خوشخبری کی ٹافی
سیانے کہتے ہیں، بری خبر کے ’’ریپر‘‘ میں خوش خبری کی ٹافی ہوتی ہے۔ بری خبر کے دونوں کان پکڑ کر کھینچو۔
کچھ روز ہوئے، لینن کے دیس سے، جو ہمارے لیے آج بھی سرخ، عجب خبر آئی۔
ادھر ایک نیوز ویب سائٹ پر تازہ تازہ انکشاف ہوا کہ قارئین کو اچھی خبروں کی چنداں ضرورت نہیں۔ انھیں تو بھاتی ہیں، جرائم اور حادثات کی خبریں۔ غل غپاڑے، لڑائی جھگڑے۔
اگلے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے روسیوں کو ہم بڑا ذہین سمجھتے تھے۔ خبر پڑھی، تو سر پیٹ لیا۔ ان کی ناسمجھی پر ماتم کیا۔ اس ننھے سے انکشاف سے روبرو ہونے کو انھوں نے لمبا چوڑا بکھیڑا کیا۔ فون گھما کر ہم سے پوچھ لیتے۔ ہم پاکستانی تو عشروں قبل، افغانستان میں امریکی آلہ کار بننے سے خاصا پہلے، یہ جان چکے تھے۔ مجال ہے جو بری خبروں کی روانی میں کبھی رکاوٹ آنے دی ہو۔
اگر بدبختی کا کوئی تازہ تازہ واقعہ نہ ہو، تو خود ہی اس کا اہتمام کرلیتے ہیں۔ اب جو ادھر کراچی میں روزانہ دس بارہ قتل ہوتے ہیں، جان لو کہ سبب اس کا فقط دہشت گردی نہیں، قارئین کے ذوق مطالعہ کی تسکین بھی ہے۔ ادھر لاہور سے غریبوں کی ایک بستی جلنے کی خبر آئے، تو پریشان نہ ہوں کہ جلتی ہوئی شے ہی خبر بنتی ہے، ''راکھ'' پر تو پڑھے لکھوں کے لیے ناول لکھے جاتے ہیں، جیسے مستنصر حسین تارڑ نے لکھا، اور خوب لکھا۔
روسیوں کے بھولپن کی تفصیلات یوں ہیں کہ جنوبی روس کی ایک نیوز ویب سائٹ، دی سٹی رپورٹر نے فیصلہ کیا، ایک دن کے لیے صرف میٹھی میٹھی خبریں شایع کریں گے۔ بڑے اعتماد سے کہا: ''آپ کیا سمجھے اچھی خبریں فسانہ ہیں، کل تک ٹھہریں، منہ کی کھائیں گے!''
اب جو یکم دسمبر کا سورج، جو مذہبی تفریق کے بغیر سب کو یکساں روشنی فراہم کرتا ہے، طلوع ہوا، تو ویب سائٹ نے کچھ اس طرح کی خبریں ٹکائیں: ''برف باری کے باوجود ٹریفک میں کوئی خلل نہیں''، ''انڈر پاس وقت مقررہ پر مکمل ہوجائے گا'' وغیرہ وغیرہ۔
ان حرکتوں کا جو نتیجہ آیا، وہ روسیوں کے لیے تحیرخیز ہوگا، مگر ہمیں بالکل حیرت نہیں ہوئی۔ ویب سائٹ دو تہائی قارئین سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ہوش ٹھکانے آگئے۔ آخر ویب سائٹ کی نائب مدیر نے ''فیس بک'' پر لکھا: ''ہم نے خبروں میں مثبت پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کی، اور کامیاب بھی رہے، لیکن لگتا ہے، کسی کو اچھی خبروں کی ضرورت نہیں۔''
عزیزو، اب تو جو ہوا سو ہوا۔ ہاں، اس لاحاصل مشق سے پہلے کسی سیانے سے مشورہ کر لیتے، تو ہزیمت سے بچ جاتے۔ جیسا پہلے کہا، ہمیں تو اس کلیے کی پہلے سے خبر تھی۔
روز اخبار اٹھاتے ہیں، بری خبریں پاتے ہیں۔ ہاں، کونوں کھدروں میں روٹین کی اکا دکا اچھی خبریں بھی ہوتی ہیں، جیسے کراچی میں کوئٹہ کی سرد ہوائیں داخل۔ (اس خبر کا ہم بڑی شدت سے انتظار کر رہے ہیں) فلاں کتاب منصۂ شہود پر آگئی۔ ایک معمول کی خوشخبری کرکٹ سے متعلق ہوتی ہے، جس میں پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کے کام یاب ترین کپتان، مصباح الحق کی وجہ سے کچھ تسلسل آگیا ہے۔ حقیقی خوشخبری، جیسے ملالہ کو نوبل انعام ملنا، انتظار حسین کا انٹرنیشنل مین بکر پرائز کے لیے نامزد ہونا، محمد حنیف کو کامن ویلتھ پرائز سے نوازا جانا، کم ہی ملتی ہیں۔
خیر، اب ہم نے بری خبروں کے ساتھ جینے کا فن سیکھ لیا ہے۔ کوئلے کی کان سے ہیرا نکالنے کا طریقہ پا لیا۔ کرتے یوں ہیں کہ جو بری خبر ملتی ہے، اس میں اچھائی کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اب خان صاحب نے کہا ناں: فلاں فلاں تاریخ کو پاکستان بند کروا دوں گا۔ تو ہم نے فوراً سوچا، بند ہونے والی شے کبھی نہ کبھی تو کھل ہی جاتی ہے، تو گریہ کیسا۔ پٹرول مہنگا ہونے پر اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ جلد یا بدیر سستا ہونے کی خبر آئے گی۔ ہم نے طوفان کی اطلاع کو بھی اس تناظر میں لیا کہ چلو پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوا۔ اگر سڑک ٹوٹی ہے، تو کسی روز بن بھی جائے گی۔ پل گر گیا، تو کل پھر کھڑا ہوجائے گا۔
سیاست میں بھی یہ کلیہ کارگر۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا: مردہ کتے کو کوئی ٹھوکر نہیں مارتا۔ ہنر ناقدین کو کھینچتا ہے۔ تنقید تو ہوتی ہی ہے ذہینوں اور شریفوں پر۔ اب یہ جو ن لیگی بیان دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے شریر ہیں، ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئے، تو شکوے کرنے کے بجائے انھیں یوں سوچنا چاہیے کہ ضرور ہم میں کوئی گر ہوگا، ورنہ پی پی کو تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔ قادری صاحب دوبارہ دھرنے پر بیٹھیں، تو حکومت اطمینان رکھے، بیٹھے ہیں، تو چند روز میں اٹھ ہی جائیں گے۔ کل اگر مارشل لا لگ جائے، تو سیاسی لوگ ایک دوسرے کو یہی کہہ کر تسلی دیں کہ کون سا عمر بھر کے لیے لگا ہے، اور لگا ہے، تو اس میں بھی قدرت کی کوئی مصلحت۔ ایک اور مسلم لیگ آنے والی ہوگی۔
دوستو، اگر آپ نے خاکسار کے کلیے پر عمل کیا، تو بری خبریں مثبت طرز فکر کی تشکیل میں ایک مفید مشق ثابت ہوں گی۔ بس، ہر بدبختی کو رجائیت پسندی کے روغن سے رگڑے جائیں۔ جب ہمارے لڑکے اسپاٹ فکسنگ میں جیل گئے، تب بھی یاس میں ڈوبے یاروں کو یہی کہا؛ نادانو گریہ نہیں فخر کرو، جیل جانے والے کرکٹرز میں اولین ٹھہرے۔ اب جو دہشت گردی کے ہر دوسرے واقعے میں پاکستان کا نام آتا ہے، تو غم نہ کرو، کم از کم تمھارا تذکرہ تو ہورہا ہے ایوانوں میں۔ بادامی باغ اور کوٹ رادھا کشن کے معاملے میں بھی یہ امکان موجود تھا۔ خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں کوئی پوزیشن پائو، تو جشن منائو۔ پوزیشن پر بھی، اور اس امر پر بھی کہ یہ سطریں پڑھنے کے لیے زندہ ہو۔
خود پر فخر کرنا سیکھو۔ اگر اقلیتی برادری سے نہیں، تو خوش ہو کہ ریاست میں تمھیں ''انسان'' کا درجہ حاصل، چاہے سے تیسرا درجہ سہی۔ اگر اقلیتی برادری سے ہو، تو اس پر شکر ادا کرو کہ اتنے سال ہنس بول کر گزار لیے۔ اگر شریف انسان ہو، تو بغل بجائو کہ حکومت تمھاری ہی ہے۔ اگر بدمعاش ہو، تو خوشی سے ناچے جائو کہ گزشتہ ساٹھ برس سے اقتدار میں تم ہی ہو یارو۔
سیانے کہتے ہیں، بری خبر کے ''ریپر'' میں خوش خبری کی ٹافی ہوتی ہے۔ بری خبر کے دونوں کان پکڑ کر کھینچو۔ ''ریپر'' کھولو، اور میٹھی میٹھی ٹافی منہ میں ڈال لو۔
خبردار، اب یہ مت کہنا کہ تمھیں شوگر ہے!