پیغام لطیف

شاہ لطیف کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شیکسپیئر کی طرح اپنے فکر کے اظہار کے لیے مختلف کردار تخلیق کیے۔


عمر قاضی December 07, 2014
[email protected]

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا عرس مبارک جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے ان کے مزار اقدس پر چادریں چڑھائی جارہی ہیں، وزارت ثقافت روایتی طور پر ایک عدد ادبی کانفرنس کا اہتمام کرچکی ہے، جب کہ سندھ کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے زائرین کی آمد کا سلسلہ میڈیا میں کور ہو رہا ہے۔ ہر سال ایسا ہی کچھ ہوتا ہے اور اس بار بھی وہ ہی کچھ دہرایا جارہا ہے، اور ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اگلے برس بھی یہی کچھ ہوگا۔

میرے اس افسوس کے اظہار کا سبب صرف اتنا ہے کہ ہم نے روایتی عقیدت کے نقاب میں ایک حسین حقیقت کو چھپایا ہوا ہے۔ یہ المیہ اب ہمارے دل کے لیے کسی دکھ کا سبب نہیں کہ اس ملک کے غیر تعلیم یافتہ لوگ اور حکومت شاہ لطیف کو ایک ہی نظر سے دیکھتے اور دکھاتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ لطیف ایک عظیم صوفی بزرگ ہیں مگر مشرق میں صوفیا کرام اور پیروں فقیروں کی کوئی کمی تو نہیں۔ کیا شاہ لطیف کا شمار بھی ان ہزاروں انسانوں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے نفس کے ساتھ کامیاب جنگ کی؟

میں اس حقیقت سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک بزرگ کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے مگر شاہ لطیف صرف شفقت کی گھنی چھائوں والے درخت نہیں تھے۔ اس درخت میں نصیحت کے میٹھے پھلوں کے ساتھ ساتھ محبت کے وہ خوب صورت پھول بھی تھے جن کی مہک وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ جس طرح کچھ مناظر دھندکم ہونے کے بعد زیادہ صاف اور واضح ہوجاتے ہیں ویسے کچھ شخصیات وقت گزرنے کے بعد اپنی حقیقی بلندی کا جلوہ افروز کرتی ہیں۔

میں اس سچائی کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ شاہ لطیف نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں لیکن ان کا تعارف اس حقیقت کے بغیر ادھورا ہی رہے گا کہ وہ نہ صرف سندھ بلکہ ایشیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ لیکن جس طرح ترکی کے حضرت مولانا روم کو بہت اچھے مترجم نصیب ہوئے اور جس طرح ایران کے عظیم شاعر عمر خیام کو فٹس جیرالڈ جیسا ترجمہ نگار عالم اور شاعر مل گیا ویسی خوش نصیبی سے شاہ لطیف کی شاعری ابھی تک محروم ہے۔

ایچھ ٹی سورلے نے شاہ لطیف کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور علامہ آئی آئی قاضی کی رفیقہ حیات ایلسا قاضی نے بھی ترجمے کی صورت میں شاہ لطیف سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے مگر یہ دونوں تراجم بہت سطحی ہیں۔ شیخ ایاز نے شاہ عبداللطیف کی شاعری کو منظوم انداز سے اردو میں منتقل تو کیا مگر ان کی اس کاوش میں وہ ایاز نظر نہیں آتے جو سچل سرمست اور سامی کے اشعار کو ترجمہ کرکے ایک نئی تخلیق میں ڈھال دیتے ہیں۔

اس طرح شاہ عبداللطیف کی شاعری کے ساتھ دونوں حوالوں سے بڑی زیادتی ہوتی آرہی ہے۔ ایک طرف ان کی کلاسیکل اور قدیم سندھی کی وجہ سے سندھی زبان بولنے والوں کی نئی نسل وہ شاعری سمجھنے سے قاصر ہے اور دوسری جانب غیر معیاری تراجم کی وجہ سے شاہ عبداللطیف کی شاعری کی حقیقی روح اہل فن اور اہل فکر کے سامنے آشکار نہیں ہو پائی۔

کاش! وہ وقت آئے کہ اگر اس دنیا کا نہیں تو اس ملک کا ہر ایک شخص دیکھ پائے اس شاعرانہ بلندی کا منظر جو شاہ لطیف کی اصل پہچان ہے۔ شاہ لطیف اپنے دور میں اس شاعری فارسی، عربی اور ہندی شاعری کا بہت بڑا عالم تھا جو اس دور کے دانشور درویش اپنی محفلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ شعر کہتے تھے۔

وہ پورا علم اور ادب جو صدیوں کے سفر میں جاری تھا، شاہ لطیف نے اس کو اپنی شاعری کے ذریعے عوامی زبان میں منتقل کیا اور زندگی کے ہر رخ کو ایک مہذب قدر کے ساتھ پیش کرتے ہوئے لوگوں کو معیار احساس بلند کرنے کے لیے جس انداز سے اپنے ساز و آواز کا جادو جگایا تو اس کا اثر آج تک محدود ہے۔ مگر کاش یہ لامحدود ہوجائے۔

شاہ لطیف کے فن اور فکر کے اس بحر بے کراں کی طرح جو ہمیں حیرت میں ڈبو دیتا ہے۔ جس طرح میں نے ابتدا میں لکھا ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک صوفی بزرگ تھے مگر وہ ایک روایتی صوفی نہیں تھے۔ کیونکہ اہل تصوف میں وطن سے محبت کا رجحان نہیں ملتا۔ جب کہ شاہ لطیف کی شاعری میں وطن سے محبت کا بہت بڑا مقام ہے۔ شاہ لطیف کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شیکسپیئر کی طرح اپنے فکر کے اظہار کے لیے مختلف کردار تخلیق کیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے سارے کردار صنف نازک سے تعلق رکھتے ہیں۔

اگر وطن سے محبت کی مثال پیش کرنی ہو تو ہمارے سامنے ماروی کا کردار ابھر آتا ہے۔ اگر ہمیں محبت کے حق کے لیے جستجو کرنی ہے تو ہم وہ ساری جدوجہد سسی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اگر محبت کی خاطر روایات سے بغاوت کرنی ہو تو ہمیں دریا کی مچلتی ہوئی موجوں میں ڈوبتی ہوئی سوہنی نظر آتی ہے۔ اگر پیار کے انتظار میں اپنے آپ کو فنا کرنے کی مثال دینی مقصود ہو تو ہمیں مومل کے روپ میں ایسی خوب صورت عورت نظر آتی ہے، جو آج تک ہر عورت کے لیے ایک آدرش ہے۔ لیکن شاہ لطیف نے وادی سندھ کی ان لوک کہانیوں کو اس طرح بیان نہیں کیا جس طرح وارث شاہ نے ہیر کا قصہ بیان کیا ہے۔

ان کرداروں کی معرفت شاہ لطیف نے انسانی جذبات کی مختلف اور متضاد کیفیات کو بھی اتنے خوب صورت انداز سے پیش کیا ہے کہ وہ ساری باتیں ہمیں اپنے دل سے پھوٹتے ہوئے چشمے کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ جب اپنے پیارے پنہوں کے لیے سسی پہاڑوں اور صحرائوں کے راستے عبور کرتی جاتی ہے تو اس سفر کے دوران اور تھک ہار کر جب آنکھیں بند کرتی ہے تب اس پر اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ جس محبوب کے لیے وہ مشقت کر رہی تھی وہ تو اس کے من میں موجود ہے۔ اس طرح وہ سسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

''تم پردیس کی طرف کیوں چل نکلی ہو؟ تم اپنے محبوب کو یہیں تلاش کیوں نہیں کرتی؟

لطیف کا موقف ہے کہ تمہارا محبوب کہیں چھپ کر نہیں بیٹھا ہوا۔

تم صرف اپنی آنکھوں کو جھکائو تو تمہیں اپنے اندر اپنا محبوب نظر آئے گا۔''

وہ جب سوہنی کی محبت کا مقدمہ لڑتے ہیں تب پسماندہ ثقافت میں قید لوگوں کے ردعمل سے نہیں گھبراتے۔ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ:

''اس سرد اور سیاہ رات میں جو بارش میں بھیگتے ہوئے دریا کی لہروں سے ہم آغوش ہورہی ہے،

چلو! اس سوہنی سے محبت کا سبق سیکھیں، جس کو روز و شب صرف اپنا محبوب یاد رہتا ہے۔''

وہ ماروی کے وطن دوست کردار کی معرفت وفا کا ایسا مجسمہ تراشتے ہیں جس کی پرستش کرنے کے لیے محبت پہ مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ دکھیاری ماروی جب صحرائے تھر پر برستے ہوئے بادلوں کو دیکھتی ہے تو وہ اپنے قید خانے سے یہ صدا بلند کرتی ہے کہ:

''جس طرح درخت کی ٹوٹی ہوئی شاخ بارش کے بعد بھی ہری نہیں ہوتی،اس طرح میرا دل میرے وطن کے بغیر سوکھ گیا ہے۔''

شاہ لطیف ہماری روزمرہ میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بھی ایسی حکایات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے خود کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔ وہ بڑی باتیں کرنے کے لیے بڑی مثالیں تلاش نہیں کرتے بلکہ چھوٹی باتوں سے بلند سچائیاں بیان کرجاتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ:

''اگر وفا کا سبق سیکھنا ہو تو دریا کے کنارے پر لہراتے ہوئے نازک گھاس کے تنکوں سے سیکھو۔

جب ڈوبنے والا شخص انھیں پکڑ لیتا ہے تو وہ یا اسے کنارے پر لے آتے ہیں یا اس کے ساتھ لہروں میں چلے جاتے ہیں۔''

اگر ہم شاہ عبداللطیف کے پیغام کو روایتی عقیدت سے ہٹ کر صرف ایک عظیم آرٹسٹ کے طور پر دیکھیں تو وہ ہمیں اس دور میں عظیم افکار کے وہ موتی فراہم کرسکتا ہے، جو ہمارے خالی ہاتھوں پر قسمت کے ستاروں کی طرح چمک اٹھیں۔ مگر ہمارے ہاتھ لطیف کی مزار پر صرف دعا کے لیے اٹھتے ہیں۔

کاش! ہم مزار لطیف پر دعا کے ساتھ ان دلوں کی محبت کی دوا بھی لینے جائیں جو محبت کی محرومی کی وجہ سے عرصہ دراز سے علیل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں