امام بخاری سمرقند میں

مسجد بی بی خانم سمرقند کی عالمی پہچان ہے‘ یہ مسجد تیمور کی سب سے بڑی بیگم بی بی خانم سے منسوب ہے


Jawed Chowhdray October 01, 2012
www.facebook.com/javed.chaudhry

سمرقند کی تین بڑی نشانیاں ہیں' ریگستان اسکوائر' بی بی خانم مسجد اور حضرت امام بخاریؒ کا روضہ مبارک' ریگستان اسکوائر تین عظیم عمارتوں کا کمپلیکس ہے' اس میں ایک طرف الغ بیگ کا مدرسہ ہے۔

یہ مدرسہ امیر تیمور کے پوتے الغ بیگ نے 1417ء میں بنوایا' یہ سمرقند کی پہلی سائنس یونیورسٹی تھی' مدرسے میں پچاس حجرے تھے' ہر حجرے میں دو طالب علم رہتے تھے' یہ مدرسہ دن کو یونیورسٹی اور رات کو ہاسٹل بن جاتا تھا۔ الغ بیگ مدرسے کی امارت کسی ایسے شخص کے حوالے کرنا چاہتا تھا جومروجہ سائنسی علوم کا ماہر ہو' اس نے اعلان کیا دنیا کے اس عظیم مدرسہ کا امیر بھی عظیم ہو گا' یہ اعلان مدرسے کے سامنے اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھے درویش نے سن لیا' درویش کے کپڑے پھٹے تھے' وہ پائوں سے ننگا تھا اور اس کے بال خاک زدہ تھے۔

وہ درویش اٹھا اور بادشاہ سے کہا '' تم مجھ سے سوال کرو اور میں جواب دیتا ہوں'' بادشاہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھااور فلکیات کا ایک مشکل ترین سوال اس کے سامنے رکھ دیا' درویش نے چند لمحوں میں جواب دے دیا' بادشاہ نے دوسرا سوال پوچھا' درویش نے اس کا جواب بھی دے دیا اور اس کے بعد بادشاہ سوال پوچھتا رہا' درویش جواب دیتا رہا یہاں تک کہ بادشاہ کے سوال ختم ہو گئے' بادشاہ نے درویش کا ہاتھ تھاما اور مدرسے کی عمارت اس کے حوالے کر دی' اس درویش کا نام مولانا محمد حوافی تھا اور یہ تا عمر اس مدرسے کے امیر رہے۔

مدرسہ الغ بیگ کے سامنے مدرسہ شیردار ہے' یہ مدرسہ 1619ء میں سمرقند کے مشہور سیاستدان' بخارا کے نائب امیر اور سترہویں صدی کے ازبک کمانڈر شیردار خان نے بنوایا' یہ مدرسہ شان اور شوکت میں الغ بیگ مدرسہ کا پوری طرح مقابلہ کرتا ہے اور ان دونوں مدارس کے پہلو میں مدرسہ طلہ کاری ہے' یہ مدرسہ بھی شیردار خان نے 1646ء میں بنوایا ' مدرسہ کے اندر طلائی مسجد ہے' مسجد کی اندرونی دیواروں اور چھت پر سونے کی طلہ کاری ہے اور اس طلہ کاری کی وجہ سے یہ پوری عمارت مدرسہ طلہ کاری کہلاتی ہے' یہ اسکوائر سمرقند بلکہ ازبکستان کی بین ا لاقوامی پہچان ہے۔

مسجد بی بی خانم بھی سمرقند کی عالمی پہچان ہے' یہ مسجد تیمور کی سب سے بڑی بیگم بی بی خانم سے منسوب ہے' یہ وہ خاتون ہے جس سے شادی کی وجہ سے تیمور اپنے آپ کو منگول خاندان کا حصہ قرار دیتا تھا' منگول زبان میں گور گان داماد کو کہتے ہیں اور تیمور بی بی خانم سے شادی کی وجہ سے گورگان کہلاتا تھا' مسجد بی بی خانم کے بارے میں دو روایات مشہور ہیں' پہلی روایت کے مطابق یہ مسجد بی بی خانم نے اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیے بنوائی ' تیمور ہندوستان فتح کرنے کے لیے سمرقند سے نکلا' اس کی غیر موجودگی میں بی بی خانم نے دنیا جہاں کے معمار بلوائے' اپنا سارا خزانہ ان کے حوالے کیا اور انھیں دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے کا کام سونپ دیا' مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی' بی بی خانم کام کے معائنے کے لیے روزانہ سائیٹ پر جاتی۔

اس دوران چیف انجینئر بی بی خانم پر عاشق ہو گیا اور اس نے شرط رکھ دی' میں امیر تیمور کی سمرقند آمد سے قبل یہ مسجد مکمل کروا دوں گا لیکن اس کے بدلے بی بی خانم کے گال کا بوسہ لوں گا' بی بی خانم نے اپنی تمام کنیزیں اسے پیش کر دیں لیکن چیف انجینئر نہ مانا لہٰذا بی بی خانم نے مجبوراً ہاں کر دی' چیف انجینئر نے امیر تیمور کے شہر میں پائوں رکھنے سے پہلے مسجد مکمل کر دی' وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو بی بی خانم نے گال پر ہاتھ رکھ دیا' چیف انجینئر نے اس کے ہاتھ پر بوسہ لیا لیکن اس کے بوسے میں اتنی آگ تھی کہ بوسے کا نشان بی بی کے ہاتھ سے ہوتا ہوا گال پر ثبت ہو گیا' تیمور آیا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد اور بی بی خانم کے گال کا نشان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مسجد کی تعمیر کا دوسرا واقعہ بھی حیران کن ہے۔

تیمور نے ہندوستان جانے سے قبل دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنوانے کا فیصلہ کر لیا' اس نے اپنی پوری سلطنت سے ماہرین بلوائے اور انھیں یہ کام سونپ دیا' وہ کام کی نگرانی کے لیے روزانہ سائیٹ پر آتا تھا' بی بی خانم نے بھی اسی دوران مسجد کے سامنے اپنا مقبرہ بنوانا شروع کر دیا' مسجد مکمل ہوئی تو مقبرہ بھی مکمل ہو گیا' یہ واقعی دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی' مسجد کی ڈیوڑھی اور بیرونی دیواریں ابھی تک قائم ہیں' ڈیوڑھی 45 میٹر اونچی ہے اوراسے دیکھتے ہوئے حقیقتاً سر سے دستار گر جاتی ہے لیکن آپ قدرت کا کھیل دیکھئے مسجد کا ہال ابتدائی نمازوں کے دوران ہی گرنا شروع ہو گیا اور یہ چند ماہ بعد پوری طرح منہدم ہو گیا اسی دوران سمر قند کے لوگوں نے بی بی خانم کے مقبرے کی وجہ سے مسجد کو بی بی خانم سے منسوب کر دیا اور تاریخ آج تک اس نام کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔

ہم لوگ مغرب کے وقت بی بی خانم مسجد پہنچے' سمرقند کی مسجدوں میں اس وقت اﷲ اکبر کی آوازیں گونج رہی تھیں لیکن مسجد بی بی خانم خاموش تھی ' ہمیں یہ خاموشی ایک عظیم نوحہ محسوس ہو رہی تھی' ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کی قدیم پیاسی دیواریں سورج کی لالی کے آخری قطرے بھی پی گئیں اور وہاں اس کے بعد سناٹے' گہرے تاسف اور تاریخ کے بین کے سوا کچھ نہیں بچا' ہم سے یہ سناٹا' یہ تاسف اور یہ بین برداشت نہ ہو سکا چنانچہ ہم بی بی خانم مسجد سے باہر آ گئے۔

مسجد کی ڈیوڑھی کے سامنے بی بی خانم کا مزار تھا' مزار کے چہرے پر گزرے دن کی تھوڑی سی روشنی باقی تھی' ہمیں یہ روشنی قہقہہ لگاتی اور پکار پکار کر یہ کہتی ہوئی محسوس ہوئی' مسجدیں بنانے والے مسجدیں بنواتے ہوئے بھول جاتے ہیں یہ عمارتیں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ان عمارتوں کو اﷲ کی رضا کے بغیر حکم اذان نہیں دے سکتے' اﷲ نہ چاہے تو مسجدیں مزاروں کے نام منسوب ہو جاتی ہیں اور اگر اﷲ کی رضا شامل ہو تو مزار مسجدیں بن جاتے ہیں۔

حضرت امام بخاریؒ کے ذکر کے بغیر سمرقند کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا' حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمدبن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزۃ البخاری تھا لیکن تاریخ نے انھیں امام بخاری کا نام دیا' یہ بخارا میں پیدا ہوئے اور صحیح بخاری مرتب کرنے کے بعد دوبارہ بخارا تشریف لے آئے مگر امیر بخارا کو ان کی مقبولیت نہ بھائی چنانچہ یہ سمرقند کے مضافات میں اپنے ایک عزیز کے گھر منتقل ہو گئے اور یہ 870ء میں 60 سال کی عمر میںاسی جگہ انتقال فرما گئے' امام کو ان کے حجرے میں دفن کر دیا گیا' وقت گزرتا رہا۔

تیمور آیا' اس نے آپؒ کا مقبرہ تعمیر کروایا' تیمور گزر گیا اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی مقبرے کی نگہداشت بھی ختم ہو گئی' عمارت گری اور آہستہ آہستہ مقامی قبرستان میں گم ہو گئی' روس نے 1868ء میں سمرقند پر قبضہ کر لیا' سمرقند کی تمام عبادت گاہیں' روضے اور مزارات پابندی کا شکار ہو گئے اور یوں امام بخاریؒ کا مزار گمنامی کی مزیدگرد میں گم ہو گیا۔ روس نے 1961ء میں انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کو دورے کی دعوت دی مگر صدر سوئیکارنو نے شرط رکھ دی وہ روسی صدر سے ملاقات سے قبل امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دیں گے۔

سوویت یونین کے لیے یہ دورہ انتہائی ضروری تھا مگر یہ اس وقت تک امام بخاریؒ کے نام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ڈھونڈمچی اور یہ ڈھونڈ روسی اہلکاروں کو سمرقند لے آئی' مزار اس وقت کسی سربراہ مملکت کی وزٹ کے لیے مناسب نہیں تھا' روسی حکومت نے بچنے کی کوشش کی لیکن سوئیکارنو کا اصرار قائم رہا' سوئیکارنو جون 1961ء کے شروع میں ماسکو پہنچا ' حکومت نے اسے ٹرین پر سوار کر دیا' یہ ٹرین چار دن بعد سمرقند پہنچی۔

روسی حکام اس دوران مزار کی حالت ٹھیک کرتے رہے لیکن اس کے باوجود سوئیکارنو جب وہاں پہنچا تو وہ مزار کی حالت دیکھ کر رو پڑا اور اس نے روسی حکام سے کہا ''تم اس عظیم انسان کی عظمت سے ذرا برابر واقف نہیں ہو'' اس نے روس کو پیشکش کی '' تم یہ مزار مجھے بیچ دو' میں مزار کی مٹی کے برابر سونا دینے کے لیے تیار ہوں'' وہ مزار پر دس گھنٹے قرآن خوانی بھی کرتا رہا' روسی حکومت نے اس واقعے کے بعد مزار کی تعمیر نو کروائی اور امام بخاری ؒ کے روضے کو زائرین کے لیے کھول دیا' ازبکستان کی موجودہ حکومت نے مزار کی توسیع بھی کی اور اس کی تزئین و آرائش بھی۔

حضرت امام بخاریؒ کا اصل مزار عمارت کے تہہ خانے میں ہے' تہہ خانہ بند رہتا ہے لیکن ہمیں تہہ خانے کے اندر جانے اور حضرت امام بخاریؒ کے پائوں میں بیٹھ کر دعا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی' میں نے اصل روضے کی تصویر بھی بنا لی' حکومت نے بخارا میں امام بخاری میوزیم بنا دیا ہے ' اس میں امام بخاری سے منسوب چند اشیاء اور اوراق بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن صحیح بخاری کا اصل نسخہ وہاں بھی نہیں' صحیح بخاری کی ایک نقل تاشقند میں بھی موجود ہے' تاشقند میں خست امام کمپلیکس میں قرآن میوزیم ہے' اس میوزیم میں حضرت عثمان غنیؓ کے زیر استعمال رہنے والے قرآن مجید ہیں۔

ان میں وہ قرآن مجید بھی شامل ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے آپؓ کو شہید کر دیا گیا تھا' قرآن مجید کے اس نسخے پر بھی حضرت عثمانؓ کے لہو کے نشان ہیں' قرآن مجید کا یہ نسخہ فتوحات کے دوران امیر تیمور کے ہاتھ لگ گیا تھا اور یہ مختلف خاندانوں سے ہوتا ہوا ازبک حکومت کے پاس پہنچ گیا' اسی قسم کا ایک نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے' میرے پاس ان دونوں نسخوں کی تصاویر موجود ہیں' دونوں نسخوں میں اصل کون سا ہے' ہم سرے دست اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن تاشقند کا قرآن مجید بظاہر زیادہ قدیم دکھائی دیتا ہے۔

میوزیم میں صحیح بخاری کا ایک نسخہ بھی موجود ہے لیکن یہ اصل کی کاپی محسوس ہوتا ہے' اصل صحیح بخاری کہاں ہے؟ کیا یہ دنیا میں کہیں موجود ہے' ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جہاں تک امام بخاریؒ کی محنت اور کاوش کا تعلق ہے یہ دنیا کی آنکھ سے کبھی اوجھل نہیں ہو گی' اﷲ تعالیٰ دائمی ہے اور دنیا کا جو شخص اﷲ کی ذات میں گم ہو جاتا ہے اس کا نام بھی دائمی ہو جاتا ہے' امام بخاریؒ بھی اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ کی ذات میں گم ہو گئے تھے چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے بارہ سو سال بعد ان کا نام اور ان کا روضہ دونوں زندہ رکھے۔

سمرقند کے زیادہ تر بادشاہ زمین کا پیوند ہو چکے ہیں اور وقت کی بارشوں نے ان کا نام تک دھو دیا مگر امام بخاریؒ کے نام کی خوشبو سمرقند میں آج تک زندہ ہے اور آپ اگر امام کے مزار پر کھڑے ہوں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے امام بخاریؒ سمرقند کی وجہ سے قائم نہیں ہیں بلکہ سمرقند امام بخاریؒ کی وجہ سے زندہ ہے ' امام نہ ہوتے تو آج سمرقند افراسیاب کے قدیم کھنڈرات میں گم ہو گیا ہوتا اور تاریخ اس کا نام تک فراموش کر چکی ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |