھی حکومتی بے حسی ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔میری اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ ہماری قوم کے مفت گردے صاف کروانے کی بجائے، گردوں کی پیوندکاری کے چند یونٹ بنا کر ان غریبوں کو دے دیے جائیں تو یہ ان پر اس احسان سے بہت بڑھ کر ہوگا جو انھیں روزانہ سرکار سے ذلت کی مد میں نزلے،کھانسی کی مفت ادویہ فراہم کرکے ان پر کیا جاتا ہے۔جنوبی پنجاب میں گردوں کی پیوند کاری کے ایسے کئی یونٹ عالی شان عمارات بنانے کے باوجود ،ان مفتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔آئیں ہم اقوامِ عالم سے سبق سیکھیں، وہ پوری دنیا میں رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر ایک وائرس کے پھیلنے سے اس لیے خوفزدہ ہیں کہ اس سے انسان مر سکتے ہیں، اور ہم روزانہ کی بنیادوں پر کئی انسانوں کو اپنے سامنے سسکتا مرتے دیکھ رہے ہیں۔