فرسودہ سوچ اور اقتدار کی ہوس…

حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے، تعصب اور اقربا پروری بند کرکے عوام کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔


سید تیمور علی December 07, 2014

KARACHI: ملک کی سیاسی صورتحال بدستور انتشار کا شکار نظر آتی ہے، ایک جانب کپتان تبدیلی کے نام پر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے، دوسری جانب سیاسی جماعتیں اپنے روایتی انداز میں صوبوں اور وفاق میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں، سیاسی نظام میں عجیب سی کیفیت طاری ہے، ایک ہی وقت میں حکومت بھی کی جا رہی ہے اور اپوزیشن بھی۔

PTI خیبر پختونخوا میں حکمران ہے اور اسلام آباد میں احتجاج کی رنگینی سجائے ہوئے ہے، جماعت اسلامی کے پی کے میں حکومت کی ساجھے دار اور ملک بھر میں نظام کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہے، پیپلز پارٹی بھی مخمصے کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ تبدیلی لانے کے دعوے دار اپنے مخصوص مطالبات منوانے کی بات تو کرتے ہیں تاہم نظام میں موجود ان خرابیوں کے ازالے کی بات نہیں کرتے جس کے سبب عوام تعلیم، صحت اور امن و امان کے مسائل سے دوچار ہیں۔

تھر کو بدستور بھوک، افلاس، بیماریوں اور موت نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اس جانب توجہ نہیں بلکہ حکومت اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کے بجائے الزام تراشیوں کا سہارا لے کر تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ یہ مجموعی بے حسی کی ایک بڑی مثال ہے۔ ہر روز تھر سے معصوم بچوں کی اموات کی خبریں آرہی ہیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ ہی وہ فرسودہ سوچ ہے جس نے پاکستان کی سیاست کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔

ملک کے اقتدار پر قابض جاگیردار، وڈیرے، سردار اور سرمایہ دار اپنی روش تبدیل کرنے پر تیار نہیں، اس کی تازہ مثال پیر مظہرالحق کا وہ بیان ہے جو انھوں نے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے دیا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ حیدرآباد میں جامعہ اس لیے قائم نہیں کی گئی کہ اس سے اردو بولنے والے فائدہ اٹھاتے اور میں جب تک زندہ ہوں یہ یونیورسٹی نہیں بن سکتی۔ جب کہ یہ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ کلیہ ہے کہ علم دینے سے بڑھتا ہے، یہاں عجیب منطق ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ بیان صوبائی وزیر تعلیم کی جانب سے داغا گیا۔

اب اگر اس تنگ سوچ کا حامل شخص فیصلہ سازی کرے گا تو ملک اور صوبہ کیا خاک ترقی کر پائے گا۔ ایک جانب مہمان نواز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں سندھ دھرتی ماں کے باسیوں نے ہمیشہ آنے والوں کو خوش آمدید کہا اور ان کے لیے اپنے دروازے کشادہ دلی کے ساتھ ہویدا کیے لیکن جب ان کا باطن سامنے آیا تو ان کے دعوئوں کی قلعی کھل گئی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ اس بیان کے ساتھ ہی وہ اپنے اس دعوے کی بھی نفی کرگئے کہ وہ مہمان نواز ہیں۔

اب جب کہ نجی شعبے کی جانب سے حیدرآباد اور کراچی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے نام سے منسوب جامعات بنانے کا اعلان کیا جاچکا ہے، جو ایک حوصلہ افزا امر ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمے داری ختم نہیں ہوتی اور اسے اپنی سطح پر سندھ کے ہر بڑے شہر بشمول کراچی اور حیدرآباد میں جامعات قائم کرکے عوام کو ان کے حقوق دینا ہوں گے، بصورت دیگر حکومتی جماعت اس حقیقت کو یاد رکھے کہ پاکستان میں خاندانی سیاست دم توڑ رہی ہے اور وہ دن بھی اب گنتی کے رہ گئے ہیں کہ جب اقربا پروری کی سیاست ہوا کرتی تھی، آیندہ حکومت سازی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ہوسکے گی۔

لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنا قبلہ درست کرلینا چاہیے، تعصب اور اقربا پروری بند کرکے عوام کو ان کے حقوق دینا ہوں گے، تعلیم، علاج معالجہ، روزگار، رہنے کو گھر اور امن و امان عوام کا بنیادی حق ہے، اس سے روگردانی آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔

اس ضمن میں ایم کیو ایم کا کردار خاصا کلیدی ہے اور اسے حکومت پر اخلاقی، عوامی اور پارلیمانی دبائو برقرار رکھنا ہوگا اور اس کے لیے اگر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے، کیوں کہ تبدیلی کے عمل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم عام کی جائے تاکہ فرسودہ سوچ اور نظام میں جکڑے عوام حقیقی آزادی حاصل کرسکیں۔ یہی ایم کیو ایم کے قیام کا مقصد اور الطاف حسین کی جدوجہد کا محور ہے۔

ایم کیو ایم اپنے مضبوط جماعتی ڈھانچے کی بنیاد پر عوامی رائے عامہ کو انتہائی سرعت کے ساتھ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان سے بالعموم اور صوبہ سندھ سے بالخصوص خاندانی اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن تحریک چلاسکتی ہے اور کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

فرسودہ اور روایتی سوچ کی حامل سیاسی جماعتیں اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستی عصبیت اور لسانیت کا سہارا لے کر بچانے کی کوشش کریں گی، جنھیں بہتر حکمت عملی کے توسط سے ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ایم کیو ایم کے قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت اس فیصلہ کن سنگ میل کو عبور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ جن خرابیوں کی نشاندہی آج کی جارہی ہے، اس کو آج سے 35 برس قبل الطاف حسین نے بے نقاب کیا تھا، اسی بنیاد پر یہ لکھنے کی جسارت کی گئی کہ حقیقی تبدیلی کون لاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں