پی سی بی میں ’’بوڑھوں‘‘ کی جگہ نیا خون لائیں گے شہریار خان

پہلے دور میں تن تنہا فیصلے کرتا تھا اب گورننگ بورڈ کی مشاورت سے چلتا ہوں، شہریار خان


Saleem Khaliq December 07, 2014
ایکسپریس کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو : فائل

ماضی کے کہنہ مشق سفارت کار شہریار خان بطور پی سی بی چیئرمین دوسری اننگز کھیل رہے ہیں، پہلے کے مقابلے میں اس بار حالات ان کے لیے اتنے سازگار نہیں، اب ان کے پاس زیادہ اختیارات نہیں جبکہ گورننگ بورڈ میں مضبوط اپوزیشن بھی ملتی ہے،پہلے دور میں شہریارخان کو دیرینہ دوست عباس زیدی کا ساتھ حاصل تھا جو میڈیا سمیت کئی محاذوں پر ان کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے تھے۔

اب وہ انتقال کر چکے، البتہ ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی کی صورت میں ایک انتہائی قابل اورمخلص ساتھی ملا ہے، انہی کے ساتھ گزشتہ دنوں شہریارخان جب کراچی آئے تو راقم کو مقامی ہوٹل میں ملاقات کے لیے مدعو کیا، اس موقع پر انھوں نے اپنے بااختیار نہ ہونے کے تاثر،ٹیم اور بورڈ کے مسائل سمیت کئی اہم امور پر کھل کر اظہار خیال کیا، چیئرمین پی سی بی سے یہ خصوصی گفتگو قارئین ''ایکسپریس'' کی نذر کی جا رہی ہے۔

ایکسپریس: پی سی بی میں آپ کی دوسری اننگز کیسی چل رہی ہے، پہلے دور میں میڈیا اتنا زیادہ نہ تھا، اب تو اخبارات کے ساتھ کئی چینلز بھی آ چکے ہیں، کیسا محسوس کرتے ہیں؟
شہریارخان: ٹیم جیت رہی ہو تو سب اچھا رہتا ہے لیکن ہارے تو سب لوگ خلاف ہو جاتے ہیں کہ آپ نے یہ غلط فیصلہ کیا جس سے مسائل ہوئے، مگر میں میڈیا کی تنقید کو دل پر نہیں لیتا، ویسے اب اس کے رویے میں بھی میچورٹی آئی ہے خوامخواہ سنسنی نہیں پھیلائی جاتی۔



ایکسپریس:سفارت کاری مشکل کام ہے یا کرکٹ بورڈ چلانا؟
شہریارخان:دونوں کی ہی اپنی الگ اہمیت ہے، پی سی بی میں اب زیادہ پروفیشنل ازم آ گیا،اسی وجہ سے ہم اچھے کام کر رہے اور مزید بہتری کی کوششیں جاری ہیں، ہم نے اسے کم ملازمین کا حامل زیادہ کارآمد ادارہ بنانا ہے، نیا خون لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ابھی تو مجھ سمیت بیشتر اعلیٰ آفیشلز 60،70 سال سے زائدکے بوڑھے لوگ ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ایسے کرکٹ کے شوقین لوگ جو کھیل کو جانتے اوراس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں انھیں آگے لایا جائے، یہی ہمارا مقصد ہے، میں نے حال ہی میں دوسری اننگز شروع کی ہے،گزشتہ دنوں ہی میرے 100 دن مکمل ہوئے، ایک منصوبہ بنایا ہے اسی کے تحت آگے بڑھیں گے۔

ایکسپریس:کرکٹ میں بھی بیٹسمین سنچری تک سیٹ ہو جاتا ہے، آپ کو بھی 100 دن میں ہو ہی جانا چاہیے۔
شہریارخان: جی بالکل ہمارا گیم پلان تیار ہو چکا اور اب جانتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

ایکسپریس: آپ بورڈ میں تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا جن لوگوں نے سری لنکن ٹیم کی سکیورٹی پر لاپرواہی برتی اور بڑا سانحہ پیش آیا، انہی کو اب کینیا سے سیریز میں آرگنائزنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
شہریارخان: وہ ناکامی بورڈ نہیں بلکہ پولیس کی تھی جو اپنی ذمہ داری انجام دینے میں ناکام رہی، انھوں نے اپنی غلطی کو تسلیم بھی کیا تھا، ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت پنجاب میں گورنر راج نافذ تھا، آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک تبدیلی سے سب کچھ بدل جاتا ہے، پولیس کی جانب سے کوتاہی کی یہ بھی ایک وجہ تھی، اب کینیا کی ٹیم آ رہی ہے تو ہماری تیاریاں مکمل اور تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر لی ہیں، پولیس یا دیگر سکیورٹی ایجنسیز کوئی غلطی نہیں کریں گی۔



ایکسپریس:لاہور میں گزشتہ دنوں واہگہ پر اتنا بڑا سانحہ ہوا اس کی وجہ سے آپ لوگوں کو سیریز کے حوالے سے کوئی تشویش تو نہیں ہے؟
شہریارخان: یقینا فکر تو ہے لیکن کوشش یہی ہو گی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو، سری لنکا کو مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

ایکسپریس: کینیا کے آنے سے آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان کا کیس اتنا مضبوط ہو جائے گا جس سے بڑی ٹیمیں بھی ٹور کرنے لگیں؟
شہریارخان: یہ طویل سفر کی صرف ابتدا ہے اور ہمیں پہلا قدم اٹھانا ہی ہے، افغان ٹیم آ چکی، اب کینیا کو آنا ہے، نیپال نے بھی ٹور کی درخواست کردی ہے، بنگلہ دیش، سری لنکا اور زمبابوے اپنی انڈر 19 سائیڈز بھیجنے پر آمادہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگرپاکستان میں ٹیموں کی آمدورفت شروع ہو جائے تو وہ قومی سائیڈز کو بھی بھیجیں گے، ہر کوئی پاکستان سے ہمدردی رکھتا ہے کیونکہ یہ واحد ٹیسٹ ملک ہے جہاں کوئی نہیں جاتا، میں سب کو یہ بھی بتاؤں گا کہ واہگہ اور کراچی میں کچھ واقعات ضرور ہوئے لیکن مجموعی صورتحال بہتر ہو چکی ہے، ابھی بڑی ٹیموں کو آنے میں دیر ہے لیکن میرے خیال میں 2،3 سال میں زمبابوے، سری لنکا اور بنگلہ دیشی سائیڈز دورے کرنے لگیں گی، بنگلہ دیش فی الوقت انڈر 19، اے اور ایمرجنگ پلیئرز کی ٹیمیں بھیجنے کو تیار ہے، ہم اس حوالے سے کوئی سیریز کرانے پر غور کر رہے ہیں، سری لنکا بھی یہی کہہ رہا ہے، نیدرلینڈز کی ٹیم آ رہی ہے، شاید مستقبل میں اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ بھی ٹور کریں۔ آئی سی سی کی دبئی میں میٹنگ کے دوران بھی دیگر بورڈز نے دوروں کے حوالے سے مثبت اشارے دیئے تھے۔

ایکسپریس: پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ دوبارہ شروع کریں گے؟
شہریارخان: جی بالکل کریں گے، ابھی ہم مالی طور پر کامیابی کے حوالے سے پُریقین نہیں تھے اس لیے رواں برس ایونٹ کا انعقاد نہیں کیا،سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ٹی ٹوئنٹی لیگز زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں، ہم ایسا ایونٹ نہیں کرانا چاہتے جو ایک سال میں بند ہو جائے، ہم اچھی طرح غور و فکر کے بعد تمام معاملات کو مدنظر رکھ کر ایونٹ کا اگلے سال آغاز کریں گے۔



ایکسپریس: بھارت سے سیریز کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے

شہریارخان: بھارت 5 سیریز کھیلنے کے وعدے پر قائم ہے، 3 کی میزبانی ہم کریں گے جبکہ 2 وہاں کھیلی جائیں گی،اس سے ہمیں کرکٹ کے ساتھ مالی اعتبار سے بھی بڑا فائدہ ہے، ہماری پہلی ہوم سیریز کسی تیسرے ملک ممکنہ طور پر یو اے ای میں ہوگی، پھر آگے حالات دیکھ کر فیصلہ کریں گے، مجھے امید تو ہے کہ اگلے 4،5 سال میں ہم اپنے ملک میں ان کی میزبانی کے قابل ہوں گے، البتہ اس کا انحصار کئی دیگر معاملات پر بھی ہوگا۔

ایکسپریس:آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟
شہریارخان: ہم کوشش تو کر رہے ہیں مگر بھارت کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ''بورڈ نہیں بلکہ فرنچائز آفیشلز پلیئرز سے معاہدے کا فیصلہ کرتے ہیں، ہم آپ کی بات سن کر ان کو بتا دیں گے کہ پاکستانی پلیئرز کو ایونٹ میں ہونا چاہیے، وہ کرکٹ کی بنیاد پر انھیں لینا چاہتے ہیں یا سکیورٹی کے سبب معاہدے کے خواہاں نہیں ہیں یہ فرنچائز کا ہی فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ انہی نے ٹیم پر سرمایہ کاری کی ہوتی ہے''۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہمارے 2،3 پلیئرز لیگ میں شرکت کے لیے جانا شروع ہو جائیں گے، سعید اجمل اور شاہد آفریدی سمیت کئی پاکستانی کھلاڑی بھارت میں بے حد مقبول ہیں، میرٹ پر انھیں آئی پی ایل میں ہونا چاہیے مگر بھارت کو کچھ تحفظات ہیں۔



ایکسپریس: سعید اجمل کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
شہریارخان:سعید اجمل لفبرا اور کارڈف گئے تھے، یہ دونوں بولنگ ایکشن کی جانچ کے اہم مراکز ہیں، وہاں تھری ڈی و دیگر سہولتوں سے جائزہ لیا جاتا ہے، ثقلین مشتاق، محمد اکرم اور مشتاق احمد سے رہنمائی لینے کے بعد وہ برطانیہ گئے،اس وقت انھوں نے بتایا کہ کہنی کا خم 40 سے 20 کے قریب آ گیا لیکن یہ بھی مقررہ حد سے 5 ڈگری زیادہ تھا، لفبرا میں ان کا غیر رسمی ٹیسٹ ہوا جس میں ہمیں بتایا گیا کہ 20 سے کم ہو کر18، 19 تک آ گیا جبکہ ''دوسرا'' گیند کے وقت اس سے بھی زیادہ تھا،وہاں سے جانے کے بعد بھی وہ مقررہ حد میں نہیں آئے، پھر سعید اجمل کا مجھے فون آیا کہ میں نے ایکشن پر مزید کام کیا ثقلین مشتاق بھی یہاں ہیں، اب میں کامیابی کے حوالے سے پر اعتماد ہوں، لہٰذا آئی سی سی کا ٹیسٹ دینے دیں۔

یہ بھی بتایا کہ وہ لفبرا میں ایک اور ٹیسٹ کروا رہے ہیں، وہاں مشینز کے بغیر ٹیسٹ ہوا لیکن ہمیں رپورٹ یہ آئی کہ کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا اور اب بھی 18، 19 ڈگری کے درمیان ہی ہے،یعنی وہ تاحال مطلوبہ حد سے زیادہ ہیں، سعید کارڈف جا کر ایک اور غیر رسمی ٹیسٹ کرانا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھاکہ اگر وہاں سے کلیئرنس ملی تو کونسل کا ٹیسٹ بھی ہونے دیں، امید ہے کہ وہ ایکشن مکمل درست کر لیں گے لیکن مشینز کے ذریعے حقیقت کا اندازہ لگانا بے حد ضروری ہے، بصورت دیگر ٹیسٹ کرانا خطرناک ثابت ہو گا کیونکہ ناکامی کی صورت میں ایک سال کی پابندی لگ جائے گی۔ ہم سعید اجمل سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان آ کر قائداعظم ٹرافی میں حصہ لو کیونکہ لیب کی بات کچھ اور جبکہ گراؤنڈ میں کھیلنا الگ ہوتا ہے، اگر میچ میں بولنگ کرتے ہوئے بہتری لگی تو ٹیسٹ کرا لو ورنہ انتظار کرنا مناسب ہوگا، سعید کی خواہش ہے کہ فوراً ٹیسٹ کرا لیں لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ ابھی وہ اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ تاحال مطلوبہ حد میں نہیں آئے۔

ایکسپریس: مگر آپ لوگوں نے تو آئی سی سی کو ٹیسٹ کے لیے ای میل بھی بھیج دی ہے۔
شہریارخان: وہ تو طریقہ کار کا آغاز کیا کہ ہم تیار ہیں آپ کب تک ٹیسٹ کریں گے، اس اثنا میں ہم چاہتے ہیں کہ اسپنر وطن آکر ڈومیسٹک ایونٹس میں حصہ لیں، میچ کنڈیشنز میں جائزہ لیا جائے کہ وہ نئے ایکشن سے کیا ماضی جیسے کارآمد بولر ہیں یا نہیں، اس کے بعد ہم ورلڈکپ میں ان کی شرکت کا فیصلہ کریں گے، ویسے بھی حتمی اسکواڈ کا اعلان تو 15 جنوری تک کرنا ہے لہٰذا ہمارے پاس وقت باقی ہے، فی الحال سعید اجمل کا ایکشن مشکوک ہی نظر آتا ہے۔

ایکسپریس: آسٹریلوی کرکٹر فل ہیوز کی باؤنسر پر المناک موت کے بعد کیا پاکستان کرکٹ بورڈ بھی ڈومیسٹک پلیئرز میں کھلاڑیوں کے حفاظتی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لے گا؟
شہریار خان:ہم اس حوالے سے غور کریں گے اور آئی سی سی کی طرف سے جو ہدایات ہیں ان پر مکمل عمل کریں گے، ویسے اس طرح کے واقعات برسوں میں شاذونادر ہی ہوتے ہیں،ہمارے ملک میں بھی چند پلیئرز کی کھیلتے ہوئے موت ہو چکی، ہیوز کے انتقال کا بھی ہمیں بے حد افسوس ہے۔

ایکسپریس: بعض حلقے ان دنوں باؤنسر پر پابندی کی باتیں کر رہے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہو گا؟
شہریارخان:میں اس سے متفق نہیں ہوں، باؤنسرز کھیل کا حصہ ہیں انھیں پہلے ہی محدود تو کر دیا گیا اب پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔

ایکسپریس: اب میں بھی آپ پر کچھ لفظی باؤنسرز کر لوں، ایک تاثر یہ سامنے آ رہا ہے کہ اب آپ ماضی جیسے طاقتور چیئرمین نہیں ہیں، کسی اور کے زیرسایہ کام کر رہے ہیں؟
شہریارخان: ایسی کوئی بات نہیں، دراصل نیا پی سی بی آئین واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ گورننگ بورڈ کی مشاورت سے تمام فیصلے ہوں گے ،پہلے میں از خود جو چاہتاکر دیتا، اب ایسا نہیں ہے، یہ فرق نئے آئین کی وجہ سے آیا، میرے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی فیصلے کرنا پسند کرتا ہوں مگر گورننگ بورڈ سے مشاورت ضروری ہے جس نے جو کمیٹیز بنائی ہیں ان کی سفارشات پر عمل ہوتا ہے، میں بھی اسی کے مطابق اقدامات کی کوشش کرتا ہوں، یہی ماضی اور اب کا بنیادی فرق ہے، چیئرمین کو سب کی مشاورت سے فرائض انجام دینے چاہئیں۔

ایکسپریس: آپ نے کئی بیانات دیئے لیکن عمل نہ کیا جیسے معین خان سے دوہری ذمہ داری واپس لینے کے اعلان پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا جا سکا؟
شہریارخان: پی سی بی میں 10، 11 آفیشلز دوہری ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے جس پر گورننگ بورڈ نے اعتراض کرتے ہوئے تبدیلی کا کہا، مگر وقت کا تعین مجھ پر چھوڑ دیا گیا، میں نے 7 افراد کو تو فوراً ہی ایک کام تک محدود کر دیا باقی کے حوالے سے بھی جلد فیصلہ ہو جائے گا، مشتاق احمد اور معین خان چونکہ ٹیم کے ساتھ سیریز میں مصروف ہیں اس لیے ان کے حوالے سے ورلڈکپ تک کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا،ایسا ہی فیصلہ ویمن کرکٹ کی عائشہ اشعر کے حوالے سے بھی کیا گیا کیونکہ بشریٰ اعتزاز اب بورڈ کے ساتھ منسلک نہیں ہیں، جب تک متبادل نہیں ملتا وہ دوہری ذمہ داری نبھاتی رہیںگی۔

ایکسپریس: مصباح الحق کو آپ نے بہت سپورٹ کیا جس پر ٹیسٹ سیریز میں اچھے نتائج بھی سامنے آئے، البتہ ون ڈے میں رواں برس پاکستان کی کارکردگی تاحال اتنی خاص نہیں ہے، آپ کو لگتا ہے کہ مصباح کی قیادت میں ٹیم اچھے نتائج دے گی؟
شہریار خان: امید تو ہے اسی لیے فرائض ان کے سپرد کیے، ان میں اعتماد آ گیا اور ٹیسٹ میچز میں اچھا کھیلے، انھوں نے خود بھی کہا کہ بورڈ کی سپورٹ سے کارکردگی بہتر ہوئی، یقینا اسی اعتماد سے ون ڈے بھی کھیل کر بہتر نتائج دیںگے۔

ایکسپریس:مصباح 40 سال کے ہو چکے، کیا قیادت کے حوالے سے آپ مستقبل کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں کیونکہ ورلڈکپ کے بعد بہت زیادہ تبدیلیاں آتی ہیں۔
شہریارخان: ہم وقت آنے پر مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں گے، نوجوان کھلاڑیوں کو تو آگے لایا جا رہا ہے، جیسے صہیب مقصود کو موقع ملا، یو اے ای اور افغانستان کے خلاف اے ٹیم کا کپتان بھی بنایا، یقینا وہ مستقبل کا ایک آپشن ہوں گے، مزید کئی کھلاڑی بھی موجود ہیں، مصباح اس وقت ٹیم کے سب سے فٹ کھلاڑی ہیں، ہو سکتا ہے ورلڈکپ کے بعد وہ ون ڈے سے ریٹائر ہو جائیں پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔

ایکسپریس: ورلڈکپ کے لیے کوئی نائب کپتان بنانے کا امکان ہے؟
شہریار خان: ہمارا کوئی ارادہ نہیں، میں نائب قائد کا قائل ہی نہیں ہوں، البتہ اگر سلیکٹرز نے کہا تو غور کیا جائے گا۔
ایکسپریس: میگا ایونٹ میں پاکستان کا پہلا ہی میچ بھارت کے ساتھ ہو گا، اب تک ٹیم نے ورلڈکپ میں کبھی روایتی حریف کو زیر نہیں کیا، کیا اس مسئلے سے نکالنے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے ساتھ سیشن رکھا جائے گا؟
شہریارخان: اگر سابق کرکٹرز نے مشورہ دیا تب ہی ایسا کریں گے ویسے میرے ذہن میں تو یہ بات موجود نہیں ہے، کرکٹ کھیلنا کھلاڑیوں کا کام ہے اور انھیں اس کے لیے ذہنی طور پر خود تیار رہنا چاہیے،ماہر نفسیات وغیرہ کے تقرر کا میں قائل نہیں ہوں۔

ایکسپریس: یونس خان کو آپ نے ٹیسٹ کی کارکردگی پر ون ڈے اسکواڈ میں شامل کرا دیا، کیا یہ فیصلہ درست ثابت ہوگا؟
شہریار خان: امید تو یہی ہے،یونس کو ون ڈے اسکواڈ سے ڈراپ کرنا ایک متنازع فیصلہ تھا، بیشتر عوام اور میڈیا بھی اس کے خلاف نظر آئے،البتہ بعض لوگوں نے حمایت بھی کی، اب ٹیسٹ میں ان کی پرفارمنس بہت اچھی رہی تو واپسی یقینی تھی،یونس کو ورلڈکپ میں شرکت کا اعتماد بھی ملا ہے، یقینا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔



ایکسپریس: معین خان نے یونس کو پہلے ون ڈے اسکواڈ سے ڈراپ کیا جبکہ مصباح کے بارے میں اپنی رپورٹ میں منفی کمنٹس دیے، وہ ٹیم منیجر بھی ہیں، دونوں سینئرز ان سے ناراض لگتے ہیں کیا اس سے ٹیم کی کارکردگی پر اثر نہیں پڑے گا؟
شہریارخان: معین سے اب کوئی ناراض نہیں ہے، وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ جب یونس کو ڈراپ کیا گیا تو انھیں فیصلے پر اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ان سے کہتے کہ آپ ورلڈکپ کے منصوبوں میں شامل اور ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں، انھوں نے ایسا نہیں کیا جس پر یونس خفا ہو گئے اور میڈیا میں آکر دل کی بھڑاس نکال دی جو درست نہ تھا، انھیں اس فیصلے کو ٹھنڈے دماغ سے تسلیم کرنا چاہیے تھا، اس وجہ سے تناؤ ہو گیا، اس کے بعد معین خان نے یونس کو خود فون کر کے معذرت بھی کی، میں یونس کو بہت عرصے سے جانتا ہوں، وہ بڑے دل کا مالک اچھا انسان ہے، اس نے یہ معافی قبول بھی کر لی لہٰذا اب دونوں میںکوئی ٹینشن نہیں ہے، یونس دل میں کینہ نہیں رکھتا، حالانکہ ماضی میں میرے ساتھ بھی اس کا ایک واقعہ ہو چکا لیکن ہم اسے بھلا چکے، کبھی کبھی کرکٹرز کی مایوسی ابھر آتی ہے جس سے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ جہاں تک مصباح کی بات ہے وہ موجودہ صورتحال سے بہت خوش اور انھیں معین خان سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ہم سب جانتے ہیں کہ معین کو ایک ذمہ داری چھوڑنا ہوگی اور ایسا ورلڈکپ کے بعد ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس: عامر کی کرکٹ میں واپسی کے لیے پی سی بی کیوں اتنا بے چین ہے، ماضی میں ذکا اشرف اور نجم سیٹھی اور اب آپ پورا زور لگا رہے ہیں۔
شہریارخان: ہمارا موقف صرف اتنا ہے کہ عامر نے جرم قبول کیا، اس نے بورڈ اور عوام سب سے معافی مانگی، جیل کی سزا بھی کاٹی، آئی سی سی سے مکمل تعاون کیااور نوجوانوں کو فکسنگ سے بچانے کے لیے لیکچرز بھی دیئے، لہٰذا اسے کچھ رعایت ملنی چاہیے، ہم چاہتے ہیں کہ کونسل اسے سزا کی مدت ختم ہونے سے 6 ماہ قبل ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے، پھر سلیکٹرز کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کے قابل ہے یا نہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عامر کی واپسی سے ٹیم اسپرٹ پر تو اثر نہیں پڑے گا، بہت سے لوگ تو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے پلیئر کے ساتھ ہم نہیں کھیلیں گے۔

ایکسپریس: آصف اور سلمان بٹ کا کیریئر تو اب ختم لگتا ہے؟
شہریارخان:میں نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ عامر نے جس طرح تعاون کیا آپ ایسا نہ کر سکے، بس ایک چھوٹا سا بیان دے دیا کہ ہمیں افسوس ہوا، یہ کافی نہیں آپ کو مزید کچھ کرنا پڑے گا، اس پر انھوں نے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، ہم اب انھیں طریقہ کار سمجھا دیں گے، اس کی تکمیل پر بھی یہ دیکھیں گے کہ کیا انھوں نے دل سے ایسا کیا یا صرف کرکٹ میں واپسی کی راہ بند ہونے پر یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے، ان کے معاملے میں پیش رفت ابھی دور کی بات ہے، عامر کا کیس تو آئی سی سی کو بھیج بھی دیا ہے۔


[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں