این ٹی ایس امتحانات ایک دھوکا
محکمہ تعلیم پنجاب میں ’فروغ تعلیم فنڈ‘ کے نام پر بیس رو پے فی طالب علم وصول کیا جا رہا ہے۔
یوں توہمارے ملک میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے لیکن محکمہ تعلیم پنجاب کی غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے شعبہ تعلیم، پسماندگی کا شکار ہوگیا ہے۔ کئی سالوں سے محکمہ تعلیم سمیت دوسرے محکمہ جات میں ریکروٹمنٹ کے لیے این ٹی ایس کا امتحانی طریقہ کار رائج کر رکھا ہے جو بے روزگار نوجوانوں سے داخلوں اورریکروٹنگ پر این ٹی ایس کا امتحان لیتا ہے۔ ایف ایس سی امتحانات کے بعد ہر ڈگری پروگرام میں داخلے کے لیے اس کو لاز می قرار دے رکھا ہے۔
میڈیکل اور انجنئیرنگ میں داخلے کے لیے تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس کے خاتمے کا اعلان کردیا لیکن اس کے باوجود بعض یونیورسٹیاں اس کو نہیں مانتیں لیکن ریکروٹنگ اب بھی جاری ہے، گویا حکمراں طبقے نے این ٹی ایس کے نام پر بے روزگار نوجوانوں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ اربوں روپے بے روزگاروں کی جیبوں سے نکال چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ایچ ڈی نوجوان فیل ہوجاتا ہے اور بی اے پاس کو نوکری مل جا تی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے پروردہ لوگوں کو نوازنے کے لیے ڈراما رچا رکھا ہے۔ اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ملک کی یونیورسیٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا طریقہ کارناقص ہے۔
اس لیے این ٹی ایس لیا جاتا ہے۔این ٹی ایس کی شفافیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ فیصل آباد میں ایجوکیٹر کی بھرتی جعلی این ٹی ایس کے ذریعے کی گئی ۔ ان کے مال بنانے کا انداز ملاحظہ کریں کہ خالی اسامیاں پوری مشتہر نہیں کی جاتی پھر دوبارہ این ٹی ایس امتحانات لیے جاتے ہیں۔ جس کی فیسیں ہر طالب علم کو اسکیل چار،چودہ اور سولہ کے لیے الگ الگ اور ہر اسکیل کی الگ الگ کتب ملتی ہیں۔ اب تو اس کاروبار کے ساتھ اکیڈمیز وجود میں آ چکی ہیں۔ مجموعی طور پر تقریبا ہر نوجوان پانچ سے سات ہزار رو پے خرچ کرتا ہے جو کہ پنجاب بھر میں تقریبا پانچ چھ ارب روپے بنتا ہے۔
محکمہ تعلیم پنجاب میں 'فروغ تعلیم فنڈ' کے نام پر بیس رو پے فی طالب علم وصول کیا جا رہا ہے۔ جو کہ پنجاب بھر میں ایک ارب سے زا ئد روپے بنتے ہیں۔ اس سے تعلیمی اداروں کی مرمت، سربراہوں کو اسکول کونسلوں کے ذریعہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ان کونسلوں کے ارکان کو سربراہ ادارہ چننا ہے اور اس کا سربراہ بھی خود ہوتا ہے۔ من پسند لوگوں کو اس میں رکھا جاتا ہے جو صرف دستخط کر دیں۔ اس میں بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ سربراہوں کے وارے نیارے ہوگئے۔ اس فنڈ کی خورد برد پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں کسی ادارے کی اسکول کونسل فعال نہیں، فرضی کارروائی کر کے دستخط لیے جاتے ہیں۔ پہلے یہ رضاکارانہ فنڈ تھا اب محکمہ تعلیم کے افسران نے اس کو لازمی قرار دے رکھا ہے۔ غریبوں کے بچے بھی اس سے مبرا نہیں، بھٹوں پر کام کر نے والے مزدوروں کے بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔محکمہ تعلیم نے سربراہوں کو ٹھیکیدار بنا دیا ہے۔ جو خود بھی کمیشن لیتے ہیں اور افسران کے لیے بھی کمیشن دیتے ہیں۔ جب کہ فیصل آ باد میں اسی لاکھ روپے کے لگ بھگ بدعنوانی پر افسران معطل ہوئے جس کی تحقیقات جاری ہے۔
یہ کام محکمے کو کرنے چاہیے تا کہ سربراہان اپنے تدریسی فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔ محکمہ تعلیم پنجاب میں پرائمری اور مڈل امتحانات کے لیے ایک پنجاب ایگزیمینیشن اتھارٹی بنا رکھی ہے جس میں محکمہ تعلیم ہی کی نوکر شاہی کو عہدے دے رکھے ہیں، جسکی کارکردگی اکثر اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ اب اس کو ای ڈی او حضرات کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ جو کہ بیرونی امداد میں کمی کی وجہ سے شاید کیا ہو۔ پرائمری اور مڈل کے امتحانات کو پی ایچ ڈی کے امتحانات بنا دیا گیا ہے۔
یہ امتحانات ہر ہائی اسکول کا سربراہ اپنے فنڈنگ اسکولز سے کروا سکتا ہے۔ ایک طرف ہم ڈراپ آؤٹ کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف خود ہی اس کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں اے ای پی، ڈی ای او،ای ڈی او افسران کے علاوہ فوج کے مانیٹرنگ آفیسر تعینات کر رکھے ہیں جو اسکیل نمبر نو کے ملازم ہوتے ہیں اور یہ محکمہ تعلیم کے گریڈ 18 اور 19 کو چیک کرتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان استدعا کی جانی چاہیے کہ وہ بے روزگاروں کے استحصال کے خاتمے کے لیے ازخود نوٹس لیں اور این ٹی ایس امتحانی طریقہ کار پر نظر ثانی کروائیں۔ نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے جو کہ ملکی ترقی کے لیے تباہ کن ہوگا۔واحد سینیٹر فتح محمد حسنی نے این ٹی ایس کے خلاف آواز بلند کی ہے جو کہ قابل ستائش ہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزیر اعظم کو خط تحریر کیا ہے،اب دیکھنا ہے کہ آگے ہوتا کیا ہے؟اسی قسم کی بدعنوانی کا واقعہ شادی ہال فیروز پور روڈ لاہور کا ہے ۔
یہ ایک منصوبہ 1296فلیٹس کا2012ء میں مکمل کیا گیا ، محکمہ لیبر ویلفئر نے فلیٹس کی الاٹمنٹ کے لیے اپریل2012ء میں درخواستیں طلب کیں، ان کی شرائط کے مطابق کہ جو ادارے شاپس اینڈ اسٹبلشمنٹ کے تحت اور فیکٹری ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ان کے مزدور درخواست دینے کے اہل ہیں۔غلام عباس جو کہ شادی ہال میں مزدوری کرتا ہے نے بھی شاپس ایکٹ کے تحت ایک درخواست محکمہ لیبر میں جمع کروائی،قرعہ اندازی میں اس کا بھی ایک عدد فلیٹ نکل آیا جس کا الاٹمنٹ لیٹر محکمہ لیبر ویلفئیر نے تمام شرائط پو ری کرنے کے بعد25-4-12 کو اس کے نام جاری کیا جو اس کے پاس موجود ہے۔ حکام نے فلیٹ نمبر4 بلاک نمبر149بنام غلام عباس ولد خادم حسین اس کے نام کر دیا۔ جولائی2013ء میں محکمہ والوں نے تمام فلیٹس کا قبضہ دینا شروع کیا تو غلام عباس بھی قبضہ لینے کے لیے پہنچ گیا مگر محکمہ والوں نے جواب دیا کہ جو مزدور شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ان کو قبضہ نہیں دیا جائے گا۔10-07-13کو غلام عباس نے ایک تحریری درخواست ڈسٹرکٹ آفیسر لیبر، مسلم ٹاؤن لاہور کو موصول کروائی کہ اسے اس کے فلیٹ کا قبضہ دیا جائے۔ ڈسٹرکٹ لیبر آفیسر نے جواب دیا کہ شاپس ایکٹ کے خلاف ایک رٹ ہا ئی کورٹ لا ہور میں دائر ہوئی ہے اور یہ کیس لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کو ارسال کر دیا ہے کہ اس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ آ ف پا کستان کرے گی ۔
ایک لیٹر کی کاپی غلام عباس کو بھی دی کہ یہ اسے ہیڈ آفس کی طرف سے موصول ہوئی ہے کہ 'جب تک اس کا فیصلہ نہیں آتا ہم آپ کو فلیٹ کا قبضہ نہیں دے سکتے 'اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رٹ19-08-2011 کو لا ہور ہائی کورٹ میں دائر ہوئی جب کہ محکمہ ویلفیئر نے اس سے درخواستیں اپریل2012ء میں وصول کیں اور الاٹمنٹ لیٹرز بھی جا ری کر دیے۔ کیا محکمہ اتنا نا اہل ہے کہ الاٹمنٹ کے بعد اس کے علم میں آ یا؟ کیا شاپس ایکٹ کے تحت ایک مزدور پاکستان کا شہری نہیں ہے یا وہ اس معاشرے کے محنت کش نہیں ہے۔ کیا اس کے کچھ حقوق نہیں ہیں۔ شادی ہالز، ہوٹلز، شاپس پر کام کرنے والے مزدور نہیں تو اور کیا ہیں؟ اس کی سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی فیس باقا عدگی سے جس طرح فیکٹری ایکٹ کے تحت محکموں کو جاتی ہے اس کی بھی اسی طرح باقاعدگی سے ہر ماہ جاتی ہے۔ لہذا اس کا حق ہے۔ کم از کم 30 متاثرین انصاف کے منتظر ہیں ۔
یہ ہیں ریاست کی کارستانی ۔ریاست کبھی بھی حق داروں اور مزدوروں کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتی اور ہمیں اس سے ایسی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔