خوابوں کا بیوپاری
غالب نے ہزاروں خواہشیں کہا تھا کہ ہر ایک پر دم نکلتا ہے تو یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوتا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ خواب تب دیکھے جاسکتے ہیں جب نیند آجائے۔ یہ پہلے کی بات تھی۔ اب کہتے ہیں کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو آنکھ لگنے پر آتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے۔ اب دیکھیے کہ ایک لڑکے، وکیل، سیاستدان، عالم، لڑکی، تاجر، کالم نگار، اینکر پرسن کے خواب وقت کے ساتھ کس طرح بدلتے ہیں۔
ایک لڑکا چوتھی کلاس میں ہو سیکنڈری میں جانے کے سپنے دیکھتا ہے۔ آٹھویں کلاس میں ہوتا ہے تو بورڈ کا امتحان دینے کی آرزو کرتا ہے۔ میٹرک میں آتا ہے تو کالج کے خواب دیکھتا ہے۔ گریجویشن کرے تو کالاکوٹ پہننے کی خواہش کرتا ہے۔ وکیل بن جائے تو عدالت سے مخاطب ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ پورا ہوجائے تو گواہ پر جرح کرنے کی تمنا کرتا ہے۔ یہ خواہش پوری ہوجائے تو ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی آرزو کرتا ہے۔ یہ سب ہوجائے تو چاہتا ہے کہ اس کے مقدمات قانونی رسالوں میں رپورٹ ہوں۔ یہ سب کچھ مل جائے تو سپریم کورٹ کے فل بنچ سے اپنا نام عزت سے پکارے جانے کی خواہش کرتا ہے۔
سیاستدان ہو تو کونسلر سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر کا حلف اٹھانے کا خواب دیکھتا ہے۔ وزیر، گورنر، صدر اور وزیر اعظم بننے کی تمنا کرتا ہے۔ مدرسے میں پڑھتا ہے تو حفظ کے بعد عالم اور پھر مفتی بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ لڑکی گڈے گڑیوں کے بیاہ رچاتے رچاتے بڑی ہوجائے تو سپنوں کے شہزادے کی تمنا کرتی ہے۔ دلہن کا جوڑا پہننے کے بعد ماں بننے کی آرزو کرتی ہے۔ بچے کو اسکول سے کالج اور پھر اس کے سر پر سہرا سجانے کی تمنا کرتی ہے۔ بہو آجائے تو پوتے پوتیوں کے خواب۔ بالکل بزرگ ہوجائے تو نواسے نواسیوں کے گھر بستے دیکھ کر دنیا سے جانے کی بات کرتی ہے۔
ایک دکان ہو تو دوسری اور تیسری کے بعد کارخانہ اور پھر چوتھے اور پانچویں کارخانے کی آرزو اور یوں گروپ آف انڈسٹریز کا سربراہ بننے کا خواب۔ لکھنے لکھانے کا شوق ہو تو اخبار میں مراسلہ چھپ جانے کا خواب۔ وہ پورا ہوجائے تو طالب علموں، خواتین اور اسپورٹس کے صفحات پر مضامین لکھنے کی تمنا۔ سیاست سے دلچسپی ہو تو ادارتی صفحے پر کالم لکھنے کی آرزو۔ وہ پوری ہوجائے تو مستقل لکھنے اور تصویر شایع ہونے کا خواب۔ غالب نے ہزاروں خواہشیں کہا تھا کہ ہر ایک پر دم نکلتا ہے تو یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوتا ہوگا۔ رات کو یہی خواہشیں خوابوں کی شکل میں سامنے آتی ہوں گی۔
کوئی پرنٹ میڈیا میں ہو تو الیکٹرانک میڈیا میں جانے کی تمنا۔ ہفتے میں تین چار مرتبہ قارئین کے سامنے اخبار میں کالم اور اتنی ہی مرتبہ ناظرین کے سامنے ٹی وی اسکرین پر۔ یہ خواب پورا ہو تو بڑے لوگوں سے انٹرویو کی تمنا۔ ملک کے صدر اور وزیر اعظم دسترس میں ہوں تو کسی غیر ملکی سربراہ سے ملاقات کی مشتاقی اور وہ پوری ہوجائے تو کسی سپرپاور کے سربراہ سے دھماکا خیز انٹرویو۔ یہ سب چھوٹے لوگوں کے خواب ہیں۔ اب ہم تین بہت ہی بڑے لوگوں کے خوابوں کی بات کریں گے اور اس کے بعد چھ۔ جی ہاں چھ بڑے آدمیوں کے سپنوں اور آخر میں نئی صدی کے کچھ لوگ۔
باپ نے خواب دیکھا کہ اسے پیغام دیا جا رہا ہے کہ اپنی قیمتی ترین شے(متاع) کو قربان کرو۔ یہ پیغمبر کا خواب تھا جو سچا ہوتا ہے اور تعمیل لازمی ہوتی ہے۔ اسمٰعیل ؑ آداب فرزندی سے واقف تھے اور چوں چرا نہ کی۔ قدرت نے شاباش دی اور ابراہیم ؑ کو امتحان میں کامیابی کی خبر سنائی۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب دیکھا اور اپنے والد حضرت یعقوب ؑ کو سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج انھیں سجدہ کر رہے ہیں۔ اس سجدہ تعظیمی یا نیاز مندی کی تعبیر تب ملی جب حضرت یوسف ؑ مصر کی بااختیار شخصیت بنے۔ سورج کا مطلب ان کے والد اور چاند کا مطلب والدہ جب کہ گیارہ ستارے ان کے بھائی تھے۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں۔ طواف کریں گے، بال کٹوائیں گے اور عمرہ ادا کریں گے۔ مشرکین نے مکے میں داخل نہیں ہونے دیا اور چھ ہجری میں ''صلح حدیبیہ'' ہوئی۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن رب نے اسے فتح مبین قرار دیا۔ اگلے سال خواب کی تعبیر ملی اور اگر 8 ہجری میں مدینے سے مکے کی جانب فاتحانہ سفر نہ ہوتا تو نہ جانے ہم مسلمان بھی ہوتے؟ یہ بہت ہی بڑے لوگوں کے خواب تھے۔ کچھ لوگ وسط میں ہوتے ہیں۔ نہ اتنے چھوٹے اور نہ اتنے بڑے۔
گاندھی جی نے آزادی اور قائد اعظم نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ دونوں اپنے اپنے مقصد پر جمے رہے اور کامیاب ہوئے۔ ماؤ اور منڈیلا نے بھی وہ خواب دیکھے جو نا ممکن لگتے تھے۔ کمال اتاترک اور امام خمینی آزادی نہیں بلکہ اپنے ملک کا نظام بدلنا چاہتے تھے اور اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ یہ چھ رہنما پچھلی صدی کے عظیم لوگ تھے۔ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں غلام قوموں کو غلامی نظر آتی تھی کہ ان کے ملک پر کوئی وائسرائے حکومت کر رہا ہوتا۔ دوسرے حصے میں نظر نہ آنے والی غلامی کہ ان کا وطن گوروں کی ہدایات پر چلتا۔ نئی صدی میں قوموں کے مسائل کچھ ہیں اور تو خواب بھی کچھ اور ہیں۔
حل دو ہیں تو سپنے بھی دو ہیں۔ گاندھی، جناح، ماؤ، منڈیلا، کمال اور خمینی کا دور ختم ہوا تو استحصال کے نئے رنگ سامنے آئے۔ اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گرائیں تو خواب بھی الگ ہوں گے اور ان کی تعبیر بھی مختلف ہوگی۔ لوٹ مار اور کرپشن کے وہ انداز کہ الامان۔ شہنشاہ ایران، مارکوس، قذافی اور مبارک کی کہانیوں نے ظاہر کیا کہ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی اپنا بچہ سمجھتے تھے۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسے لیڈر سامنے لائے جائیں جو پوری قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر خواب دیکھیں۔ جب صدی بدلتی ہے تو ہم بھی گفتگو کا انداز بدلتے ہیں۔
خوشحال لوگ مزاح کرتے ہیں اور جبر کے مارے طنز کرتے ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مقالے ''اردو ادب میں طنز و مزاح'' میں کہی ہے۔اسی طرح آقا اور غلام قوموں کا رویہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں آزادی کے مزے لوٹنے والی قومیں آج خوشحالی کے مزے لے رہی ہیں۔ یہ مکمل سچ ہے۔ پچھلی صدی غلامی میں گزارنے والی اقوام بھوک، ننگ، جہالت اور بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ ادھورا سچ ہے۔
کیوں؟ اس لیے کہ ملائیشیا، کوریا، ترکی اور چین غربت کے صحرا سے نکل کر خوشحالی کے جزیرے پر اتر گئے ہیں۔ اس لیے کہ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسے قائدین نے خواب دیکھے۔ وہ ڈریم سیلر بنے۔ اپنے ملک کو قوموں کی برادری میں ایک مقام دلانے کا خواب دیکھنے کے لیے انھوں نے خیالی پلاؤ پکایا۔ یوں سمجھیں کہ دیوانوں نے سپنے دیکھے۔ وہ کون سا بڑا خواب ہوتا ہے جس کا مذاق نہیں اڑایا جاتا؟
مہاتیر محمد اور طیب اردگان نے جانا کہ بظاہر آزاد لیکن نیند میں سوئی ہوئی اقوام کے دو مسائل ہوتے ہیں۔ کرپشن اور بے خوابی۔ طاقتور طبقے اپنی لوٹ مار سے نجات کا کوئی خواب نہیں دیکھنے دیتے۔ پہلے اکیلے مہاتیر اور اردگان نے قوم کو خواب دکھایا اور پھر جانب منزل چلے تو لوگ ملتے گئے اور کارواں کی مدد سے خوشحالی کی شاہراہ پر چل دیے۔ خوابوں کی تعبیر کے لیے نیند سے بیدار کیا گیا۔
مذاق اڑانے والوں کو سائنسدانوں کے خوابوں کی مثالیں دی گئیں۔ ہوائی جہاز، ٹیلی فون اور ریڈیو کی ایجادات خواب ہی تھیں۔ خسرہ، چیچک اور پولیو سے دنیا کو پاک کرنے کے سپنے، سپنے ہی تو تھے۔ امریکا کی دریافت اور قسطنطنیہ کی فتح خواب ہی تو تھے۔ تیسری دنیا کی تیز رفتار ترقی ایک خواب ہی تھی۔ جب قوم نے قائدین کے خواب خریدے تو کیا ہوا؟
تعبیر یہ ملی کہ ملائیشیا اور ترکی اپنی فی کس آمدنی چند سو سے کئی ہزار ڈالر تک لے گئے۔ کوریا ہم سے سیکھنے آیا تھا اور اب ہمیں بہت کچھ اس سے سیکھنا پڑے گا۔ چین نے اپنے چالیس کروڑ لوگوں کو غربت کی سطح سے اوپر اٹھادیا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی انتخابی کامیابی بھی ایک خواب کی تعبیر کی خاطر ہے۔ ہمیں بھی ایسے کھلاڑی کی ضرورت ہے جو خوابوں کا بیوپاری ہو۔ تعبیر ہمیں تب ملے گی جب ہم خواب دیکھیں گے۔ یہ سپنے آنکھ لگنے پر پورے نہیں ہوں گے بلکہ تعبیر تب ملے گی کہ خواب ہمیں سونے نہ دیں۔ ایسے خوابوں کے لیے ہمیں کوئی ڈریم سیلر درکار ہے۔ ہمیں ایسا شخص چاہیے جو ہو خوابوں کا بیوپاری۔
ایک لڑکا چوتھی کلاس میں ہو سیکنڈری میں جانے کے سپنے دیکھتا ہے۔ آٹھویں کلاس میں ہوتا ہے تو بورڈ کا امتحان دینے کی آرزو کرتا ہے۔ میٹرک میں آتا ہے تو کالج کے خواب دیکھتا ہے۔ گریجویشن کرے تو کالاکوٹ پہننے کی خواہش کرتا ہے۔ وکیل بن جائے تو عدالت سے مخاطب ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ پورا ہوجائے تو گواہ پر جرح کرنے کی تمنا کرتا ہے۔ یہ خواہش پوری ہوجائے تو ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی آرزو کرتا ہے۔ یہ سب ہوجائے تو چاہتا ہے کہ اس کے مقدمات قانونی رسالوں میں رپورٹ ہوں۔ یہ سب کچھ مل جائے تو سپریم کورٹ کے فل بنچ سے اپنا نام عزت سے پکارے جانے کی خواہش کرتا ہے۔
سیاستدان ہو تو کونسلر سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر کا حلف اٹھانے کا خواب دیکھتا ہے۔ وزیر، گورنر، صدر اور وزیر اعظم بننے کی تمنا کرتا ہے۔ مدرسے میں پڑھتا ہے تو حفظ کے بعد عالم اور پھر مفتی بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ لڑکی گڈے گڑیوں کے بیاہ رچاتے رچاتے بڑی ہوجائے تو سپنوں کے شہزادے کی تمنا کرتی ہے۔ دلہن کا جوڑا پہننے کے بعد ماں بننے کی آرزو کرتی ہے۔ بچے کو اسکول سے کالج اور پھر اس کے سر پر سہرا سجانے کی تمنا کرتی ہے۔ بہو آجائے تو پوتے پوتیوں کے خواب۔ بالکل بزرگ ہوجائے تو نواسے نواسیوں کے گھر بستے دیکھ کر دنیا سے جانے کی بات کرتی ہے۔
ایک دکان ہو تو دوسری اور تیسری کے بعد کارخانہ اور پھر چوتھے اور پانچویں کارخانے کی آرزو اور یوں گروپ آف انڈسٹریز کا سربراہ بننے کا خواب۔ لکھنے لکھانے کا شوق ہو تو اخبار میں مراسلہ چھپ جانے کا خواب۔ وہ پورا ہوجائے تو طالب علموں، خواتین اور اسپورٹس کے صفحات پر مضامین لکھنے کی تمنا۔ سیاست سے دلچسپی ہو تو ادارتی صفحے پر کالم لکھنے کی آرزو۔ وہ پوری ہوجائے تو مستقل لکھنے اور تصویر شایع ہونے کا خواب۔ غالب نے ہزاروں خواہشیں کہا تھا کہ ہر ایک پر دم نکلتا ہے تو یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوتا ہوگا۔ رات کو یہی خواہشیں خوابوں کی شکل میں سامنے آتی ہوں گی۔
کوئی پرنٹ میڈیا میں ہو تو الیکٹرانک میڈیا میں جانے کی تمنا۔ ہفتے میں تین چار مرتبہ قارئین کے سامنے اخبار میں کالم اور اتنی ہی مرتبہ ناظرین کے سامنے ٹی وی اسکرین پر۔ یہ خواب پورا ہو تو بڑے لوگوں سے انٹرویو کی تمنا۔ ملک کے صدر اور وزیر اعظم دسترس میں ہوں تو کسی غیر ملکی سربراہ سے ملاقات کی مشتاقی اور وہ پوری ہوجائے تو کسی سپرپاور کے سربراہ سے دھماکا خیز انٹرویو۔ یہ سب چھوٹے لوگوں کے خواب ہیں۔ اب ہم تین بہت ہی بڑے لوگوں کے خوابوں کی بات کریں گے اور اس کے بعد چھ۔ جی ہاں چھ بڑے آدمیوں کے سپنوں اور آخر میں نئی صدی کے کچھ لوگ۔
باپ نے خواب دیکھا کہ اسے پیغام دیا جا رہا ہے کہ اپنی قیمتی ترین شے(متاع) کو قربان کرو۔ یہ پیغمبر کا خواب تھا جو سچا ہوتا ہے اور تعمیل لازمی ہوتی ہے۔ اسمٰعیل ؑ آداب فرزندی سے واقف تھے اور چوں چرا نہ کی۔ قدرت نے شاباش دی اور ابراہیم ؑ کو امتحان میں کامیابی کی خبر سنائی۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب دیکھا اور اپنے والد حضرت یعقوب ؑ کو سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج انھیں سجدہ کر رہے ہیں۔ اس سجدہ تعظیمی یا نیاز مندی کی تعبیر تب ملی جب حضرت یوسف ؑ مصر کی بااختیار شخصیت بنے۔ سورج کا مطلب ان کے والد اور چاند کا مطلب والدہ جب کہ گیارہ ستارے ان کے بھائی تھے۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں۔ طواف کریں گے، بال کٹوائیں گے اور عمرہ ادا کریں گے۔ مشرکین نے مکے میں داخل نہیں ہونے دیا اور چھ ہجری میں ''صلح حدیبیہ'' ہوئی۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن رب نے اسے فتح مبین قرار دیا۔ اگلے سال خواب کی تعبیر ملی اور اگر 8 ہجری میں مدینے سے مکے کی جانب فاتحانہ سفر نہ ہوتا تو نہ جانے ہم مسلمان بھی ہوتے؟ یہ بہت ہی بڑے لوگوں کے خواب تھے۔ کچھ لوگ وسط میں ہوتے ہیں۔ نہ اتنے چھوٹے اور نہ اتنے بڑے۔
گاندھی جی نے آزادی اور قائد اعظم نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ دونوں اپنے اپنے مقصد پر جمے رہے اور کامیاب ہوئے۔ ماؤ اور منڈیلا نے بھی وہ خواب دیکھے جو نا ممکن لگتے تھے۔ کمال اتاترک اور امام خمینی آزادی نہیں بلکہ اپنے ملک کا نظام بدلنا چاہتے تھے اور اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ یہ چھ رہنما پچھلی صدی کے عظیم لوگ تھے۔ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں غلام قوموں کو غلامی نظر آتی تھی کہ ان کے ملک پر کوئی وائسرائے حکومت کر رہا ہوتا۔ دوسرے حصے میں نظر نہ آنے والی غلامی کہ ان کا وطن گوروں کی ہدایات پر چلتا۔ نئی صدی میں قوموں کے مسائل کچھ ہیں اور تو خواب بھی کچھ اور ہیں۔
حل دو ہیں تو سپنے بھی دو ہیں۔ گاندھی، جناح، ماؤ، منڈیلا، کمال اور خمینی کا دور ختم ہوا تو استحصال کے نئے رنگ سامنے آئے۔ اپنے ہی نشیمن پر بجلیاں گرائیں تو خواب بھی الگ ہوں گے اور ان کی تعبیر بھی مختلف ہوگی۔ لوٹ مار اور کرپشن کے وہ انداز کہ الامان۔ شہنشاہ ایران، مارکوس، قذافی اور مبارک کی کہانیوں نے ظاہر کیا کہ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی اپنا بچہ سمجھتے تھے۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسے لیڈر سامنے لائے جائیں جو پوری قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر خواب دیکھیں۔ جب صدی بدلتی ہے تو ہم بھی گفتگو کا انداز بدلتے ہیں۔
خوشحال لوگ مزاح کرتے ہیں اور جبر کے مارے طنز کرتے ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مقالے ''اردو ادب میں طنز و مزاح'' میں کہی ہے۔اسی طرح آقا اور غلام قوموں کا رویہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں آزادی کے مزے لوٹنے والی قومیں آج خوشحالی کے مزے لے رہی ہیں۔ یہ مکمل سچ ہے۔ پچھلی صدی غلامی میں گزارنے والی اقوام بھوک، ننگ، جہالت اور بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ ادھورا سچ ہے۔
کیوں؟ اس لیے کہ ملائیشیا، کوریا، ترکی اور چین غربت کے صحرا سے نکل کر خوشحالی کے جزیرے پر اتر گئے ہیں۔ اس لیے کہ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسے قائدین نے خواب دیکھے۔ وہ ڈریم سیلر بنے۔ اپنے ملک کو قوموں کی برادری میں ایک مقام دلانے کا خواب دیکھنے کے لیے انھوں نے خیالی پلاؤ پکایا۔ یوں سمجھیں کہ دیوانوں نے سپنے دیکھے۔ وہ کون سا بڑا خواب ہوتا ہے جس کا مذاق نہیں اڑایا جاتا؟
مہاتیر محمد اور طیب اردگان نے جانا کہ بظاہر آزاد لیکن نیند میں سوئی ہوئی اقوام کے دو مسائل ہوتے ہیں۔ کرپشن اور بے خوابی۔ طاقتور طبقے اپنی لوٹ مار سے نجات کا کوئی خواب نہیں دیکھنے دیتے۔ پہلے اکیلے مہاتیر اور اردگان نے قوم کو خواب دکھایا اور پھر جانب منزل چلے تو لوگ ملتے گئے اور کارواں کی مدد سے خوشحالی کی شاہراہ پر چل دیے۔ خوابوں کی تعبیر کے لیے نیند سے بیدار کیا گیا۔
مذاق اڑانے والوں کو سائنسدانوں کے خوابوں کی مثالیں دی گئیں۔ ہوائی جہاز، ٹیلی فون اور ریڈیو کی ایجادات خواب ہی تھیں۔ خسرہ، چیچک اور پولیو سے دنیا کو پاک کرنے کے سپنے، سپنے ہی تو تھے۔ امریکا کی دریافت اور قسطنطنیہ کی فتح خواب ہی تو تھے۔ تیسری دنیا کی تیز رفتار ترقی ایک خواب ہی تھی۔ جب قوم نے قائدین کے خواب خریدے تو کیا ہوا؟
تعبیر یہ ملی کہ ملائیشیا اور ترکی اپنی فی کس آمدنی چند سو سے کئی ہزار ڈالر تک لے گئے۔ کوریا ہم سے سیکھنے آیا تھا اور اب ہمیں بہت کچھ اس سے سیکھنا پڑے گا۔ چین نے اپنے چالیس کروڑ لوگوں کو غربت کی سطح سے اوپر اٹھادیا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی انتخابی کامیابی بھی ایک خواب کی تعبیر کی خاطر ہے۔ ہمیں بھی ایسے کھلاڑی کی ضرورت ہے جو خوابوں کا بیوپاری ہو۔ تعبیر ہمیں تب ملے گی جب ہم خواب دیکھیں گے۔ یہ سپنے آنکھ لگنے پر پورے نہیں ہوں گے بلکہ تعبیر تب ملے گی کہ خواب ہمیں سونے نہ دیں۔ ایسے خوابوں کے لیے ہمیں کوئی ڈریم سیلر درکار ہے۔ ہمیں ایسا شخص چاہیے جو ہو خوابوں کا بیوپاری۔