ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

آج کون آباد ہے عاد و ثمود کے محلات میں؟ فرعون کے محلات و اہرام مصر کسی قدر ویران و سنسان پڑے ہیں۔


[email protected]

روز اول سے انسانی فطرت کا مطالعہ کیجیے اور انسان کی دس ہزار سالہ معلوم تاریخ کو بھی سامنے رکھیے، سورۂ تکاثر کس قدر انسانی فطرت اور معلوم تاریخ کی ترجمانی اور عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ انسان کی تمام تر تگ و دو اور جد وجہد زن، زر اور زمین کے حصول کی خاطر صرف ہوتی نظر آئیںگی۔ کائنات کا پہلا قتل ہی قابیل نے زن کی خاطر ہابیل کو مار کر کیا، پھر زر اور زمین کی ہوس نے انسان میں کشت و خون، جنگ و جدال اور قتل و غارت گری اور فتوحات نے ایک عظیم تاریخ رقم کی، ایک قوم دوسری قوم پر شب خون مارتی رہی، انسانیت کا استحصال ہوتا رہا۔

لوگ آتے رہے جاتے رہے، قومیں بنتی رہیں، بگڑتی رہیں، کبھی زمین کی خلافت و بادشاہی کسی قوم کا مقدر بنی تو کبھی چند صدیوں بعد پھر اسی زمین پر کوئی دوسری نئی قوم آباد ہوئی اور پھر ان کے جانے کے بعد کسی اور نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ جب کہ ہمیشہ انسان یہی سمجھتا رہا کہ یہ آسائش زندگی، زن زر، زمین تاقیامت ہمارا مقدر رہے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چند سال بعد دائمی زندگی کی خوش فہمی میں رہنے والے پیوند خاک بن گئے اور مستقبل حقیقی یعنی سفر آخرت ہی ان کا مقدر ٹھہرا، ہمارا یہ وطن عزیز اور یہ عروس البلاد کراچی جس میں آج صوبائی عصبیت، لسانی عصبیت، مذہبی عصبیت اور زر و زمین کے حصول کی خاطر نفرت و عداوت اور آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔

ماضیٔ بعید میں اس سرزمین پر بھی مختلف اقوام کا راج رہا ہے جب ہم یہاں نہیں تھے، ہم تو عدم سے وجود میں بھی نہیں آئے تھے لیکن وہ اقوام بھی اپنے اپنے ادوار اور دورانیے مکمل کرگئے اس جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کرتی رہیں۔ آج ان کا یہاں نام و نشان تک موجود نہیں ہے، کل یہی سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوگا اور ہماری جگہ کوئی دوسری قوم لے لے گی، آج نہیں ایک صدی، دو صدی، تین صدی بعد ہی ٹھیک لیکن ہے تو یہ ایک ابدی حقیقت!

ہیں دفن مجھ میں میری کتنی رونقیں مت پوچھ

اْجڑ اْجڑ کر جو بستا رہا وہ شہر ہوں میں

اس حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں ہے؟ اور ہم اپنے ہمراہ کیا لے کر جائیں۔ گزشتہ و سابقہ دیگر اقوام کی طرح صرف اپنے اعمال و اپنا کردار ... جو ہم نے اس زمین پر ادا کیا ہوگا، باقی اور کچھ نہیں، یہ زر اور زمین یہیں رہ جائے گا۔ آج کون آباد ہے عاد و ثمود کے محلات میں؟ فرعون کے محلات و اہرام مصر کسی قدر ویران و سنسان پڑے ہیں؟ کبھی موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا بھی آباد ہوا کرتا تھا۔ کہاں گئیں وہ اقوام؟ کیا حشر ہوا ان کا؟ کیا آج ان کا کوئی نام لیوا بھی ہے؟ دیوار چین بنانے والے چلے گئے لیکن اپنی نشانی چھوڑ گئے، قدیم یونان و روم کے آثار قدیمہ اس دور کی اقوام اور ان کی علمی و فنی ترقی و عظمت کا منہ بولتا شاہکار ہیں لیکن وہ لوگ آج خود کہاں ہیں؟ سکندر اعظم جو فاتح اعظم کہلاتا ہے، پوری دنیا فتح کرنے نکلا، آج کسی کو اس کی قبر کا نشان تک معلوم نہیں کہ کہاں دفن ہے۔

دیار غیر میں بیمار ہوا اور پھر اس کی فوج نے اسے وہیں دفن کردیا اور خود واپس یونان آگئی، ہلاکو و چنگیز نے ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کی، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی، انسانی کھوپڑیوں کے مینار بناڈالے، لیکن آج خود وہ کہاں ہیں؟ کیا ہوا ان کا حشر، آج منگول قوم کا دنیا میں کیا مقام ہے؟ ہٹلر کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا، اس کو خود اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرنی پڑی! کہاں گئے جنگ عظیم اول و دوم کے ہیرو ہٹلر، اسٹالن، نپولین وغیرہ وغیرہ سب دنیا کو آگ و خون میں نہلاکر بالآخر خود بھی پیوند خاک اور لقمہ اجل بن گئے، آج باقی ہے تو صرف ان کا کردار ... چاہے وہ شیطانی تھا، رحمانی یا انسانی ... باقی تاریخ رہ گئی سب مٹ گیا اور ہر تنفس نے بالآخر مٹنا ہی ہے۔ ''کل نفس ذائقۃ الموت'' اور ہم اﷲ کی طرف سے بھیجے گئے اور ہمیں بالآخر اﷲ کی طرف واپس پلٹ کر جانا ہے۔

یہ دنیا کے فائدے و تو محض ایک مدت تک کے فائدے ہیں اس دنیا کی زندگی کا دورانیہ آج کے عہد جدید میں کسی تنفس پر 60 برس میں مکمل ہوجاتا ہے تو کوئی اسی برس زندہ رہتا ہے، کوئی نوجوانی و جوانی ہی میں چلا جاتا ہے تو کوئی بچپن میں ہی بن کھلی کلی کی مانند مرجھا جاتا ہے لیکن ہر ایک کا اختتام بالآخر موت اور فناہی ہے۔ ''اﷲ باقی من کل فانی'' اب یہ ابن آدم پر منحصر ہے کہ وہ عدم سے وجود اور پھر وجود سے عدم کے اس دوانیے میں کیا اعمال انجام دیتا ہے، کیسا کردار ادا کرتا ہے، کیا تیر مارتا ہے، شیطانی و طاغوتی قوتوں کا آلۂ کار بن کر رہتا ہے۔ یا اﷲ کا ایک عاجز اور فرمانبردار خلیفہ بن کر اپنا حق پیدائش ادا کرتا ہے۔ کیوں کہ ''بات ایک تغیر کو ہے فقط زمانے میں'' چنانچہ سورۃ العصر میں اﷲ فرماتا ہے کہ ''زمانے کی قسم کہ انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے''

تاریخ گواہ ہے اور قرآن بھی شاہد ہے کہ ہم سے پہلے کی اقوام ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور زور آور تھیں۔ ان کے فاتح، جنگجو اور سیاست دان ہم سے کہیں زیادہ بہادر، طاقت ور اور ذہین و فطین تھے، جن کے سامنے ہمارے عہد حاضر کے یہ نام نہاد فاتح، جنگجو اور سیاسی جوکر اور مسخرے طفل کتب نظر آتے ہیں جب انھوں نے بھی ظلم سے کام لیا اور اﷲ کی نا۔ فرمانی کی تو تب اﷲ کے عذاب نے انھیں بھی آلیا اور وہ تباہ و برباد ہوگئے۔

جب کہ ان کے سامنے ہمارے ان کٹھ پتلی حکمرانوں کی مثال تو ''کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ'' کی مانند ہے ان کی سیاسی چال بازیاں، مکر و فریب و دجل، سازشیں، شورشیں اور ریشہ دوانیاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں، گویا ایک اسٹیج ڈراما ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سیاسی اداکاروں کے ساتھ ساتھ ہمارے عوام (سیاسی تماش بین) بھی ان ڈراموں اور کرداروں سے نہیں اکتاتے، بلکہ ان سیاسی مرغوں کی لڑائیوں سے دن بہ دن مزید لطف اندوز ہوتے معلوم ہوتے ہیں، ویسے بھی ہمارے حکمران نہ ہی تو آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور نہ ہی اﷲ کی جانب سے ہم پر جبراً مسلط کیے جاتے ہیں۔ ہم تو خود ہی بہ رضا و رغبت انھیں منتخب کرتے ہیں اور پھر ان کو روتے ہیں، کتنے سادے ہیں ہم لوگ ... وطن عزیز کے باسیوں کی یہ سادگی اپنے قیام کے 67 برس بعد بھی عقل مندی میں نہ بدل سکی جو وطن اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس کا نظام 67 برس بعد بھی اسلامی نہ ہوسکا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں