تخلیقی زاویے
دل ودماغ میں مدینے کی گلیاں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک اور زیارت کا شوق بس گیا ہے۔
ISLAMABAD:
گزشتہ ہفتے میرے مطالعے میں کئی کتابیں رہیں، جن میں سب سے زیادہ اہم کتاب ''ولائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' ہے اس مجموعے میں تریسٹھ (63)نعتیں شامل ہیں جو شاعر کی رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت اور دلی محبت کی عکاس ہیں نعتیہ مجموعہ ولائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تخلیق کار یوسف راہی چاٹگامی ہیں اس کتاب سے قبل یوسف راہی کا غزلوں کا مجموعہ ''اشک سوزاں'' کے نام سے شایع ہوچکا ہے، اس کے علاوہ حالات حاضرہ کے حوالے سے ماہنامہ ''زاویہ نگاہ'' کے ایڈیٹر بھی ہیں، زاویہ نگاہ ایک قابل مطالعہ پرچہ ہے سیاسی و معاشرتی اور عالمی مسائل کی نشاندہی مضامین و رپورتاژ کی شکل میں کی گئی ہے۔ ''دنیا پر امریکی قوانین کا نفاذ''، ''مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ''، ''ہانگ کانگ بھی دھرنوں کی زد میں'' جیسے مضامین تلخ حقائق اور غیر منصفانہ رویے کو طشت از بام کرتے ہیں۔
مذکورہ مجموعے ولائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد باری تعالیٰ اور نعتیں ایک سچے مسلمان کے دل کو حرارت ایمان سے گرماتی ہیں ، تازہ کرتی ہیں اور دل کو راحت بخشتی ہیں۔ دیکھیے ان اشعار میں مدینے کی محبت کا ذکر نظر آتا ہے جس انسان کو اللہ اور رسول پاک ﷺ سے بے پناہ محبت ہوجائے پھر اسے دنیا حقیر نظر آنے لگتی ہے۔ یوسف راہی کی شاعری ایسی ہی کیفیت سے آراستہ ہے:
میں ان سے کرم کی نظر چاہتا ہوں
مدینے میں رہنے کو گھر چاہتا ہوں
بہت ہیں مجھے کوئے طیبہ کے ذرے
غلط ہے کہ لعل و گہر چاہتا ہوں
مدینہ جانے کی آرزو نے شاعر کو بے کل کیا ہوا ہے، دل ودماغ میں مدینے کی گلیاں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک اور زیارت کا شوق بس گیا ہے، تصور میں گنبد خضرا اور مسجد نبویؐ نظر آرہا ہے مدینے کی محبت سے سرشار ہوکر یوسف راہی نے دلکش نعتیں لکھی ہیں۔
گل طیبہ کی خوشبو آرہی ہے
مدینے کی طلب تڑپا رہی ہے
جب اچانک گنبد خضرا نظر آنے لگا
دل بھری دنیا سے بے پرواہ نظر آنے لگا
آگیا جب بھی مدینے کا خیال
کیا بتاؤں میں' مجھے کیا کیا نظر آنے لگا
نعت گوئی اور نعت خوانی یقینا اچھا عمل ہے اللہ قبول کرلے تو یقینا بات بن جاتی ہے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ رسول پاک ﷺ کی سنت پر عمل کرنا گویا اللہ اور اس کے حبیب پاک ﷺ کی اطاعت اور محبت ہے۔پچھلے دنوں منتخب افسانوں کے دو مجموعے ''ہم عصر اردو افسانہ'' اور ہم عصر خواتین افسانہ نگار منظر عام پر آئے اول الذکر کے مرتبین جناب اے خیام اور زاہد رشید صاحب ہیں، ثانی الذکر کا انتخاب فرزانہ احمد کا ہے جو افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ بھی ہے۔
اے خیام صاحب جوکہ معروف افسانہ نگار ہیں انھوں نے ہم عصر اردو افسانے میں پچاس نمایندہ افسانے شامل کیے ہیں، یقیناً یہ افسانے اردو ادب میں اپنا ایک علیحدہ مقام رکھتے ہیں کتاب میں شامل ہر افسانہ اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب 555 صفحات پر مشتمل ہے۔ اے خیام صاحب اور زاہد راشد نے نہایت محنت اور لگن کے ساتھ مجموعے کو ترتیب دیا ہے۔ پاکستان، ہندوستان، جرمنی، امریکا، نیویارک، دہلی، ممبئی، حیدرآباد دکن کے افسانہ نگاروں کے افسانے شامل اشاعت ہیں۔
اسی طرح کتاب ''ہم عصر خواتین افسانہ نگار '' میں بھی سینئر و جونیئر لکھنے والوں کی کہکشاں نظر آرہی ہے، دونوں کتابیں ظفر اکیڈمی نے شایع کی ہیں۔ممتاز افسانہ نگار شہناز پروین کی کتاب ''اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار /نگار پاکستان'' اشاعت کے مراحل سے گزر چکی ہے یہ کتاب شہناز پروین صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے، جسے انھوں نے بے حد محنت اور توجہ کے ساتھ لکھا ہے، کسی بھی موضوع پر لکھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ گویا لوہے کے چنے چبانا پڑتے ہیں اور جب معاملہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ہو تب ذہنی مصروفیات کے ساتھ جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے، بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے اور مختلف لائبریریوں سے استفادہ کیے بغیر کام نہیں بنتا ہے۔اپنے مضمون حرف آغاز میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ میں نے استادالاساتذہ محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے بالمشافہ گفتگو کی تو انھوں نے اس بات کی وضاحت کردی کہ نگار کے شماروں کو تلاش کرنا اتنا آسان نہیں ہے، میں نے ان کی ذاتی لائبریری کے حوالے سے گفتگو کا سلسلہ دراز کرنے کی کوشش کی تو کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انھوں نے فرمایا ''پہلے کراچی کی لائبریریوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرو اگر دو چار مقالے نہ ملیں تو مجھے بتانا''لہٰذا نگار کے شماروں کی تلاش نے مجھے کنوئیں جھنکوا دیے۔
پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی مصنفہ کے کام کے نگران تھے جنھوں نے اپنی محققانہ بصیرتوں سے فیضیاب کیا۔ اس کتاب کی اشاعت کا سہرا ادارہ یادگار غالب کے سر بندھتا ہے ضخامت 510 صفحات پر ہے اور علامہ اقبال اور ماہنامہ نگار کے حوالے سے کتاب چھ ابواب پر تقسیم کی گئی ہے۔ باب پنجم کے ذریعے مسجد قرطبہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ جولائی 1994 نگار پاکستان میں مولانا ابوالحسن ندوی صاحب کا مقالہ بعنوان ''مسجد قرطبہ'' شایع ہوا تھا۔ شہناز پروین لکھتی ہیں کہ اقبال کی اس نظم کا کینوس بہت وسیع ہے اس نظم میں اقبال کے نظریہ حیات و کائنات، فلسفہ تاریخ، نظریہ خودی عشق، مرد مومن اور نظریہ فنون لطیفہ اور دوسرے بہت سے نظریات واضح طور پر سامنے آئے ہیں، یقینا اس کتاب کو عرق ریزی کے ساتھ لکھا گیا کہ اس کا موضوع ایسی ہی محنت کا مستحق تھا۔ اقبال کے شیدایوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔
بھلا سلطان جمیل نسیم صاحب کے نام اور کام سے کون واقف نہیں ہے۔ جہاں اردو بولی اور لکھی جاتی ہے وہاں جناب سلطان جمیل کا نام تعارف کا محتاج نہیں ہے کہ ہوا خود بہار کی ہے والا معاملہ ہے ۔ وہ 6 کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا نام بڑے افسانہ نگاروں میں شامل ہوتا ہے۔ سماجی و معاشرتی ناہمواریوں کو افسانے کی شکل دینے میں انھیں خاصی مہارت حاصل ہے، جس محفل میں افسانہ سناتے ہیں، خوب واہ واہ ہوتی ہے، زیر نظر افسانوں کا مجموعہ ''ایک ہی مٹی کے لوگ'' مجھے حال ہی میں موصول ہوا ہے۔ 200 صفحوں کی کتاب میں کل 14 افسانے شامل ہیں۔ زندگی کی تلخیوں اور سچائیوں کو انھوں نے بے حد موثر، آسان اور سلیس الفاظ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ کہانی قاری کا ساتھ اس وقت تک نہیں چھوڑتی ہے جب تک کہ اختتام کو نہ پہنچے ان افسانوں میں ایک سحر ہے جس میں پڑھنے والا گم ہوجاتا ہے۔ اور جب اس طلسم کدہ سے نکلتا ہے تو ہفتوں اور مہینوں، تڑپتے سسکتے، انصاف مانگتے، معاشرے میں بھٹکتے اور پیروں تلے روندے ہوئے کردار دل و دماغ پر سوار رہتے ہیں قاری کے دل و دماغ میں سوچنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں، ناانصافی پر دل کڑھتا ہے اور مظلوموں سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا آخر ہمارے معاشرے میں اس قدر ظلم و جبر کیوں ہے؟ کوئی مداوا کرنیوالا اور دکھ بانٹنے والا کیوں نہیں وجود میں آتا ہے۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ تخلیق کار خواہ وہ شاعر ہو یا ادیب ہو، اپنے زمانے کی تاریخ رقم کر رہا ہوتا ہے نئی نسلوں کے لیے تاریخ کا خزانہ چھوڑ جاتا ہے، جسے پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس کس نے کس انداز میں محرومیاں سمیٹی ہیں اور کس طرح شکست کے غار میں دھکیلا گیا ہے، تعصب اور نفرت کے بیج کس نے بوئے اور زہریلی فصل کاٹنا کس کا مقدر بنا ہے۔ قانون کی دھجیاں قانون کے محافظوں نے خود تار تار کردیں اور زنجیر انصاف کو مختلف کڑیوں میں تبدیل کرکے سمندر میں غرق کردیا اور پھر ان حالات نے ناہموار سماج کو جنم دیا۔ جی ہاں مصنف کی تحریریں ایسے ہی حالات و واقعات کی عکاس ہیں۔ ایسا ہی ایک افسانہ زندوں کا نوحہ ہے، بے شک نوحے تو تخلیق ہی ان ہی لوگوںکے لیے کیے جاتے ہیں جو ایک ہی دھرتی پر رہتے ہوئے کبھی جیتے جی مر جاتے ہیں اور کبھی مر کر زندہ رہتے ہیں۔
جناب انور احمد علوی کی کتاب ''نامعلوم افراد'' میں مزاحیہ شخصی خاکے اور تجزیے شامل ہیں، مصنف طنز و مزاح لکھنے میں کمال رکھتے ہیں، ان کی چار کتابیں بعنوان، جملہ حقوق محفوظ، مس گائیڈ، سود کے تعاقب میں اور غالب کا دستر خوان، ناقدین و قارئین سے نہ کہ تعریفی و توصیفی اسناد وصول کرچکی ہیں بلکہ پڑھنے والوں کا خون بڑھانے کا بھی سبب بنی ہیں اس بات سے سب واقف ہیں کہ ہنسی اور خوشی انسان کو صحت مند رکھتی ہے، ماہرین طب کی بھی یہی رائے ہے مذکورہ کتاب بھی ہنسنے مسکرانے کے بہترین مواقع فراہم کرتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ مطالعہ ضرور کیا جائے، کتاب ''رنگ ادب'' سے شایع ہوئی ہے، ہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ''نامعلوم افراد'' نامی فلم بعد میں آئی ہے اور کتاب پہلے اس آب و گل کے منظر نامے پر جلوہ افروز ہوئی ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نام کا چربہ مصنف نے نہیں، بلکہ فلمساز کا حسن انتخاب ہے جس طرح کتاب کی پذیرائی کی گئی، بالکل اسی طرح فلم کو بھی بے حد پسند کیا جا رہا ہے اس کی وجہ کہ نامعلوم افراد نہ جانے کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک معمہ ہے جسے سلجھانا ناممکنات میں سے ہے۔