پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ
حکومت ٹیکس ضرور لے مگر یہ اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لے
تیل کی قیمتوں کے تعین کے ہفتہ وارانہ نظام کے تحت وزارت خزانہ نے اس ہفتے عوام کو ریلیف دیتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں6 روپے کی کمی کردی ہے۔نئے شیڈول کے مطابق مٹی کا تیل40 پیسے' ڈیزل14پیسے اور لائٹ ڈیزل 95 پیسے فی لٹر سستا ہو گیا ہے۔
پیٹرول کی نئی قیمت 102 روپے45 پیسے' مٹی کا تیل 101 روپے 63 پیسے' ہائی اسپیڈ ڈیزل 101 روپے16 پیسے' لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 96 روپے 22 پیسے فی لٹر ہو گی۔ تیل کی قیمتوں کے ہفتہ وارانہ نظام سے معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں ایک روپے 73 پیسے کا اضافہ کر دیا تھا۔ ہفتے کے شروع میں جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں ردوبدل کا اعلان ہوتا ہے تو ایک دن قبل ہی پٹرول پمپس سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت ایک ہفتے پٹرول کی قیمت میں کمی چند روپے کرتی ہے تو دوسرے ہفتے اس میں کئی روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے پورے معاشی نظام میں اتھل پتھل پیدا ہو جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں صنعت کاروں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے اشیا کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر پٹرول سستا ہونے سے کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی نہیں آتی۔ نتیجتاً مہنگائی بڑھ جاتی ہے جو شہریوں کے معاشی بوجھ اور مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔
پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ٹرانسپورٹر بھی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے اشیا کی نقل و حمل میں اضافی بوجھ پڑنے سے روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے مگر جب پٹرول سستا ہوتا ہے تو کوئی بھی چیز سستی نہیں ہوتی کیونکہ صنعت کار' تاجر اور ٹرانسپورٹر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے ہفتے پٹرول کی نئی قیمت کیا ہو اور اگر پٹرول کی قیمت دوبارہ بڑھ گئی تو اشیا پر پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی،یہی سوچ اشیا کی قیمتیں پٹرول سستا ہونے کے باوجود کم نہیں ہونے دیتی۔
اس گومگوں کی کیفیت نے جہاں کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا وہاں عوام کو بھی مہنگائی کی چکی میں پس کر رکھ دیا ہے۔ اسی غیریقینی صورتحال کا شاخسانہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود کاروباری اور عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر نہیں دوڑتی کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ آیندہ ہفتے پٹرول کی قیمت پھر بڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں تیل کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جاتا تھا جس سے اشیا کی قیمتوں میں بھی استحکام رہتا اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بھی بہتری کی جانب گامزن رہتیں۔
مگر پھر سسٹم میں تبدیلی آئی اور پٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل کا ماہانہ نظام مقرر کر دیا گیا۔ اس نظام سے معاشی دنیا میں بے چینی پیدا ہوئی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں۔ عوامی حلقوں نے اس ماہانہ نظام کے خلاف بہت شور مچایا مگر طوطی کی آواز نقار خانے کے مصداق عوام کی آواز حکمرانوں کے کانوں تک نہ پہنچ سکی ۔ عوام نے طوعاً و کرہاً یہ نظام بھی کسی حد تک قبول کر لیا مگر اب ہفتہ وار نظام نے تو ان کے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ قیمتوں کے تعین کا نظام یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب روزانہ ردوبدل کا نظام نافذ ہو جائے گا۔
صبح پٹرول کی قیمت کچھ ہو گی تو شام کو کچھ۔ کیا یہ سب معاشی نظام کو تہس نہس کرنے کی سازش تو نہیں؟ حکمرانوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ امور مملکت چلانے کے لیے حکومت کو سرمائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت ٹیکسوں اور مختلف مدات کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ حکومت اپنے اللے تللے پورے کرنے کے لیے پٹرول پر مناسب ٹیکس کے بجائے زائد ٹیکس وصول کررہی ہے۔ پٹرول پر 23.78 روپے اور ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔
حکومت ٹیکس ضرور لے مگر یہ اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لے۔ حکومت ٹیکس میں کمی کر دے تو اس سے پٹرول کی قیمتیں خودبخود کم ہو جائیں گی جس سے شہریوں کو ریلیف ملے گا۔ دوسری جانب حکومت پٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل ہفتہ وارانہ نظام کے بجائے سالانہ بنیادوں پر کرے تاکہ معاشی سرگرمیوں میں استحکام آ سکے۔
پیٹرول کی نئی قیمت 102 روپے45 پیسے' مٹی کا تیل 101 روپے 63 پیسے' ہائی اسپیڈ ڈیزل 101 روپے16 پیسے' لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 96 روپے 22 پیسے فی لٹر ہو گی۔ تیل کی قیمتوں کے ہفتہ وارانہ نظام سے معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں ایک روپے 73 پیسے کا اضافہ کر دیا تھا۔ ہفتے کے شروع میں جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں ردوبدل کا اعلان ہوتا ہے تو ایک دن قبل ہی پٹرول پمپس سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت ایک ہفتے پٹرول کی قیمت میں کمی چند روپے کرتی ہے تو دوسرے ہفتے اس میں کئی روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے پورے معاشی نظام میں اتھل پتھل پیدا ہو جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں صنعت کاروں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے اشیا کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر پٹرول سستا ہونے سے کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی نہیں آتی۔ نتیجتاً مہنگائی بڑھ جاتی ہے جو شہریوں کے معاشی بوجھ اور مسائل میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔
پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ٹرانسپورٹر بھی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے اشیا کی نقل و حمل میں اضافی بوجھ پڑنے سے روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے مگر جب پٹرول سستا ہوتا ہے تو کوئی بھی چیز سستی نہیں ہوتی کیونکہ صنعت کار' تاجر اور ٹرانسپورٹر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے ہفتے پٹرول کی نئی قیمت کیا ہو اور اگر پٹرول کی قیمت دوبارہ بڑھ گئی تو اشیا پر پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی،یہی سوچ اشیا کی قیمتیں پٹرول سستا ہونے کے باوجود کم نہیں ہونے دیتی۔
اس گومگوں کی کیفیت نے جہاں کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا وہاں عوام کو بھی مہنگائی کی چکی میں پس کر رکھ دیا ہے۔ اسی غیریقینی صورتحال کا شاخسانہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود کاروباری اور عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر نہیں دوڑتی کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ آیندہ ہفتے پٹرول کی قیمت پھر بڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں تیل کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جاتا تھا جس سے اشیا کی قیمتوں میں بھی استحکام رہتا اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بھی بہتری کی جانب گامزن رہتیں۔
مگر پھر سسٹم میں تبدیلی آئی اور پٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل کا ماہانہ نظام مقرر کر دیا گیا۔ اس نظام سے معاشی دنیا میں بے چینی پیدا ہوئی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں۔ عوامی حلقوں نے اس ماہانہ نظام کے خلاف بہت شور مچایا مگر طوطی کی آواز نقار خانے کے مصداق عوام کی آواز حکمرانوں کے کانوں تک نہ پہنچ سکی ۔ عوام نے طوعاً و کرہاً یہ نظام بھی کسی حد تک قبول کر لیا مگر اب ہفتہ وار نظام نے تو ان کے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ قیمتوں کے تعین کا نظام یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب روزانہ ردوبدل کا نظام نافذ ہو جائے گا۔
صبح پٹرول کی قیمت کچھ ہو گی تو شام کو کچھ۔ کیا یہ سب معاشی نظام کو تہس نہس کرنے کی سازش تو نہیں؟ حکمرانوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ امور مملکت چلانے کے لیے حکومت کو سرمائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت ٹیکسوں اور مختلف مدات کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ حکومت اپنے اللے تللے پورے کرنے کے لیے پٹرول پر مناسب ٹیکس کے بجائے زائد ٹیکس وصول کررہی ہے۔ پٹرول پر 23.78 روپے اور ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔
حکومت ٹیکس ضرور لے مگر یہ اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لے۔ حکومت ٹیکس میں کمی کر دے تو اس سے پٹرول کی قیمتیں خودبخود کم ہو جائیں گی جس سے شہریوں کو ریلیف ملے گا۔ دوسری جانب حکومت پٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل ہفتہ وارانہ نظام کے بجائے سالانہ بنیادوں پر کرے تاکہ معاشی سرگرمیوں میں استحکام آ سکے۔