ایک کانفرنس کا احوال
اگر رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایشین پارلیمنٹری اسمبلی کا علاقہ37 ملین مربع کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔
پچھلے دنوں لاہور ایشین پارلیمنٹ اجلاس کے حوالے سے بھرپور سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ اہل لاہور کو ایک ایسے اجتماع میں شمولیت کا موقعہ ملا جس کو اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد دوسرا بڑا اجتماع قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایشین پارلیمنٹری اسمبلی دنیا کے تقریباً چار ارب افراد کی نمایندگی کرتی ہے جس کے 206 قانون ساز ممبر ہیں۔ اس کے ممبران 41 ایشین اور مڈل ایسٹ کے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ دنیا کی آبادی کا نصف ہیں۔ جب کہ دنیا کی سترہ پارلیمنٹ جس میں آسٹریلیا جاپان اور ترکمانستان اس کے آبزرور ہیں۔ اگر رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایشین پارلیمنٹری اسمبلی کا علاقہ37 ملین مربع کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے جو رشین فیڈریشن سے سعودی عرب تک مغرب میں ہے تو سری لنکا اس کے جنوب اور فلپائن اس کے مشرق میں ہے۔بیرون ملک مصروفیت کی بنا پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس میں شریک نہیں ہوسکے۔
بھارت نے اپنا وفد شرکت کے لیے نہیں بھیجا۔ چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری نے جو ایشین پارلیمنٹری اسمبلی کے صدر بھی ہیں اے پی اے نمایندوں کو خوش آمدید کہا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ کانفرنس ایشیا میں جمہوریت مخالف قوتوں کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے عوام کے لیے عظیم اعزاز ہے کہ اس شاندار کانفرنس کا میزبان لاہور ہے۔ نیئر بخاری نے کہا کہ تمام نمایندوں کو چاہیے کہ ایک ایسی حکمت عملی اختیار کریںتاکہ ایشین صدی میں ایشین پارلیمنٹ کا خواب پورا ہو۔
اس تنظیم کا قیام 1999ء میں عمل میں آیا جب کہ ایشین پارلیمنٹری اسمبلی کی پیدائش 06ء میں ہوئی۔ تمام ممبر پارلیمنٹ کی نشستوں کی تعداد کا انحصار اس ملک کی آبادی پر ہوتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اے پی اے ممالک کو چاہیے کہ وہ ایشین پارلیمنٹ کے لیے یورپین یونین کو ماڈل کے طور پر سامنے رکھیں کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے کہ طاقت اور کلچر کا مرکز مغرب سے مشرق ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایشین پارلیمنٹری اسمبلی ایشیا کو امن ترقی خوشحالی کے خواب کی تعبیر بنائے۔ نیئر بخاری صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں۔
اے پی اے میں روس اور چین بھی شامل ہیں جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس کے گرد ایک مرتبہ پھر آہنی پردہ تانا جا رہا ہے، معاشی پابندیوں کی شکل میں۔ انھوں نے روسی عوام سے کہا کہ وہ سخت وقت کے لیے تیار رہیں۔ حال ہی میں روسی وزیر دفاع نے 42 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا ہے جس میں روسی اسلحہ سپلائی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ ایک طویل مدت بعد دونوں ملکوں کے تعلقات نارمل ہوئے ہیں جو 71ء کی جنگ اور سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکا کا اتحادی بننے سے خراب ہو گئے تھے۔
روسی فیڈریشن کا بڑا حصہ ایشیا میں واقعہ ہے۔ جب کہ کم حصہ یورپ میں ہے۔ جس طرح روس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے روسی بھی اپنا مستقبل ایشیاء کے ساتھ جڑا دیکھتے ہیں۔ دنیا میں طاقت کے نئے نئے مراکز وجود میں آ رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روایتی طور پر طاقت کا مرکز مغرب سے ایشیا کی طرف شفٹ کر رہا ہے۔ سرد جنگ نے جہاں اور بے شمار قباحتیں پیدا کیں وہاں ایشیا کو اپنی ٓبادی وسائل کے حوالے سے عالمی سیاست میں معیشت میں وہ جگہ نہ مل سکی جس کا وہ حقدار تھا۔ اب وہ بڑا وقت گزر گیا ہے۔ مصنوعی رکاوٹیں دور ہو چکیں۔
عالمی طاقت کا دھارا اپنے قدرتی رخ پر بہنا شروع ہوگیا ہے۔ روس چین جاپان اور آخر میں بھارت اس دھارے کے بڑے کھلاڑی ہیں، اس میں پاکستان نے بھی اپنی جگہ بنانی ہے۔ چین کو بھی امریکا کی سازشوں کا سامنا ہے ،کہا جاتا ہے کہ اس کو انڈیا کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ حال ہی میں بھارت اور چین مشترکہ جنگی مشقیں کر چکے ہیں۔
ایشین پارلیمنٹری اسمبلی کی ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین سید مشاہد حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ 21 ویں صدی انشاء اللہ ایشیا کی صدی کہلائے گی۔ آیندہ ایشیائی تقدیر کے فیصلے واشنگٹن جنیوا یا کسی اور جگہ نہیں بلکہ ایشیا میں ہوں گے۔سید مشاہد حسین صاحب کے حوالے سے میری پیش گوئی اس وقت پوری ہوئی جب وہ مشرف دور میں ہائوس اریسٹ تھے۔ مشاہد حسین ہر محفل کی جان اور باغ و بہار شخصیت ہیں۔ سادہ، فرینڈلی پر خلوص۔ انھیں لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن آتا ہے۔ ان سے ملاقات چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پر ہوئی۔
چوہدری برادران سے ملاقات کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ 97ء کی ابتدا کی بات ہے۔ انتقال اقتدار طوالت پکڑ چکا تھا۔ چوہدری شجاعت نے کہا، نقوی نوں لبھو۔ نقوی کی کہندا اے۔ اس کے بعد ملاقاتیں جاری رہیں۔ نواز شریف دور میں جب چوہدری برادران کی ملوں اور گھر پر چھاپے شروع ہوئے تو پرویز الٰہی کہنے لگے شاہ صاحب اے تے ساڈے نال مترئی ماں دا سلوک کر دے پئے نیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کی مہربانی تھی کہ وہ مجھے ٹیلیفون کرتے رہتے۔ ایک دن کہنے لگے شاہ صاحب میں ہی آپ کو ٹیلیفون کرتا ہوں۔ آپ کیوں نہیں کرتے۔
شکر ہے ایک طویل آزمائش سے نکلتے ہوئے' وقت کے بدلے ہوئے تقاضے ہمیں صحیح رستے پر لے آئے ہیں کہ پہلے ہم اپنے خطے کو فراموش کرتے ہوئے مڈل ایسٹ تک محدود تھے۔ اب ہم محدودیت سے نکل کر ایشیا کی وسعتوں میں سمانے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ وسعت ہماری ''ذہنی وسعتوں'' میں توسیع کا باعث بنے گی۔
بہر حال ہم بھی تو مجبور محض تھے کہ سرد و گرم جنگ کے تقاضوں کو سب سے زیادہ ہمیں ہی نبھانا پڑا۔ اتنا زیادہ نبھانا پڑا کہ اپنا چہرہ ہی مسخ کر بیٹھے۔ (مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی اسی کا تحفہ ہے)... اب ہم اپنی شناخت کی طرف جا رہے ہیں جس کو ہم بھولے بیٹھے تھے... اور جسے بھلانے پر ہمیں مجبور کر دیا گیا... ہم تو وہ بدقسمت (نابغے) ہیں جو برصغیر اس کی تاریخ ثقافت سے ہی ناطہ توڑ بیٹھے۔
018-017 سے 20ء تک ایشین اسمبلی کا خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
سیل فون: 0346-4527997