نیوزی لینڈ کے ایک روزہ سیریز میں ’’خطرناک‘‘ عزائم

طویل اور مختصر فارمیٹ میں ناموافق موسمی حالات اور اسپنرز کے لیے سازگار وکٹوں پر مہمان ٹیم کی عمدہ کارکردگی کو۔۔۔


Abbas Raza December 07, 2014
طویل اور مختصر فارمیٹ میں ناموافق موسمی حالات اور اسپنرز کے لیے سازگار وکٹوں پر مہمان ٹیم کی عمدہ کارکردگی کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔ فوٹو : فائل

کیویز نے ٹیسٹ کی طرح ٹی20 سیریز میں بھی شاندار کم بیک کرتے ہوئے پاکستان کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔

طویل اور مختصر فارمیٹ میں ناموافق موسمی حالات اور اسپنرز کے لیے سازگار وکٹوں پر مہمان ٹیم کی عمدہ کارکردگی کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔ یو اے ای میں آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو عبرتناک شکست سے دوچار کرنے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ کیویز پاکستان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوں گے لیکن نیوزی لینڈ نے کرکٹ پنڈتوں کے تمام تر دعوے غلط ثابت کردیئے ہیں۔ اب دونوں ٹیموں کے مابین 8 دسمبر سے 5 ایک روزہ سیریز کا آغاز ہورہا ہے جس کے لیے کیویز کی جانب سے آخری دم تک ہار نہ ماننے والے ارادوں نے پاکستانی کیمپ میں فکر لاحق کردی ہے کیونکہ مرضی کی وکٹوں اورکئی سال سے خلیجی ریاستوں کو ہوم وینیوز کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود فتح کے قریب پہنچ کر سیریز گنوائی جا چکی۔

ایسے میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو ون ڈے مقابلوں کے لیے بہترحکمت عملی کو نہ اپنایا تو ورلڈکپ سے صرف دو ماہ قبل بڑی مشکل آن پڑے گی۔ ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کے بعد ٹوئنٹی 20 کرکٹ کے لیے میدان سجنے لگا تو ایک بار پھر ہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ پاکستان شارٹ فارمیٹ میں ہمیشہ اچھا رہا ہے اس لیے نیوزی لینڈ کو آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے، لیکن ایک بار پھر برتری کے باوجود سیریز میں فتح نصیب نہ ہوسکی۔ جمعرات کو دبئی میں کھیلے گئے پہلے میچ گرین شرٹس شاہد خان آفریدی کی زیر قیادت میدان میں اتری، ٹیم میں بہت سے نئے چہرے بھی شامل تھے ۔

خوشی قسمتی سے ٹاس جیت کر اوس کا فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ملا۔ ساتھ ہی بولرز نے بھی شاندار کارکردگی دکھائی۔ یہ میچ میں نے سٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا ، وہاں پر موجود دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی لگا کہ شاہد آفریدی کی تقلید میں ٹیم کا ہر کھلاڑی بھرپور فائٹ کررہا ہے، پہلے بیٹنگ کرنے والی کیویز ٹیم مقررہ اوورز میں 135 تک محدود رہی، جواب میں پاکستانی بیٹسمینوں نے بولرز کی محنت کو رائیگاں ہونے سے بچاتے ہوئے ہدف 3 وکٹیں گنوانے کے بعد باآسانی کر لیا۔ ٹیسٹ میچوں میں آسٹریلیا اور پھر نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کی فارم سے فائدہ اٹھانے کا ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ بھی درست ثابت ہوا، انہیں بطور اوپنر آزمایا گیا تو رائٹ ہینڈر بیٹسمین نے ناصرف کیوی بولرز کی خوب دھلائی کی بلکہ 76 رنز کے ساتھ گرین شرٹس کو فتح تک پہنچا کر سراٹھائے پویلین لوٹے۔

اس میچ میں کامیابی سے پاکستان کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 50 فتوحات کے ساتھ نصف سنچری بنانے والی دنیا کی پہلی ٹیم بھی بن گئی ہے۔ دبئی کے ہی میدان پر ہفتے کو دنوں ٹیموں کے مابین دوسرا میچ کھیلا گیا جس میں ایک بار پھر شاہد آفریدی نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس بار حالات کچھ مختلف تھے۔

ٹاس جیت کر بیٹنگ پر مجبورکیوی اوپنرز انتون ڈیویچ اور کین ولیمسن نے ابتدائی 49 کا آغاز فراہم کیا بعد میں ٹام لیتھم اور لیوک رونچی نے ٹیم کو قابل قدر مجموعہ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہدف کا تعاقب کرنے والی پاکستانی ٹیم کو ابتدائی دھچکا پہلے میچ کے ہیرو سرفراز احمد کی صورت میں لگا۔ اس مرتبہ متنازع امپائرنگ فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئے، اس کے بعد پاکستانی بیٹسمینوں نے آنے اور جانے کی روش برقرار رکھی، احمد شہزاد نے تھوڑی دیر ٹیم کو سنبھالے رکھا پھر شاہد آفریدی نے شائقین کا لہو گرمایا لیکن وہ بھی ہمیشہ کی طرح بیچ راستے ٹیم کو چھوڑ کر چلتے بنے اور میچ کا نتیجہ 17رنز سے کیویز کے حق میں رہا۔ دونوں ٹیموں کے مابین 5 ایک روزہ میچوں پر مشتمل سیریز کا آغاز 8 دسمبر سے دبئی میں ہی ہوگا۔ وہی میدان وہی کھلاڑی لیکن فارمیٹ پھر بدل گیا۔

پہلے ٹیسٹ اور پھر ٹوئنٹی مقابلوں میں خسارا برابر کرنے کے بعد نیوزی لینڈ ٹیم کے پلیئرز کو بے پناہ اعتماد حاصل ہوگیا ہے جو پاکستان کو ون ڈے مقابلوں میں مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے، یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ یہ سیریز فروری اور مارچ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدان پر کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کی ریہرسل ہے، پاکستان نے اگر میگا ایونٹ میں بلند حوصلوں کے ساتھ جانا ہے تو اسے ہر صورت اس میں کامیابی حاصل کرنا پڑے گی نہیں تو سازگار حالات سے ناکامی کا داغ لے کر دنیا کی تیزترین وکٹوں پر بڑے کارنامے سرانجام دینے کا ارمان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ یہاں پر ٹیم مینجمنٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ پورے ٹور کے دوران سامنے آنے والی غلطیوں سے ناصرف کھلاڑیوں کو آگاہ کریں بلکہ ان کو بہترین کارکردگی سے سیریز کا نتیجہ اپنے حق میں موڑنے کی ترغیب دی جائے۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور حریف ٹیم کو کوتاہیوں پر مجبور کردیا تو فتح قدم چومے گی۔

دوسری طرف ناکامی کے بعد ورلڈ کپ میں شاندار کاکردگی دیوانے کے خواب کی حیثیت اختیار کرجائے گی کیونکہ تجرباتی مشقوں میں ناکام رہنے والے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ فتح نہیں ہوسکتی، بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے کے لیے بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، بجھے دل اور ہار کے ڈر کے ساتھ میدان فتح نہیں کئے جاسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں