سرمایہ دارانہ نظام کی اندھی تقلید…
آج ہر سیاستدان یہ نعرہ لگاتا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ یہ نوبت آئی کیسے؟
بدقسمتی کیا ہوتی ہے ، یہ کوئی پاکستانیوں سے پوچھے ۔ آج ہر سیاستدان یہ نعرہ لگاتا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ یہ نوبت آئی کیسے ؟بس اتنا کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے کہ یہ سارا کیا دھرا پچھلی حکومتوں کا ہے مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے ۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے والی تمام جماعتیں حیرت انگیز طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتی ہیں ، لیکن شاید انھیں اتنا بھی نہیں پتا کہ یہ نظام ہی اصل میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔
پاکستان میں ہر حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کو اپنی معاشی پالیسیوں میں رہبرورہنما کی حیثیت دیتی ہے ۔ اسی طرح پرائیویٹائزیشن پچھلے بیس سالوں سے ہر حکومت کی دلی خواہش رہی ہے ۔ سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسا اقدامات اٹھانا جن کی وجہ سے عوام پر معاشی بوجھ پڑے ، پانی و بجلی ،گیس جیسے شعبے جن کا عوام سے براہ راست تعلق ہے ، انھیں کمائی کا ذریعہ سمجھ کر عوام کی کمر توڑ دینا ، جیسے اقدامات بھی ہر عوامی حکومت نے اٹھائے۔
یہاں ایک بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کے سرمائے کے تحفظ کو مرکزی نکتہ مان کر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔اور عوامی مفاد پہلی کے بجائے دوسری ترجیح ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں کہا یہ جاتا ہے کہ سرمایہ دار کے ہاتھ مضبوط کرکے یہ روزگار کے مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں اور ملکی ترقی کا پہیہ چلایا جاسکتا ہے ۔ تاہم پچھلی ایک صدی میں اس نظام سے عوام کو کتنا فائدہ پہنچا یہ سب نے دیکھا۔
خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں عوام کی حالت تو روز بروز پتلی سے پتلی ہوتی جا رہی ہے، حتی کہ ترقی یافتہ ملکوں میں صنعتی ترقی نے جہاں ایک عرصے تک سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں پر پردہ ڈالے رکھا، اب وہاں بھی عوام کو احساس ہوچلا ہے کہ اس غیر منصفانہ نظام میں اس کی حیثیت مشین کے پرزے سے زیادہ نہیں رہی، چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف 1999 میں امریکا سے باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوا، اور واشنگٹن اورسیاٹل میں ہوئے زبردست مظاہروں نے امریکی پالیسی سازوں کو سچ مچ حیران کردیا۔ امریکا میں سوال اٹھنے لگے یہ تحریک کیسے شروع ہوگئی؟ اس کے پیچھے کون ہے ؟
اکتوبر 2011میں بھی نیویارک میں اس تحریک کو نیا رنگ ملا۔ وال اسٹریٹ سے شروع ہونیوالے مظاہرے یورپ اور ایشیا تک پھیل گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نیویارک ،لندن، فرینکفرٹ، برلن، پیرس، میڈرڈ، روم، ایتھنز، میکسیکو، سڈنی،ٹوکیو، منیلا،ہانگ کانگ سمیت متعدد شہروں میں لاکھوں لوگ سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
ان مظاہروں سے تو امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے دماغ کی چولیں ہل گئیں،انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ دس سال پہلے سوویت یونین کے ٹکڑے کرکے بے فکری کی جو بانسری وہ بجا رہے تھے۔وہ ان کی ناسمجھی تھی۔ انھوں نے یک لخت محسوس کرلیا کہ اصل خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے،باہر کی دنیا کا تو وہ بیڑہ ہمیشہ سے غرق کرتے آئے تھے،مگر اندر کا کیا کیا جائے؟، سوال گھمبیر تھا۔
1999 میں ہی امریکی پالیسی سازوں نے اس تحریک کا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا میں صدر کلنٹن اپنے آخری سالوں کو انجوائے کر رہے تھے۔ ایک سال قبل انھوں نے یعنی 1998، میں عراق پر ''مختصر'' لیکن موثر جارحیت کی تھی،اور ایک ماہ میں ملک کا انفرا اسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان دنوں صدام حسین کی حکومت بہرحال قائم تھی۔امریکا کا یہ عراق پر اس کے کل تین حملوں میں سے اس وقت دوسرا حملہ تھا۔
ان دنوں امریکا اور یورپ میں ہر ویک اینڈ پر تمام بڑے شہروں میں لاکھوں کا مجمع عام بات ہوگئی تھی،ماہرین حیران تھے کہ جب سوویت یونین ''زندہ ''تھا تو وہ دنیا بھر کی سوشلسٹ تحریکوں فنڈنگ کرتا تھا مگر اس دور میں بھی اس پیمانے کی تحریکیں سامنے نہیں آسکی تھیں۔
کافی غوروخوض کے بعد امریکی اور یورپی پالیسی سازوں نے عوامی سوچ کا رخ موڑنے کے لیے القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا، منصوبہ بندی کے تحت القاعدہ کو اتنی ڈھیل دی گئی کہ وہ نائن الیون جیسا حملہ کرسکے،عراق پر حتمی حملے کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی گئی تھی۔
دنیا میں سرمایہ دارانہ نطام کے خلاف اٹھنے والی ان تحریکوں کا بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی اثر نظر نہیں آیا ، حتی کہ پاکستان میں تو اخبارات اور ٹی وی پر ان خبروں کو مناسب جگہ بھی نہیں مل سکی ۔تھوڑی بہت اگر جگہ ملی بھی تو خبر کی اہمیت کو سمجھے بغیر اسے مظاہرہ کہہ کر نمٹا دیا گیا ۔
نوے کی دہائی میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے نج کاری پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے خلاف چند مزدور یونینوں نے آواز اٹھائی ، تاہم کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی واضح موقف نہیں اپنایا۔البتہ سیاسی مخالفت نبھانے کے لیے نج کاری کے خلاف بیانات ضرور آتے رہے لیکن کوئی تحریک نہیں چلی ۔
سن دو ہزار کی دہائی میں ملک نے معاشی ترقی کا نیا انداز دیکھا ۔اس دور میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعے بڑھے اورفی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ۔وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی ، تاہم نج کاری کی انھیں بھی بہت جلدی تھی ، انھوں نے بھی ملک کو سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے چھڑانے کے بجائے ، اس نظام کو جدید اور مغربی طرز کا بنانے کی کوشش کی ۔
تاہم 2008 کے بعد نئی حکومت نے ملک میں شوکت عزیز کی اصلاحات کو مسترد کرکے نئے معاشی انداز سے ملک چلانے کی کوششیں کیں ۔اس دور میں بیڈ گورننس کا دور دورہ ہوتا دیکھا گیا۔ منافع دینے والے پی آئی اے ، ریلوے اور اسٹیل ملز تباہ ہوگئے۔ کرپشن اور رشوت خوری نے عوامی مفادات کا جنازہ نکال دیا ۔بجلی گیس اور اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں سوفیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن یہ سلسلہ 2013 کے بعد نئی شکل اختیار کرگیا ، نئی حکومت نے آئی ایم ایف سے مہنگے ترین معاہدے کیے ، بجلی گیس پٹرول اور سبسڈیز ختم کرنے کی شرائط تسلیم کرلیں ، بجلی کی قیمت میں ایک سال میں اس قدر اضافہ کیا گیا، جتنا گزشتہ 67 سال میں نہیں ہوا۔
اس صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں تو سیاسی قیادت کو شاید متبادل معاشی نظام کا پتا ہی نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کو بد سے بدتر بنا کر عوام پر مسلط کیا جارہا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں جو صرف ایک ہزار لوگوں کی ملکیت ہیں، وہ دنیا کے 80 فیصد سرمائے پر قابض ہیں، اسے مزید سادہ لفظوں میں بیان کیاجائے تو یہ کہا جاسکتا ہے۔کہ ایک ہزار لوگوں کی دولت دنیا کے چار ارب کم آمدنی والے لوگوں کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ اس سماجی فرق کے اثرات گزشتہ دہائی میں جاری عالمی معاشی بحران کی وجہ سے مزید گہرے ہوئے۔ اور عام مغربی باشندے کے ذہن میں اب یہ بات جڑ پکڑ چکی ہے کہ ویک اینڈ ہنسی خوشی منانے کے بعد اس کے پلے کچھ بچتا نہیں ہے اور ہفتے کے پانچ دن اس نے پھر سرمایہ دار کے لیے دن رات محنت کرنی ہوتی ہے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں نہ حکومتوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کا ادراک ہے نہ عوام میں کسی نے اس کا شعور اجاگر کیا ، ایک ایسے وقت میں جب دنیا تبدیلی کی طرف بڑھنا شروع ہوچکی ہے لیکن ہم گھسے پٹے نظام سے چمٹے ہوئے ہیں۔ جس میں عوام کو سوائے آنسوؤں کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو معاشی نظام اپنی ضروریات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے ترتیب دینا چاہیے ۔ دوسروں کے معاشی نظام کی اندھی تقلید سے معیشت کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی نہ ہی کبھی عوام کے بنیادی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔