بھارتی سیاست اور جنوبی ایشیا
بھارت کےچین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا عالم یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔
LONDON:
جنوبی ایشیا کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین خطے میں ہوتا ہے اس خطے کے باسیوں کی آبادی کا لگ بھگ 50 فی صد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، بھوک، بیماری، بے روزگاری، غربت، مہنگائی نے اس قوم کے عوام کی زندگی کو عذاب بناکر رکھ دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطے میں وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ عذاب عوام پر نازل ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں بے پناہ افرادی قوت موجود ہے اس کے باوجود یہاں معاشی پسماندگی کیوں ڈیرے ڈالے ہوئی ہے؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، اول یہ کہ اس خطے کے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہورہاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے اور ایشیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اختلافات، تنازعات اور بے اعتمادی کی فضا اس قدر گہری ہے کہ اس فضا نے اس خطے کی ترقی کو دھندلا دیا ہے۔
بھارت اس خطے کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے، بھارت کے چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا عالم یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور بھارت 1962 میں چین سے بھی ایک سرحدی جنگ لڑچکا ہے پاکستان کے ساتھ اس کا تنازعہ کشمیر کے حوالے سے 67 سال سے چل رہا ہے، اس تنازعے کے حوالے سے اگر ہم حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تنازعہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اس ہٹ دھرمی کی بنیادی وجہ بھارت کی فوجی طاقت کی برتری ہے جو تنازعات فوجی طاقت کی برتری کی وجہ پیدا ہوتے ہیں وہاں جمہوری اخلاقیات کا پامال ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔
بھارت کو دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہ دعویٰ کشمیر کے تنازعہ کے پس منظر میں ایک بھونڈے فریب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں اس مسئلے کا حل کشمیری عوام کے حق خود ارادی ہے لیکن جمہوری بھارت کشمیری عوام کے اس حق کو تسلیم کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ کشمیر سے اس کے سیاسی اور فوجی مفادات وابستہ ہیں۔ یعنی سیاسی مفادات اور فوجی مفادات جمہوری روایات پر حاوی ہیں، جہاں یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے وہاں جنگل کے قانون کی عملداری ہوتی ہے اور بھارت جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے چہرے پر کشمیر کوڑھ کی طرح پھیلا ہوا ہے۔
اس تنازعے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کا سلسلہ جاری ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ پر ان دو غریب ملکوں کا اربوں ڈالر کا وہ سرمایہ ضایع ہورہاہے جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، ان ملکوں کے عوام غربت کی دلدلوں سے باہر نکل آئے۔ بھارت غیر ضروری فوجی طاقت کے حصول میں اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ مغربی ملکوں روس اور اسرائیل سے اربوں ڈالر کے اسلحے کی خریداری کے علاوہ ملک کے اندر جدید ہتھیاروں کی تیاری اور تجربوں کا مسلسل سلسلہ جاری ہے ابھی اس نے ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ہے جو 4 ہزار میل تک مار کرسکتاہے اس بیلسٹک میزائل کا نام اگنی4 رکھا گیا ہے۔ اگنی ہندی میں آگ کو کہتے ہیں اور بھارت ایشیا کی من سپر پاور بننے کے جنون میں آگ سے کھیل رہا ہے۔
طاقت کی برتری کے اس گندے کھیل کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے جائز اور اصولی موقف کو تو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کشمیرکا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیاجائے۔ اس کے برخلاف وہ پاکستان کو مستقل دھمکیاں دیتا رہتا ہے اور طاقت کی برتری کے زعم میں اس مسئلے کے منصفانہ حل سے انکاری ہے اور ایک بین الاقوامی طور پر متنازعہ تسلیم کیے ہوئے علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جب کہ چین کے سرحدی تنازعے کے حوالے سے سخت موقف اختیارکرنے سے گریزاں اس لیے رہتا ہے کہ چین اس سے زیادہ طاقت ور ملک ہے۔
یہ سیاست، یہ پالیسی کسی طرح بھی نہ منصفانہ ہے نہ اصولی، نہ جمہوری، اگر پاکستان برابر کی طاقت کا ملک ہوتا تو کیا بھارت کا رویہ اسی طرح جارحانہ ہوتا؟یہ ایک ایسی چانکیہ سیاست ہے جس کی وجہ سے بھارت جنوبی ایشیا کے عوام کی خوش حالی پر ڈاکا ڈال رہا ہے۔دنیا بھر کے اہل علم، اہل دانش اور اہل سیاست بھارت کی توقیر اس حوالے سے بھی کرتے تھے کہ بھارت ایک سکیولر ملک ہے جس کی وجہ سے اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی فروغ نہیں پاسکے گی۔ لیکن جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں، بھارت کو سیکولرزم کے راستے سے ہٹاکر ایک کٹر مذہبی ریاست بنانے کی ٹھوس اور خطرناک کوشش کی جارہی ہے۔
بھارت کی تاریخ کو از سر نو لکھنے کی تیاریاں جاری ہیں جس میں بھارت کے مذہبی تشخص کو اجاگر کیا جائے گا اور بھارت پر مسلمان بادشاہوں کے دور کو نو آبادیاتی نظام ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور خطرناک ترین اقدام یہ کیا جارہاہے کہ بھارت کے درسی نصاب کو ہندو مت کے مطابق بنانے کی تیاری ہورہی ہے، ملک کے اہم ترین عہدوں پر بی جے پی کے کٹرانتہا پسندوں کو تعینات کیا جارہا ہے، بھارت کے عوام ان زہر آلود اقدامات کی وجہ سے سیکولر فکر سے دور ہوتے جائینگے جس کا نتیجہ ایشیا میں ایک ایسی انتہا پسند ریاست کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گا جو اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں مددگار ثابت ہوگی۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے یہ خطہ خاص طور پر پاکستان جس مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے، اس میں نہ صرف اور شدت آئے گی بلکہ پاکستان کی انتہا پسند طاقتیں پاکستان میں خلافت کو واپس لانے کی کوشش شروع کردیں گے جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے عوام میں پہلے سے موجود دوریاں اور نفرتیں اور بڑھیں گی۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہونے کے باوجود اس ملک کے عوام عملاً سیکولر کردار ادا کرتے رہے انھوں نے 67 سالوں کے دوران ہونے والے تمام انتخابات میں لبرل جماعتوں کو ووٹ دے کر مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکے رکھا جب کہ سیکولر ہونے کے دعویدار ملک میں اب دوسری بار بی جے پی جیسی کٹر مذہبی انتہا پسند جماعت انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی ہے، بی جے پی جو کچھ کرنے جارہی ہے اس کے نتیجے میں بھارت میں سیکولرازم کا نام لیوا ملنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ وہ خطرات ہیں جو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک نسبتاً چھوٹا اور کمزور ملک ہے لیکن ایٹمی طاقت بننے کی وجہ سے اب پاکستان فوجی طاقت کے حوالے سے بھارت کا مد مقابل ملک بن گیا ہے۔ اب تک بھارتی حکمران طبقات دنیا کو یہ کہہ کر ڈراتے رہتے تھے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں سے جوہری ہتھیار غیر محفوظ ہوگئے ہیں لیکن اب جب کہ خود بھارت میں ایک انتہائی کٹر مذہبی جماعت برسر اقتدار آگئی ہے کیا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات میں اضافہ نہیں ہوجائے گا؟
بھارت کے وہ سیکولر دانشور اور قلم کار جو سیکولر ازم ہی میں بھارت کے مستقبل کو محفوظ دیکھ رہے تھے اب سخت تشویش میں مبتلا نظر آرہے ہیں، جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زیادہ عوام جو 67 برسوں سے غربت بھوک، افلاس،بے روزگاری کے صحرائوں میں بٹک رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کی پالیسیوں سے مزید مشکلات کا شکار ہوجائیںگے کیوں کہ بھارتی پالیسیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا سلسلہ بڑھ جائے گی اور اس طاقت کی برتری کی جنگ میں دفاع پر بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ ہونے لگے گا یہ بھارت کے سیکولر دانشوروں اور میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ مودی حکومت کو ان خطرناک راستوں پر جانے سے روکیں جس کا انجام اس خطے کی تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔