کھیل کود بھارت کا بڑا فیصلہ

بھارت کےاس فیصلے پر ہم حیرت زدہ ہیں کہ جو فیصلہ ہم ورلڈکپ کے بعد کرتےہیں وہی فیصلہ بھارت نےعین ورلڈ کپ سے پہلے کیا ہے۔

پاکستانی ہونے کے ناطے میں بھارت کو پسند نہیں کرتا مگر افسوس کہ جس کو میں پسند نہیں کرتا وہ کرکٹ کے میدان میں آج ہم سے کئی گناہ مضبوط ٹیم بن چکی ہے اور اُس کی بنیادی وجہ بڑے بڑے برجوں کو ہٹا کر نئے چہرے متعارف کروانا ہے۔ فوٹو: فائل

بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے ورلڈ کپ کے لیے اپنی 30رکنی ٹیم میں ان نامور کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا ہےجنھوں نے 2011کے ورلڈ کپ میں بھارت کو عالمی چمپئین بنانے میں کلیدی کردار اداکیا تھا۔

2011 کے ورلڈ کپ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے یووراج سنگھ جو کینسر جیسے موذی مرض کو تو شکست دینے میں تو کامیاب ہوئے لیکن ورلڈ کپ 2016 کے لیے مطلوبہ فارم حاصل کرنے میں ناکام رہے، اسی طرح گزشتہ ورلڈکپ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا سہرا دو کھلاڑیوں کے سر سجا جاتا ہے جس میں پاکستان کے شاہد آفریدی اور بھارت کے فاسٹ بولر ظہیر خان شامل تھے، دونوں بالرز نے پورے ورلڈ کپ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 21،21وکٹیں حاصل کی تھیں۔

بھارت کی ورلڈ کپ ٹیم سے باہر ہونے والوں میں مشہور اوپنر وریندر سہواگ، گوتھم گمبھیر اور ہربجن سنگھ بھی شامل ہیں ۔ اِس فیصلے کے بعد معلوم یہ ہوتا ہے کہ بھارت نے ورلڈ کپ کی تیاریاں پچھلے عالمی کپ کے فوراًبعد ہی شروع کردی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ اِن کھلاڑیوں کو گزشتہ تین سالوں سے نظراندازکیا جاتارہاہے۔ بھارتی ٹیم کو دنیائے کرکٹ میں گھر کے شیر کہا جاتاہے بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسی زعم میں ٹیم میں نئے اور نوجوان چہروں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارتی ٹیم اپنے ملک سے باہر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی جو وہ بھارت میں دکھاتی ہے۔ بھارت کی 30رکنی ورلڈکپ اسکواڈ میں اکثر نوجوان کھلاڑی ہیں جنھیں بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ بہت کم ہے۔

بھارت نے 2011 ورلڈکپ اپنے گھر میں جیتا تھا اس پر دنیا بھر میں انگلیاں اٹھائی گئی تھیں کہ بی سی سی آئی نے ٹرافی کے حصول کے لیے بیش بہا پیسہ خرچ کیاہے۔ اس دفعہ بھارت کے لیے اپنے من مانے فیصلے اور خواہشات کی تکمیل کے لیے آئی سی سی ہمہ وقت تیار رہے گی۔آئی سی سی کے چیئرمین سری نواسن پر آئی پی ایل میں میچ فکسنگ اور کرپشن میں ملوث ہونے کے شدید الزامات ہیں اوران کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس پر سنگین الزامات ہوں انھیں آئی سی سی کا سربراہ منتخب کرنا اچنبھے کی بات ہے۔ کرکٹ میں بگ تھری کے قیام کے وقت یہی سوالات اٹھائے جارہے تھے کہ بھارت اپنے من مانے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے انگلینڈ اور آسٹریلیا کو بلیک میل کررہاہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ بگ تھری ورلڈ کپ میں کیا گل کھلاتے ہیں۔


لیکن اِس سب کے باوجود بی سی سی آئی نے پانچ اہم اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ جیسے ایونٹ سے باہر رکھ کر بہت بڑا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ فیصلہ اپنی تیاریوں کے مطابق کیا گیا ہے۔ بھارت نے اپنی ٹیم کو بھرپورانداز مرتب کیا ہے اور پھر آہستہ آہستہ تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کردیا۔ بھارت کے لیے سہواگ اور گمبھیر کی کمی شاید محسوس نہ ہو کہ اِس وقت بھارت کی بیٹنگ لائن انتہائی مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن فاسٹ بولر ظہیر خان کی کمی انھیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بے رحم وکٹوں میں ضرور محسوس ہوگی ۔ بھارت نے بیٹسمینوں کامتبادل تو تیار کرلیا ہے لیکن بولنگ میں ایسا نظر نہیں آتا۔ان کے جزوقتی اسپین بولنگ آسٹریلیا کی فاسٹ وکٹوں میں کارآمد نہیں ہوسکیں گے۔

بھارت کے اس فیصلے پر دنیا اور ہم پاکستانی اس لیے حیرت زدہ ہیں کہ جو فیصلہ ہم ورلڈکپ کے بعد کرتےہیں وہی فیصلہ بھارت نے عین ورلڈ کپ سے پہلے کیا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ورلڈ کپ کے لیے کئی ماہ سے غیر حاضر ڈینیل ویٹوری اور پاکستان نے یونس خان جیسے سینئر کھلاڑی کوطویل عرصے تک ایک روزہ کرکٹ سے باہر رکھنے کے باوجود ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں اس لیے شامل کیا کہ ان کے تجربے سے فائدہ ہوگا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کی جانب سے یہ بڑے فیصلے اِس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ یہ ٹیمیں اِس ورلڈ کپ میں بھی نئے کھلاڑی تیار نہ کرسکیں اور پھر استعمال شدہ سکوں پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ساتھ مجھے یہ بات کہنے دیجیے کہ اگر وریندرا سہواگ، گوتم گھمبیر، یووراج سنگھ جیسے کھلاڑی پاکستان کے پاس ہوتے تو ہم اِن بڑے ناموں کو اُس وقت تک سر پر بٹھا کر رکھتے کہ جب تک یہ خود کھیل کے میدان سے رخصت ہونے کی خواہش کا اظہار نہ کردے۔ یہ دراصل فرق ہے معیار کا، ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں بھارت کو پسند نہیں کرتا مگر افسوس کہ جس کو میں پسند نہیں کرتا وہ کرکٹ کے میدان میں آج ہم سے کئی گناہ مضبوط ٹیم بن چکی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story