وہی عالم ہے‘ جو تم دیکھتے ہو
چلو جہاں اور بہت کچھ ہمارے ’’پاکستان‘‘ میں ہو رہا ہے یہ بھی ہوگیا کہ نابیناؤں پر پولیس لاٹھی چارج ہوا۔
3 دسمبر2014 معذوروں کا عالمی دن تھا۔ لاہور کے نابینا افراد پریس کلب کے باہر جمع تھے ان کے ایک ہاتھ میں بینر اور دوسرے ہاتھ میں سفید چھڑی تھی۔ وہ اپنے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے۔ انھوں نے پریس کلب سے ''خادم اعلیٰ ہاؤس'' جانا تھا۔ ہمارے حکمران حسب روایت ''بے خبر'' تھے، مگر پنجاب پولیس مکمل ''باخبر'' تھی اور نابیناؤں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ''ضروری سازو سامان'' سے لیس پریس کلب کے باہر موجود تھی۔ نابینا مظاہرین نے کچھ دیر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی، دو تین تقریریں کیں اور پھر وہ ''خادم اعلیٰ'' سے ملنے ان کے ''گھر'' کی طرف روانہ ہوگئے۔
مظاہرین ڈیوس روڈ کی طرف بڑھے تو ہمارے بے چارے پولیس والوں نے انھیں دوسری سڑک پر ڈال دیا وہ ادھر چلنے لگے چند قدم چلنے کے بعد پولیس نے پھر انھیں ڈیوس روڈ کی طرف موڑ دیا۔ ''آنکھوں والے'' بینائی سے محروم لوگوں کو جدھر جدھر موڑ رہے تھے وہ ادھر ادھر مڑ رہے تھے کہ اچانک پولیس والے اندھے ہوگئے اور انھوں نے اندھے مظاہرین کو اپنی مضبوط لاٹھیوں سے پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ دنیا بھر میں احترام سے دیکھی جانیوالی ''سفید چھڑیاں'' ٹوٹ گئیں، مظاہرین سڑک پر گر رہے تھے، زخمی ہو رہے تھے۔ پولیس کے ہاتھوں میں ان کے گریبان تھے، ان کے کپڑے پھٹ رہے تھے۔
یہ سب کچھ خادم اعلیٰ کے گھر سے دو تین کلومیٹر دور ہو رہا تھا، مگر خادم اعلیٰ ''بے خبر'' تھا۔ انھیں جب خبر ہوئی تو بہت کچھ ہوچکا تھا۔ خادم اعلیٰ کا نمایندہ زعیم قادری فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا۔ مظاہرین سے ملا۔ انھیں بتایا کہ خادم اعلیٰ نے آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداران یعنی دو اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور تین کانسٹیبل کو فوری طور پر معطل کردیا ہے۔
چلو جہاں اور بہت کچھ ہمارے ''پاکستان'' میں ہو رہا ہے یہ بھی ہوگیا کہ نابیناؤں پر پولیس لاٹھی چارج ہوا۔ وہ سڑک پر گرے، زخمی ہوئے ان کے کپڑے پھٹے۔ مجھے 1983 یاد آگیا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ جنرل ضیا حکمران تھا۔ عورتوں کی آدھی گواہی کے خلاف عاصمہ جہانگیر دیگر خواتین کے ساتھ ریگل چوک مال روڈ پر جلوس لیے ہائی کورٹ کی طرف رواں دواں تھیں کہ پولیس نے روک لیا۔ خواتین سڑک پر بیٹھ گئیں، جالب صاحب نے نظمیں پڑھیں، پولیس نے اس انتہائی گستاخی پر لاٹھی چارج کردیا، جالب صاحب نے اس موقعے پر لکھا تھا:
بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گالی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
تو جناب نابینا مظاہرین لاٹھیاں ہی نہیں گالیاں بھی کھا رہے ہوں گے۔ ''اے وطن میرے وطن تجھ کو بتا کیا ہوگیا'' کیسے کیسے تماشے ہو رہے ہیں۔ تمام سیاستدان ''ذات'' کا غم اٹھائے پھر رہے ہیں، عوام کس حال میں ہیں اس بات کا کسی سیاستدان کو غم نہیں ہے۔ سیاستدان ذاتی اناؤں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو جاری ہے۔ الفاظ کی جنگ ہے اور عوام بغیر علاج بغیر دوا کے مر رہے ہیں، بچے گلیوں میں رل رہے ہیں، گدھے، گھوڑے، کتے اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں کروڑوں روپے جلسوں جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں۔
طاہر القادری ہی کیا جو سیاستدان ''بیمار'' ہوتا ہے وہ امریکا، برطانیہ علاج کے لیے چلا جاتا ہے۔ یہی جلسوں، جلوسوں اور اپنے علاج معالجے پر خرچ ہونیوالے کروڑوں روپے تھر اور دیگر پسماندہ علاقوں پر خرچ ہو جائیں تو کتنا اچھا ہو۔ لاہور میں نابیناؤں پر پولیس تشدد کے خلاف پورا شہر سراپا احتجاج ہوجاتا۔
جو ہونا چاہیے تھا، مگر نہیں ہوا۔ ایسے تو ہزاروں سانحات ہیں جو ہوئے اور کہیں کچھ نہیں ہوا۔ بس سیاسی دکانداریاں چل رہی ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ کلاشنکوفیں چلتی ہیں خوف کے سایوں میں اسمبلیاں بن جاتی ہیں اور عوام وہیں پڑے رہ جاتے ہیں۔ وہی دن وہی رات، غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے۔ اور ''وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے'' ہر محب وطن ذلیل و خوار ہے اور رات کا فاصلہ طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ نئے شکاری پرانے جال لیے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے زور و شور سے تیاریاں کر رہے ہیں۔ نابیناؤں پر تشدد، ظلم کی انتہا ہے۔ اچھا ہے جو کچھ مزید ہونا ہے وہ بھی ہوجائے۔ ان ہی اندھیروں سے سحر طلوع ہوگی۔ اب میں اپنے کالم میں حبیب جالب کی وہ نظم شامل کر رہا ہوں جو انھوں نے 21 جون 1958 کو لاہور میں نابیناؤں کی امدادی انجمن کے مشاعرے میں پڑھی تھی، نظم ملاحظہ فرمائیں، عنوان ہے
ہم دیکھتے ہیں
وہی عالم ہے جو تم دیکھتے ہو
نہیں کچھ مختلف عالم ہمارا
جلائے ہم نے پلکوں پر دیے بھی
نہ چمکا پھر بھی قسمت کا ستارا
وہی ہے وقت کا بے نور دھارا
وہی سر پر مسلط ہے شب غم
اندھیرے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں
نہیں ملتی خوشی کی اک کرن بھی
مہ و خورشید گہنائے ہوئے ہیں
یہ کس بستی میں ہم آئے ہوئے ہیں
شکایت ہے تمہیں آنکھوں سے اپنی
یہاں آنکھیں کہاں روشن رفیقو
کلی کی آنکھ نم' روتی ہے شبنم
سلگتے ہیں گلوں کے تن رفیقو
نظر آتے ہیں گلشن بن رفیقو
جنھیں ہم شعر میں کہتے ہیں جادو
ان آنکھوں کو یہاں نم دیکھتے ہیں
لبوں پر آہ اور زلفیں پریشاں
غزل کو وقف ماتم دیکھتے ہیں
ستم کیا کم ہے یہ ہم دیکھتے ہیں
مظاہرین ڈیوس روڈ کی طرف بڑھے تو ہمارے بے چارے پولیس والوں نے انھیں دوسری سڑک پر ڈال دیا وہ ادھر چلنے لگے چند قدم چلنے کے بعد پولیس نے پھر انھیں ڈیوس روڈ کی طرف موڑ دیا۔ ''آنکھوں والے'' بینائی سے محروم لوگوں کو جدھر جدھر موڑ رہے تھے وہ ادھر ادھر مڑ رہے تھے کہ اچانک پولیس والے اندھے ہوگئے اور انھوں نے اندھے مظاہرین کو اپنی مضبوط لاٹھیوں سے پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ دنیا بھر میں احترام سے دیکھی جانیوالی ''سفید چھڑیاں'' ٹوٹ گئیں، مظاہرین سڑک پر گر رہے تھے، زخمی ہو رہے تھے۔ پولیس کے ہاتھوں میں ان کے گریبان تھے، ان کے کپڑے پھٹ رہے تھے۔
یہ سب کچھ خادم اعلیٰ کے گھر سے دو تین کلومیٹر دور ہو رہا تھا، مگر خادم اعلیٰ ''بے خبر'' تھا۔ انھیں جب خبر ہوئی تو بہت کچھ ہوچکا تھا۔ خادم اعلیٰ کا نمایندہ زعیم قادری فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا۔ مظاہرین سے ملا۔ انھیں بتایا کہ خادم اعلیٰ نے آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداران یعنی دو اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور تین کانسٹیبل کو فوری طور پر معطل کردیا ہے۔
چلو جہاں اور بہت کچھ ہمارے ''پاکستان'' میں ہو رہا ہے یہ بھی ہوگیا کہ نابیناؤں پر پولیس لاٹھی چارج ہوا۔ وہ سڑک پر گرے، زخمی ہوئے ان کے کپڑے پھٹے۔ مجھے 1983 یاد آگیا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ جنرل ضیا حکمران تھا۔ عورتوں کی آدھی گواہی کے خلاف عاصمہ جہانگیر دیگر خواتین کے ساتھ ریگل چوک مال روڈ پر جلوس لیے ہائی کورٹ کی طرف رواں دواں تھیں کہ پولیس نے روک لیا۔ خواتین سڑک پر بیٹھ گئیں، جالب صاحب نے نظمیں پڑھیں، پولیس نے اس انتہائی گستاخی پر لاٹھی چارج کردیا، جالب صاحب نے اس موقعے پر لکھا تھا:
بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گالی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
تو جناب نابینا مظاہرین لاٹھیاں ہی نہیں گالیاں بھی کھا رہے ہوں گے۔ ''اے وطن میرے وطن تجھ کو بتا کیا ہوگیا'' کیسے کیسے تماشے ہو رہے ہیں۔ تمام سیاستدان ''ذات'' کا غم اٹھائے پھر رہے ہیں، عوام کس حال میں ہیں اس بات کا کسی سیاستدان کو غم نہیں ہے۔ سیاستدان ذاتی اناؤں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو جاری ہے۔ الفاظ کی جنگ ہے اور عوام بغیر علاج بغیر دوا کے مر رہے ہیں، بچے گلیوں میں رل رہے ہیں، گدھے، گھوڑے، کتے اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں کروڑوں روپے جلسوں جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں۔
طاہر القادری ہی کیا جو سیاستدان ''بیمار'' ہوتا ہے وہ امریکا، برطانیہ علاج کے لیے چلا جاتا ہے۔ یہی جلسوں، جلوسوں اور اپنے علاج معالجے پر خرچ ہونیوالے کروڑوں روپے تھر اور دیگر پسماندہ علاقوں پر خرچ ہو جائیں تو کتنا اچھا ہو۔ لاہور میں نابیناؤں پر پولیس تشدد کے خلاف پورا شہر سراپا احتجاج ہوجاتا۔
جو ہونا چاہیے تھا، مگر نہیں ہوا۔ ایسے تو ہزاروں سانحات ہیں جو ہوئے اور کہیں کچھ نہیں ہوا۔ بس سیاسی دکانداریاں چل رہی ہیں۔ الیکشن ہوتے ہیں دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ کلاشنکوفیں چلتی ہیں خوف کے سایوں میں اسمبلیاں بن جاتی ہیں اور عوام وہیں پڑے رہ جاتے ہیں۔ وہی دن وہی رات، غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے۔ اور ''وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے'' ہر محب وطن ذلیل و خوار ہے اور رات کا فاصلہ طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ نئے شکاری پرانے جال لیے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے زور و شور سے تیاریاں کر رہے ہیں۔ نابیناؤں پر تشدد، ظلم کی انتہا ہے۔ اچھا ہے جو کچھ مزید ہونا ہے وہ بھی ہوجائے۔ ان ہی اندھیروں سے سحر طلوع ہوگی۔ اب میں اپنے کالم میں حبیب جالب کی وہ نظم شامل کر رہا ہوں جو انھوں نے 21 جون 1958 کو لاہور میں نابیناؤں کی امدادی انجمن کے مشاعرے میں پڑھی تھی، نظم ملاحظہ فرمائیں، عنوان ہے
ہم دیکھتے ہیں
وہی عالم ہے جو تم دیکھتے ہو
نہیں کچھ مختلف عالم ہمارا
جلائے ہم نے پلکوں پر دیے بھی
نہ چمکا پھر بھی قسمت کا ستارا
وہی ہے وقت کا بے نور دھارا
وہی سر پر مسلط ہے شب غم
اندھیرے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں
نہیں ملتی خوشی کی اک کرن بھی
مہ و خورشید گہنائے ہوئے ہیں
یہ کس بستی میں ہم آئے ہوئے ہیں
شکایت ہے تمہیں آنکھوں سے اپنی
یہاں آنکھیں کہاں روشن رفیقو
کلی کی آنکھ نم' روتی ہے شبنم
سلگتے ہیں گلوں کے تن رفیقو
نظر آتے ہیں گلشن بن رفیقو
جنھیں ہم شعر میں کہتے ہیں جادو
ان آنکھوں کو یہاں نم دیکھتے ہیں
لبوں پر آہ اور زلفیں پریشاں
غزل کو وقف ماتم دیکھتے ہیں
ستم کیا کم ہے یہ ہم دیکھتے ہیں