تاریخ کے آئینے میں
تاریخ کے ہردورمیں باہمی چپقلشوں اور اندرونِ خانہ ریشہ دوانیوں کا نقصان مسلمانوں معاشروں کواٹھانا پڑا ہے۔
KARACHI:
چند روز قبل مولانا سمیع الحق نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ داعش (دولت اسلامیہ عراق وشام) امریکاکی پیداوار ہے۔ جس کے ذریعے وہ خلیج میں اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے بیان کی صحت پر شک یا اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی معلومات کا دائرہ خاصاوسیع ہے۔ ویسے بھی اس تنظیم کے بارے میں جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں، وہ خاصی حدتک تشویشناک ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسی متشدد نظریات کی حامل عسکری تنظیمیں مسلم دنیاہی میں کیوں وجود میں آتی ہیں،جو دنیا بھر کے مسلانوں کے لیے پریشانی کا سبب بنتی ہیں؟اس لیے اس سوال پر تاریخ کے تناظر میں بحث کی ضرورت ہے۔
تاریخ کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ اغیار سے زیادہ مسلمانوں ہی نے خود اپنے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔تاریخ کے ہردورمیں باہمی چپقلشوں اور اندرونِ خانہ ریشہ دوانیوں کا نقصان مسلمانوں معاشروں کواٹھانا پڑا ہے۔ آج بھی چہارسو بیرونی سازشوں کا واویلا مچا ہوا ہے، مگر جو کچھ مسلم معاشروں کے اندر ہورہاہے، وہ خود ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔دراصل مسلم معاشرے کئی صدیوں سے قیادت کے شدید بحران کا شکار ہونے کے باعث ذہنی تشنج اور فکری انتشار کا شکار چلے آرہے ہیں۔جب کہ مختلف ادوار میں جو اصلاحی تحاریک ابھریں، انھوں نے مسلمانوں کوفکری طورپر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے مزید تہذیبی نرگسیت کے اندھے کنویں دھکیل دیا۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو مسلمانوں کی تنزلی کا سبب بنے؟ پھر قیادت کے اس بحران پر بھی گفتگو کی ضروررت ہے، جس نے مسلمان معاشروں کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں کوئی ایسا مدبر اور اہل بصیرت رہنماء پیدا نہیں ہوپارہا، جو مسلمانوں کو تہذیبی نرگسیت کے خواب خرگوش سے بیدار کرکے دنیا کی حقیقتوں سے آگاہ کرسکے؟
اس وقت کرہ ارض پر 56ممالک ایسے ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ان کی حکومتیں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں۔مسلمانوں کے عروج کا دورصرف تین صدیوں تک محدود ہے، جو 7ویں صدی سے شروع ہوکر10ویں صدی تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران انھوں نے علم وآگہی کے مختلف میدانوں میں شاندار پیش رفت کی اورہمہ جہت ترقی کی منازل طے کیں۔اس کے نتیجے میں ایک نئے تہذیبی ورثے کی بنیاد پڑی،جو وادیِ بابل و نینوا سے نکل کرشمال میں وسط ایشیاء، جنوب میں مغربی صحارا، مشرق میں ہندوستان اور مغرب میں ترکی تک جاپہنچا۔
اس تہذیبی مرکز کو اجڈ اور وحشی تاتاریوں نے اس لیے روند ڈالا کیونکہ خود مسلمانوں میں فکری ارتقائی عمل رک چکا تھا اور ان میں تہذیب وتمدن کا دفاع کرنے کی صلاحیت معدوم ہوگئی تھی۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تین صدیوں کے دوران مسلمانوں نے دینیات و اخلاقات، سائنس وٹیکنالوجی، ریاضی و فلسفہ،تاریخ و ادب،سمیت ان گنت موضوعات پر تحقیق وتخلیق کے چراغ روش کیے۔مگراس کے بعدبہرحال زوال کی نا ختم ہونے والی کہانی شروع ہوتی ہے،جو تاحال جاری ہے۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ دو واقعات مسلمانوں کو فکری، سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طورپر بری طرح مجروح کرنے کا سبب بنے۔
ان میں پہلا واقعہ 1258ء میں تاتاریوں کا بغداد پر حملہ اور اس کی تباہی ہے،جس نے ہرلحاظ سے مسلمانوں کی کمرتوڑدی۔وہ شہر جہاں کویت یونیورسٹی کے محقق پروفیسر بسم عجمی کی تحقیق کے مطابق ایک ہزار تحقیقی مراکز مذہب کے علاوہ دیگر علوم پر تحقیق میں مصروف تھے۔ شہر میں 500سے زائد کتب خانے نادر ونایاب کتب سے بھرے ہوئے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں کتابیں دریا برد اور تحقیقی مراکز قصہ پارینہ ہوئے۔ دوسرا سانحہ 1492ء میں اسپین میںمسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ اور ان کا انخلاء تھا۔جس نے مسلمانوں کو شدید نفسیاتی خلفشار میں مبتلا کردیا۔
تحقیق و تخلیق کا یہ عمل صرف خلیج ، وسط ایشیاء تک محدود نہیں تھا، بلکہ اسپین میں بھی ہر شعبے پر تحقیقی کام جاری تھا۔ الکندی، فارابی اور ابن رشد مردہ یونانی فلسفہ کو زندہ کرنے اور اس کی فکری موشگافیوں سے مستفیض ہونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ابو عبداللہ موسیٰ الخوارزمی نے ہندی ریاضی کی مدد سے اعشاری نظام ترتیب دیا اور الگورتھم جو بعد میںلوگارتھم کہلائی،اس کا تصور پیش کیا۔
حکیم ابو وفا نے پرکار کی مدد سے30،45،60اور 90 درجہ سے زاویہ بنانے کا تصور پیش کیا۔جابر بن حیان نے گندھک کا تیزاب ایجاد کیا۔عمرخیام جو مسلم دنیا میں صرف اپنی رباعیات کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے،دراصل ایک بہت بڑا ریاضی دان تھا، جس نے Binomial Theorem متعارف کراکے کیلکولیٹر اور کمپیوٹر کی ایجاد کی بنیاد رکھی۔غرض کون سا ایسا شعبہ تھا، جس میں تحقیق و تخلیق کا عمل جاری نہ رہا ہو۔مگر محلاتی سازشوں اورعلمائے سو کی کوتاہ بینی اور سازشی ہتھکنڈوں کے باعث ترقی کا یہ سلسلہ جلد ہی دم توڑگیا۔کیونکہ کچھ محققین کو بے دین قرار دے کر ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئیں۔جب کہ بیشتر کو معتزلی رافضی قرار دے کر تضحیک و تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔
اس طرح اہل علم و دانش کا جیناتک حرام کردیا گیا۔ جس کی تاریخ میں ان گنت مثالیں ہیں۔ مثلاً ابن رشد کی کتابوں اور تحقیقی مواد کو اسپین کے حکمران منصور ثانی کے حکم پر قرطبہ کے چوک پر نذر آتش کیا گیا۔ عمر خیام کوایران چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔یوں تحقیقی وتخلیق کی وہ روایت جو ساتویں صدی میں انتہائی شدومد سے شروع ہوئی تھی،وقت گذرنے کے ساتھ دم توڑتی چلی گئی۔
جب علم ودانش کی راہیں مسدودہوجائیں، تو سماج فکری طورپر بانجھ ہونے لگتاہے اور اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجے سیاسی، معاشی اورسماجی ترقی رک جاتی ہے اور معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔مسلمان معاشرے 13ویںصدی سے جس فکری جمودکا شکار ہوئے،اس کے نتیجے میں طرز پیداوار میں تبدیلی کا رجحان بھی ختم ہوگیا۔یوں معیشت کے پھیلائو اور سماجی ترقی کے تصورات بھی معدوم ہوتے چلے گئے اور نظم حکمرانی میں بہتری کاتصور بھی خواب وخیال ہوکررہ گیا۔
علم سے دوری اور ماضی کی درخشاں روایات میں گم رہنا، ان معاشروں کاوطیرہ بن گیا۔جب جہل بڑھتاہے، تو منطقی استدالال کی جگہ خودنمائی وخود سری،جب کہ تحمل اور برداشت کی جگہ جنون اور شدت پسندی اجتماعی تفاخر بن جاتی ہے۔ایسے معاشرے خود کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور تاریخ کے ارتقائی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے ماضی پر ستی اور تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوکر فکری فرسودگی میں ہوجاتے ہیں اور اپنی جہل آمادہ روش پر اصرار کرتے ہیں۔
دوسرا المیہ یہ رہاکہ ان 7سو برسوں کے دوران جو تحاریک مختلف خطوں اور علاقوں سے اٹھیں، وہ کوئی ایسا مدبر اورصاحب بصیرت قیادت پیداکرنے میں ناکام رہیں، جو ان معاشروں کو فکری جمودسے نکال کر ترقی وکامرانی کی راہ پر لگاسکتی۔ اجماع اور قیاس کے صحیح استعمال کے ذریعے انھیں عقیدت مندی کے سحرسے نکال کر زمان ومکاں کے حقائق کاادراک دے سکتیں۔ بیسویں صدی میں البتہ مسلم دنیا میںدوایسی آوازیں ابھریں،جو واضح فکرکے ساتھ جدید دنیا کے تقاضوں کا واضح ادارک رکھتی تھیں۔ان میں برصغیر میں علامہ اقبال اور ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی نے سوچ کے نئے دھارے متعارف کرائے۔
اقبال کے فکر وفلسفے کی بنیاد پر نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دینے کے بجائے ان کی شاعری کو قوالوں کے حوالے کردیا گیا۔یہی کچھ علی شریعتی کے ساتھ ہوا۔ ایرانی عوام نے ان کے فکروفلسفے اور عمرانی تصورات کو سمجھنے کے بجائے شہنشاہیت سے نجات کے لیے تھیوکریسی میں پناہ تلاش کرلی۔عرب دنیا میں انیسویں اوربیسویں صدی کے دوران جو تحاریک پیدا ہوئیں ان میں اخوان المسلمین نے ماضی پرستی کو جب کہ بعث پارٹی نے عرب قوم پرستی کواپنامحوربنالیا۔یوںمسلمانوںمیں کوئی عالمگیر اصلاحی تحریک وجود میں نہیں آسکی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ کرہ ارض پر موجود 56 مسلم ممالک کے کسی بھی حکمران،منصوبہ ساز یا سیاسی مدبر کی اولین ترجیح تعلیم نہیں ہے۔جس کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں کوئی ایسی جامعہ یا تحقیقی ادارہ نہیں ہے، جودنیا کی 10تو کجا50بڑی جامعات یا تحقیقی اداروں کی فہرست میں شامل ہو۔یہی سبب ہے کہ مسلم دنیامیں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کا معیار عالمی پیمانوں کے مطابق انتہائی پست ہے۔چنانچہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلم دنیامختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالمی معیارکے ماہرین پیدا کرنے میں ناکام ہے۔
البتہ جواہل علم اپنی ذاتی محنت اور لگن اور مغربی دنیاسے حاصل وسائل کی بنیاد پر کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں، تو انھیں ان کے اپنے ممالک میں پذیرائی تو کجا،مختلف نوعیت کے طعن وتشعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس کی ان گنت مثالیں ہیں۔خاص طورپر پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسف زئی اورمصر کے نجیب محفوظ حالیہ زمانے کی مثالیں ہیں،جنھیں ان کی تحقیق اور فروغ علم کے لیے جراتمندانہ انداز میں ڈٹ جانے پرعالمی سطح پربے پناہ پذیرائی ملی۔مگر ان کے اپنے ملکوں میںانھیںمختلف الزام تراشیوں اور قاتلانہ حملوں کا سامناکرنا پڑا۔
جہل آمادگی کے ایسے ماحول میں ترقی دوست تنظیمیںاور اہل خرد دانشور جنم نہیں لیتے،بلکہ شدت پسنداورجنونی تنظیمیں ابھرتی ہیں، جو کہیں عقیدے ومسلک کی بنیاد پر کہیں نسلی ولسانی بنیادوں پر متشدد رویوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔موقع پرست حکمران ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرکے اپنے اقتدارکوتووقتی طورپربچالیتے ہیں، لیکن سماج میں نفرت اور عصبیت کاایک ایسازہر گھول دیتے ہیں، جو دہائیوں نہیںبلکہ صدیوں تک نسل درنسل پھیلتا چلاجاتا ہے۔
چند روز قبل مولانا سمیع الحق نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ داعش (دولت اسلامیہ عراق وشام) امریکاکی پیداوار ہے۔ جس کے ذریعے وہ خلیج میں اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے بیان کی صحت پر شک یا اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی معلومات کا دائرہ خاصاوسیع ہے۔ ویسے بھی اس تنظیم کے بارے میں جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں، وہ خاصی حدتک تشویشناک ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسی متشدد نظریات کی حامل عسکری تنظیمیں مسلم دنیاہی میں کیوں وجود میں آتی ہیں،جو دنیا بھر کے مسلانوں کے لیے پریشانی کا سبب بنتی ہیں؟اس لیے اس سوال پر تاریخ کے تناظر میں بحث کی ضرورت ہے۔
تاریخ کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ اغیار سے زیادہ مسلمانوں ہی نے خود اپنے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔تاریخ کے ہردورمیں باہمی چپقلشوں اور اندرونِ خانہ ریشہ دوانیوں کا نقصان مسلمانوں معاشروں کواٹھانا پڑا ہے۔ آج بھی چہارسو بیرونی سازشوں کا واویلا مچا ہوا ہے، مگر جو کچھ مسلم معاشروں کے اندر ہورہاہے، وہ خود ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔دراصل مسلم معاشرے کئی صدیوں سے قیادت کے شدید بحران کا شکار ہونے کے باعث ذہنی تشنج اور فکری انتشار کا شکار چلے آرہے ہیں۔جب کہ مختلف ادوار میں جو اصلاحی تحاریک ابھریں، انھوں نے مسلمانوں کوفکری طورپر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے مزید تہذیبی نرگسیت کے اندھے کنویں دھکیل دیا۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو مسلمانوں کی تنزلی کا سبب بنے؟ پھر قیادت کے اس بحران پر بھی گفتگو کی ضروررت ہے، جس نے مسلمان معاشروں کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں کوئی ایسا مدبر اور اہل بصیرت رہنماء پیدا نہیں ہوپارہا، جو مسلمانوں کو تہذیبی نرگسیت کے خواب خرگوش سے بیدار کرکے دنیا کی حقیقتوں سے آگاہ کرسکے؟
اس وقت کرہ ارض پر 56ممالک ایسے ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ان کی حکومتیں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں۔مسلمانوں کے عروج کا دورصرف تین صدیوں تک محدود ہے، جو 7ویں صدی سے شروع ہوکر10ویں صدی تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران انھوں نے علم وآگہی کے مختلف میدانوں میں شاندار پیش رفت کی اورہمہ جہت ترقی کی منازل طے کیں۔اس کے نتیجے میں ایک نئے تہذیبی ورثے کی بنیاد پڑی،جو وادیِ بابل و نینوا سے نکل کرشمال میں وسط ایشیاء، جنوب میں مغربی صحارا، مشرق میں ہندوستان اور مغرب میں ترکی تک جاپہنچا۔
اس تہذیبی مرکز کو اجڈ اور وحشی تاتاریوں نے اس لیے روند ڈالا کیونکہ خود مسلمانوں میں فکری ارتقائی عمل رک چکا تھا اور ان میں تہذیب وتمدن کا دفاع کرنے کی صلاحیت معدوم ہوگئی تھی۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تین صدیوں کے دوران مسلمانوں نے دینیات و اخلاقات، سائنس وٹیکنالوجی، ریاضی و فلسفہ،تاریخ و ادب،سمیت ان گنت موضوعات پر تحقیق وتخلیق کے چراغ روش کیے۔مگراس کے بعدبہرحال زوال کی نا ختم ہونے والی کہانی شروع ہوتی ہے،جو تاحال جاری ہے۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ دو واقعات مسلمانوں کو فکری، سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طورپر بری طرح مجروح کرنے کا سبب بنے۔
ان میں پہلا واقعہ 1258ء میں تاتاریوں کا بغداد پر حملہ اور اس کی تباہی ہے،جس نے ہرلحاظ سے مسلمانوں کی کمرتوڑدی۔وہ شہر جہاں کویت یونیورسٹی کے محقق پروفیسر بسم عجمی کی تحقیق کے مطابق ایک ہزار تحقیقی مراکز مذہب کے علاوہ دیگر علوم پر تحقیق میں مصروف تھے۔ شہر میں 500سے زائد کتب خانے نادر ونایاب کتب سے بھرے ہوئے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں کتابیں دریا برد اور تحقیقی مراکز قصہ پارینہ ہوئے۔ دوسرا سانحہ 1492ء میں اسپین میںمسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ اور ان کا انخلاء تھا۔جس نے مسلمانوں کو شدید نفسیاتی خلفشار میں مبتلا کردیا۔
تحقیق و تخلیق کا یہ عمل صرف خلیج ، وسط ایشیاء تک محدود نہیں تھا، بلکہ اسپین میں بھی ہر شعبے پر تحقیقی کام جاری تھا۔ الکندی، فارابی اور ابن رشد مردہ یونانی فلسفہ کو زندہ کرنے اور اس کی فکری موشگافیوں سے مستفیض ہونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ابو عبداللہ موسیٰ الخوارزمی نے ہندی ریاضی کی مدد سے اعشاری نظام ترتیب دیا اور الگورتھم جو بعد میںلوگارتھم کہلائی،اس کا تصور پیش کیا۔
حکیم ابو وفا نے پرکار کی مدد سے30،45،60اور 90 درجہ سے زاویہ بنانے کا تصور پیش کیا۔جابر بن حیان نے گندھک کا تیزاب ایجاد کیا۔عمرخیام جو مسلم دنیا میں صرف اپنی رباعیات کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے،دراصل ایک بہت بڑا ریاضی دان تھا، جس نے Binomial Theorem متعارف کراکے کیلکولیٹر اور کمپیوٹر کی ایجاد کی بنیاد رکھی۔غرض کون سا ایسا شعبہ تھا، جس میں تحقیق و تخلیق کا عمل جاری نہ رہا ہو۔مگر محلاتی سازشوں اورعلمائے سو کی کوتاہ بینی اور سازشی ہتھکنڈوں کے باعث ترقی کا یہ سلسلہ جلد ہی دم توڑگیا۔کیونکہ کچھ محققین کو بے دین قرار دے کر ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئیں۔جب کہ بیشتر کو معتزلی رافضی قرار دے کر تضحیک و تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔
اس طرح اہل علم و دانش کا جیناتک حرام کردیا گیا۔ جس کی تاریخ میں ان گنت مثالیں ہیں۔ مثلاً ابن رشد کی کتابوں اور تحقیقی مواد کو اسپین کے حکمران منصور ثانی کے حکم پر قرطبہ کے چوک پر نذر آتش کیا گیا۔ عمر خیام کوایران چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔یوں تحقیقی وتخلیق کی وہ روایت جو ساتویں صدی میں انتہائی شدومد سے شروع ہوئی تھی،وقت گذرنے کے ساتھ دم توڑتی چلی گئی۔
جب علم ودانش کی راہیں مسدودہوجائیں، تو سماج فکری طورپر بانجھ ہونے لگتاہے اور اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجے سیاسی، معاشی اورسماجی ترقی رک جاتی ہے اور معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔مسلمان معاشرے 13ویںصدی سے جس فکری جمودکا شکار ہوئے،اس کے نتیجے میں طرز پیداوار میں تبدیلی کا رجحان بھی ختم ہوگیا۔یوں معیشت کے پھیلائو اور سماجی ترقی کے تصورات بھی معدوم ہوتے چلے گئے اور نظم حکمرانی میں بہتری کاتصور بھی خواب وخیال ہوکررہ گیا۔
علم سے دوری اور ماضی کی درخشاں روایات میں گم رہنا، ان معاشروں کاوطیرہ بن گیا۔جب جہل بڑھتاہے، تو منطقی استدالال کی جگہ خودنمائی وخود سری،جب کہ تحمل اور برداشت کی جگہ جنون اور شدت پسندی اجتماعی تفاخر بن جاتی ہے۔ایسے معاشرے خود کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور تاریخ کے ارتقائی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے ماضی پر ستی اور تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوکر فکری فرسودگی میں ہوجاتے ہیں اور اپنی جہل آمادہ روش پر اصرار کرتے ہیں۔
دوسرا المیہ یہ رہاکہ ان 7سو برسوں کے دوران جو تحاریک مختلف خطوں اور علاقوں سے اٹھیں، وہ کوئی ایسا مدبر اورصاحب بصیرت قیادت پیداکرنے میں ناکام رہیں، جو ان معاشروں کو فکری جمودسے نکال کر ترقی وکامرانی کی راہ پر لگاسکتی۔ اجماع اور قیاس کے صحیح استعمال کے ذریعے انھیں عقیدت مندی کے سحرسے نکال کر زمان ومکاں کے حقائق کاادراک دے سکتیں۔ بیسویں صدی میں البتہ مسلم دنیا میںدوایسی آوازیں ابھریں،جو واضح فکرکے ساتھ جدید دنیا کے تقاضوں کا واضح ادارک رکھتی تھیں۔ان میں برصغیر میں علامہ اقبال اور ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی نے سوچ کے نئے دھارے متعارف کرائے۔
اقبال کے فکر وفلسفے کی بنیاد پر نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دینے کے بجائے ان کی شاعری کو قوالوں کے حوالے کردیا گیا۔یہی کچھ علی شریعتی کے ساتھ ہوا۔ ایرانی عوام نے ان کے فکروفلسفے اور عمرانی تصورات کو سمجھنے کے بجائے شہنشاہیت سے نجات کے لیے تھیوکریسی میں پناہ تلاش کرلی۔عرب دنیا میں انیسویں اوربیسویں صدی کے دوران جو تحاریک پیدا ہوئیں ان میں اخوان المسلمین نے ماضی پرستی کو جب کہ بعث پارٹی نے عرب قوم پرستی کواپنامحوربنالیا۔یوںمسلمانوںمیں کوئی عالمگیر اصلاحی تحریک وجود میں نہیں آسکی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ کرہ ارض پر موجود 56 مسلم ممالک کے کسی بھی حکمران،منصوبہ ساز یا سیاسی مدبر کی اولین ترجیح تعلیم نہیں ہے۔جس کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں کوئی ایسی جامعہ یا تحقیقی ادارہ نہیں ہے، جودنیا کی 10تو کجا50بڑی جامعات یا تحقیقی اداروں کی فہرست میں شامل ہو۔یہی سبب ہے کہ مسلم دنیامیں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کا معیار عالمی پیمانوں کے مطابق انتہائی پست ہے۔چنانچہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلم دنیامختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالمی معیارکے ماہرین پیدا کرنے میں ناکام ہے۔
البتہ جواہل علم اپنی ذاتی محنت اور لگن اور مغربی دنیاسے حاصل وسائل کی بنیاد پر کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں، تو انھیں ان کے اپنے ممالک میں پذیرائی تو کجا،مختلف نوعیت کے طعن وتشعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس کی ان گنت مثالیں ہیں۔خاص طورپر پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسف زئی اورمصر کے نجیب محفوظ حالیہ زمانے کی مثالیں ہیں،جنھیں ان کی تحقیق اور فروغ علم کے لیے جراتمندانہ انداز میں ڈٹ جانے پرعالمی سطح پربے پناہ پذیرائی ملی۔مگر ان کے اپنے ملکوں میںانھیںمختلف الزام تراشیوں اور قاتلانہ حملوں کا سامناکرنا پڑا۔
جہل آمادگی کے ایسے ماحول میں ترقی دوست تنظیمیںاور اہل خرد دانشور جنم نہیں لیتے،بلکہ شدت پسنداورجنونی تنظیمیں ابھرتی ہیں، جو کہیں عقیدے ومسلک کی بنیاد پر کہیں نسلی ولسانی بنیادوں پر متشدد رویوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔موقع پرست حکمران ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرکے اپنے اقتدارکوتووقتی طورپربچالیتے ہیں، لیکن سماج میں نفرت اور عصبیت کاایک ایسازہر گھول دیتے ہیں، جو دہائیوں نہیںبلکہ صدیوں تک نسل درنسل پھیلتا چلاجاتا ہے۔