احسن اقبال کے عزائم
آج پاکستان کی برآمدات اگر پچیس ارب ڈالر ہیں تو ہم 2025تک اس کا گراف ڈیڑھ سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔
مسلم لیگ نون کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور پوری قوم کو ''وژن 2025''کا خواب دکھانے والے ''دور بیں'' وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے عزائم اور دعوے ایسے ہیں کہ سن کر حیرت بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔
بظاہر یہ دعوے ناممکن الحصول نظر آتے ہیں کہ ان کا دائرہ اتنا وسیع اور پُرشکوہ ہے کہ محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً وہ پورے عزم و یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ آج پاکستان کی برآمدات اگر پچیس ارب ڈالر ہیں تو ہم 2025تک اس کا گراف ڈیڑھ سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ ہے ناں ناقابلِ یقین دعوے؟ مگر جناب احسن کہتے ہیں کہ یہ دیوانے کی بَڑ نہیں، مسلم لیگ نواز کے قائد جناب محمد نواز شریف کی قیادت میں طے پانے والی منصوبہ بندی کا ایک حقیقت نامہ ہے۔
جناب احسن اقبال میاں صاحب کی زیرقیادت وطن عزیز کو ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کے متمنی ہیں۔ مگر محض تمناؤں سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب کے ایک گذشتہ دور میں بھی احسن صاحب نے ایسی ہی مستحسن تمناؤں کا اظہار کیا تھا مگر بیل منڈھے چڑھنے سے قبل ہی ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ اب انھوں نے دھاگہ پھر وہیں سے اٹھانے کا یارا کیا ہے جہاں اکتوبر 99ء کی شام ٹوٹا تھا۔
نت نئی اور خواب انگیز اصطلاحوں کی ایجاد بھی غالباً اسی لیے کی جارہی ہے۔ مثلاً سائنس فارمنگ اسکولوں کا قیام۔ ابھی ہم میاں شہباز شریف صاحب کے دانش اسکولوں کے سحر سے آزاد نہ ہوئے تھے کہ احسن اقبال صاحب ہمیں ''سائنس فارمنگ اسکول'' کی بالکل نئی اصطلاح سنانے لگے ہیں۔ احسن صاحب کا اعلان ہے کہ اس منصوبے کے تحت پاکستان بھر سے اعلیٰ ترین دماغوں کے حامل پانچ سو بچوں کا انتخاب کیا جائے گا جنھیں اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے بعد پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگریوں سے آراستہ پیراستہ کیا جائے گا۔
یہی پانچ سو طلباء و طالبات آگے چل کر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور سائنس کے میدان میں مغربی ممالک کا مقابلہ بھی کرسکیں گے۔ مَیں نے اس اصطلاح کا ذکر سنا ہے تو مَیں بذاتِ خود خوابوں اور بادلوں کی دنیا میں چلا گیا۔ اتنے بڑے منصوبے کے لیے مگر فنڈز کہاں سے آئیں گے؟جس ملک کے خزانے میں صرف تیرہ چودہ ارب ڈالر ہوں، اس ملک کا وزیرِ منصوبہ بندی اتنے بڑے بڑے دعوے کرسکتا ہے؟ احسن اقبال مگر بضد ہیں کہ ہم یہ کر دکھائیں گے۔
امریکا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہمارے یہ وفاقی وزیر احسن اقبال ملک کو ''ایشیائی ٹائیگر'' بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے شب و روز بھاگ دوڑ بھی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن ملک میں بجلی کا کال پڑا ہوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا اپنا حلقہ بھی اسی عذاب سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ''ایشیا کا ٹائیگر'' کس جنگل سے برآمد ہوگا؟
وہ میاں شہباز کی طرح امیدوں کے پُل تو استوار کررہے ہیں لیکن عوام بلبلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، زہر گزیدہ موت کے گھاٹ اتر چکا ہوگا۔ جب ملکی صنعت کا پہیہ ہی توانائی کی عدم دستیابی کے کارن منجمد ہے تو ایشیا کا ٹائیگر بننے کا خواب؟ مگر جناب احسن اقبال نہ خود مایوس ہیں اور نہ ہی دوسروں کو اس مرض میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اگلے پندرہ برسوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جن کا ثمر سمیٹنے کے لیے صبر کا دامن تھامنا بے حد ضروری ہے۔
کیا اگلے ڈیڑھ عشرے تک ان کی حکومت جاری رہے گی تاکہ ان کی وضع کردہ پالیسیاں بھی بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھتی رہیں؟اس کی ضمانت کون فراہم کرے گا؟ چوہدری پرویز الٰہی صاحب شکوہ کررہے ہیں کہ ہماری حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحبان نے ہماری وضع کردہ پالیسیاں بھی ختم کردیں اور ہمارے زیرتعمیر منصوبے بھی روک دیے۔ اب اگر مسلم لیگ نون کا اقتدار پانچ سال کے بعد بھی ختم ہوجاتا ہے تو آیندہ دس برسوں کی ضمانت کون دے گا تاکہ ن لیگ کے منصوبے تکمیل کے مراحل طے کرسکیں؟ کسی نے اگلے دو تین عشروں کی حکومت بھی کسی کے حق میں بیع تو نہیں کردی؟
لیکن احسن اقبال کے عزائم اتنے بلند پرواز ہیں کہ انھیں پورا تیقن ہے کہ انشاء اللہ ان کے طے کردہ منصوبے اپنی آخری منزل سے ہمکنار ضرور ہوں گے۔ وہ بنیادی طور پر مکینیکل انجینئر ہیں اور مشرقِ بعید کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی مکینکس سے خوب آگاہ بھی۔ ان کا اصرار ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار نہ رہے گا تو وطنِ عزیز کی ترقی کا پہیہ بھی پوری طرح حرکت میں نہیں آسکے گا۔
اگر ان کے باس ترکی اور چین کی ترقی سے بے حد متاثر ہیں تو احسن اقبال جنوبی کوریا کی برق رفتار ترقی کو آئیڈیل بنائے بیٹھے ہیں۔ جنوبی کوریا میں مروّج ایک محاورہ آج کل ان کی زبان کا ورد ہے: ''سخت محنت اور صبر کے بعد ہی خوشی ملتی ہے۔''
اپریل 2014کے وسط میں جنوبی کوریا کے وزیراعظم پاکستان تشریف لائے تو احسن اقبال ان سے ملاقات کے دوران یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ جنوبی کوریا جس کے ایک شہری کی سالانہ آمدنی 1960ء میں صرف 80ڈالر تھی، آج 2014ء میں تیس ہزار ڈالر سالانہ کیسے ہوگئی؟اور وہ جنوبی کوریا جس کی ساٹھ کے عشرے میں برآمدات صرف پچاس ملین ڈالر تھیں، آج 2014ء میں پانچ سو ساٹھ ارب ڈالر کیسے ہوگئیں؟ احسن اقبال کا خواب اور کوشش ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اگر سالانہ تیس ہزار ڈالر کما نہیں سکتا تو کم از کم پندرہ ہزار ڈالر سالانہ کمانے کے قابل تو ہوسکے۔
میرا خیال ہے کہ جناب احسن اقبال کے دل و دماغ کے کسی کونے میں یہ خواہش اور تمنا موجزن ہے کہ مسلم لیگ نواز کو مسلسل اگلے تین عشروں تک حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ گذشتہ دنوں ایک انگریزی معاصر میں ان کا جو ایک مفصل آرٹیکل Lessons From Korea کے عنوان سے شایع ہوا ہے، اس کے بین السطور اسی خواہش کے عکاس ہیں۔
ملک کو پائیدار ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے ان کا استدلال یہ ہے کہ وزیراعظم ڈینگ ژیاؤ پنگ کو چین کو ترقی دینے کے لیے مسلسل بیس سال لگ گئے، کوریا کے صدر مسٹر پارک کو مسلسل سترہ سال ملے، ڈاکٹر مہاتیر محمد نے حکومت میں مسلسل بائیس سال گزار کر ملائیشیا کو آسمان تک پہنچا دیا، لی کوانگ اقتدار میں مسلسل 31سال رہے تب جاکر سنگا پور جدید اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوا اور طیب اردوان کو بھی اقتدار میں آئے ڈیڑھ عشرہ ہوچلا ہے اسی لیے ترکی بھی ترقی میں زقندیں بھر رہا ہے۔
احسن اقبال صاحب نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ مثالیں دینے کے پس منظر میں ان کی یہ خواہش کارفرما ہوسکتی ہے کہ نواز شریف کو بھی اتنے ہی برس اقتدار میں رہنا چاہیے پھر پاکستان ترقی کرے گا۔ یہ خواہش بری ہے نہ غیر شرعی۔ اس کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ ممکن ہے وہ کامیاب بھی ہوجائیں لیکن یہ بھی جاننا بے حد ضروری ہے کہ ڈینگ ژیاؤپنگ، مسٹر پارک، مہاتیر محمد، لی کوانگ اور طیب اردوان بننے کے لیے بڑی ہی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
پروفیسر چوہدری احسن اقبال صاحب اپنی شخصیت کی مانند دلکش گفتگو کرتے ہیں۔ اپنے سننے والوں پر جادو کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہائی ویز اور موٹر ویز کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک سو بائیس ارب کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ یہ ایک شاندار اور دلکش اعلان ہے۔ اس پر عمل ہوگا تو لاتعداد لوگ مستفید ہوں گے لیکن ان کے اپنے حلقے کے عوام اور ان کے ووٹر یہ بھی گزارشات کرتے ہوئے ہمیں سنائی دے رہے ہیں کہ انھیں مریدکے سے نارووال اور پسرور سے نارووال آنے جانے والی ادھڑی اور پسلی توڑ سڑکوں پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ جو ایک بار اس پر سفر کرلیتا ہے، اس کی گاڑی کا انجر پنجر تو ہل ہی جاتا ہے، پسلیاں اور ریڑھ کی ہڈی بھی سلامت نہیں رہتی۔
کیا وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب احسن اقبال اپنے ووٹروں کی فریاد سن رہے ہیں؟ ملک بھر کی تعمیر و ترقی کے لیے ان کے بلند عزائم و آدرش میں کیا یہ عزم بھی شامل ہوسکتا ہے کہ وہ ان مذکورہ دونوں سڑکوں کی تعمیرِ نو کے لیے کوئی برق رفتار حکم جاری فرما سکیں؟ خدا کرے ان کے ووٹروں کی یہ استدعا ہمارے الفاظ کی شکل میں ان تک پہنچ سکے کہ ووٹر ہی جناب احسن اقبال کی طاقت و اقتدار کا اصل سرچشمہ ہیں۔