پاکستان ہار گیا دھونی کی کپتانی بچ گئی
ٹی ٹوئنٹی میں جو ٹیم 7 بیٹسمینوں کے ساتھ کھیلے اس سے جیتنے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے
قوم نے لگتا ہے ساری امیدیں اور خوشیاں اپنی کرکٹ ٹیم سے وابستہ کر لی ہیں۔ قومی ٹیم جیت جائے تو پورے ملک میں جشن، ہار جائے تو سوگ کی کیفیت۔ اتوار کے میچ میں بھی یہی ہوا۔
روایتی حریف انڈیا کے ساتھ میچ سے پہلے جیسے پوری قوم کو یقین تھا کہ جیت پاکستان کی ہی ہوگی۔ جمعے کو پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو شکست دی تو پاکستانیوں کے چہرے دمک رہے تھے اور پھر جب رات دس بجے کے قریب آسٹریلیا نے بھارت کو یک طرفہ مقابلے میں مار گرایا تو مطمئن چہروں پر لالی اور بڑھ گئی۔ آسٹریلین ٹیم نے بھارت کے ساتھ جو سلوک کیا، میرے خیال میں وہ اس کی مستحق تھی۔ ٹی ٹوئنٹی میں جو ٹیم 7 بیٹسمینوں کے ساتھ کھیلے اس سے جیتنے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے سپر ایٹ میں کمزور ترین بولنگ انڈیا کی ہے۔
اس کا موازنہ اگر ابتدائی رائونڈ میں فارغ ہو جانے والی ٹیم بنگلہ دیش کی بولنگ سے کیا جائے تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ بھارتی ٹیم میں ظہیر خان واحد جینوئن بولر ہیں باقی سب ہاتھ گھما کے گیند پھینک سکتے ہیں، ان میں میچ ونر کوئی بھی نہیں ہے۔
اتوار کے میچ کا ٹاس محمد حفیظ نے جیتا۔ جب انھوں نے خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو یہ طے ہو گیا کہ پاکستانی کپتان انڈر پریشر ہیں۔ موصوف جب بار بار آزمائے گئے عمران نذیر کے ساتھ بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو بے اختیار مجھے غالب کا مصرعہ یاد آیا جس میں ایک لفظ کی ترمیم کے لیے اردو کے عظیم شاعر کی روح سے معذرت خواہ ہوں۔
اڑنے سے پیشتر ''ہی'' میرا رنگ زرد تھا
دھونی نے پہلا اوور اپنے بہترین بولر ظہیر خان سے کرایا۔ ظہیر نے پہلی گیند وائیڈ پھینکی اور نو گیندوں پر مشتمل یہ اوور جب ختم ہوا تو اسکور بورڈ پر پاکستان کے 13رنز ہو چکے تھے۔ اوور کی آخری گیند پر سہواگ نے حفیظ کا کیچ بھی چھوڑا۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستانی بیٹنگ کو بھارتی بولنگ پر چھا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عمران نذیر حسب معمول محض 8 رنز پر واپس چلے گئے۔ شاہد آفریدی کو ون ڈائون کی پوزیشن پر بھیجا گیا۔ آفریدی نے اپنے چودہ رنز میں دو چوکے ضرور مارے لیکن کانپتے ہاتھوں سے ایک اونچا شاٹ کھیل کر لالہ جی بھی پویلین لوٹ گئے۔
دوسری طرف کھڑے ہوئے کپتان کے نہ صرف ہاتھ کانپتے رہے بلکہ ٹانگیں بھی کانپ رہی تھیں۔ ناصر جمشید بدقسمت رہے کہ ان کو غلط آئوٹ دیا گیا باقی شعیب ملک، عمر اکمل اور عمر گل کے سوا کسی بیٹسمین نے بھارتی بولنگ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں کی۔ یووراج سنگھ جیسا پارٹ ٹائم بولر دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کر گیا۔ بالا جی کو خاص طور پر پاکستان کے خلاف کھلایا گیا اور انھوں نے اپنے کپتان کو مایوس نہیں کیا۔ وہ شاہد آفریدی سمیت تین وکٹیں لے گئے۔ بالا جی کے پاس اسپیڈ ہے نہ ان کی بولنگ میں کاٹ اور ورائٹی۔
اس سے اچھے بولر لاہور کی کلبوں میں کھیلتے مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی بیٹنگ لائن اپ بہت مضبوط ہے اور سونے پہ سہاگہ صرف 129 رنز کا ٹارگٹ، وہاں بولروں نے کیا کر لینا تھا۔ میچ کے بعد کپتان نے فرمایا کہ اپنے مضبوط بولنگ اٹیک کی وجہ سے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ان کا فیصلہ تب درست ہوتا جب ٹیم 180 کے قریب ٹارگٹ دیتی۔ پاکستانی ٹیم کے ہارنے سے دو فائدے ضرور ہوئے ہیں۔ ایک تو دھونی کی کپتانی بچ گئی اور دوسرا دسمبر میں پاکستانی ٹیم کا دورہ بھارت۔ سچی بات ہے ٹیم جیتے تو ساری غلطیاں کوتاہیاں معاف ہو جاتی ہیں اور ہار جائے تو ہر فیصلہ غلط قرار پاتا ہے۔
اتوار کے میچ کے بعد بھی یہی ہوا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آفریدی کی جگہ عبدالرزاق کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ شاہد آفریدی بے شک بیٹنگ میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں لیکن بولنگ میں ٹھیک پرفارم کرتے ہیں۔ عمران نذیر کی البتہ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ جو کرکٹر اتنے سال میں نہیں سدھر سکا، اسے اب عقل کیسے آسکتی ہے؟ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر بابر غوری کے بیان نے البتہ مجھے کافی مایوس کیا ہے۔ انھوں نے ٹیم کی سلیکشن کو خلاف میرٹ قرار دیتے ہوئے صرف ایک پلیئر کا نام لیا ہے۔
انھوں نے اسد شفیق کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر سخت تنقید کی ہے۔ غوری صاحب اسد شفیق میرا بھی فیورٹ پلیئر ہے لیکن آپ نے ان کا نام لے کر اسے کراچی لاہور کامسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک منتخب نمایندے سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ صوبائیت یا علاقائیت کی بات کرے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اتنے ٹیلنٹڈ پلیئر کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اسد شفیق کی ابھی کافی کرکٹ باقی ہے اور وہ کسی کی سفارش پر نہیں اپنے ٹیلنٹ کے بل پر کھیلتے رہیں گے۔
ورلڈکپ کی بات کی جائے تو اس کے آغاز پر مجھے لگتا تھا جنوبی افریقہ اس بار چیمپئن بن سکتا ہے۔ سپر ایٹ میں پرفارمنس کی بنیاد پر آسٹریلیا اگلا چیمپئن بنتا نظر آ رہا ہے، سری لنکا بھی فیورٹ ہے۔ پاکستان کا ایک میچ باقی ہے لیکن آسٹریلیا کی فارم کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنے زیادہ چانسز نہیں لگتے۔ آسٹریلیا کو ہرانے کی صرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ شین واٹسن کو جلد آئوٹ کر لیا جائے۔ واٹسن کی بولنگ اور بیٹنگ کی فارم قائم رہی تو آسٹریلیا کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انڈین ٹیم نے پاکستان کو ضرور ہرایا لیکن اب بھی اس کا سیمی فائنل میں جانا قریب قریب ناممکن ہے۔ ہمارے گروپ سے جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل میں جانے کے زیادہ چانسز ہیں۔
پاکستانی ٹیم سے امیدیں وابستہ کرنے والے یہ دیکھ لیں کہ ٹاپ فائیو میں کوئی پاکستانی بیٹسمین ہے نہ بولر۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو کپ جیت بھی سکتی ہے ورنہ آسٹریلیا ہاٹ فیورٹ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھی اسے اپنا لوہا منوانا ہے تواسی ورلڈکپ میںکیوں نہیں۔؟میں پاکستانی ٹیم کی جیت کے لیے دُعا گو ہوں... لیکن ساری دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں؟
روایتی حریف انڈیا کے ساتھ میچ سے پہلے جیسے پوری قوم کو یقین تھا کہ جیت پاکستان کی ہی ہوگی۔ جمعے کو پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو شکست دی تو پاکستانیوں کے چہرے دمک رہے تھے اور پھر جب رات دس بجے کے قریب آسٹریلیا نے بھارت کو یک طرفہ مقابلے میں مار گرایا تو مطمئن چہروں پر لالی اور بڑھ گئی۔ آسٹریلین ٹیم نے بھارت کے ساتھ جو سلوک کیا، میرے خیال میں وہ اس کی مستحق تھی۔ ٹی ٹوئنٹی میں جو ٹیم 7 بیٹسمینوں کے ساتھ کھیلے اس سے جیتنے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے سپر ایٹ میں کمزور ترین بولنگ انڈیا کی ہے۔
اس کا موازنہ اگر ابتدائی رائونڈ میں فارغ ہو جانے والی ٹیم بنگلہ دیش کی بولنگ سے کیا جائے تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ بھارتی ٹیم میں ظہیر خان واحد جینوئن بولر ہیں باقی سب ہاتھ گھما کے گیند پھینک سکتے ہیں، ان میں میچ ونر کوئی بھی نہیں ہے۔
اتوار کے میچ کا ٹاس محمد حفیظ نے جیتا۔ جب انھوں نے خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو یہ طے ہو گیا کہ پاکستانی کپتان انڈر پریشر ہیں۔ موصوف جب بار بار آزمائے گئے عمران نذیر کے ساتھ بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو بے اختیار مجھے غالب کا مصرعہ یاد آیا جس میں ایک لفظ کی ترمیم کے لیے اردو کے عظیم شاعر کی روح سے معذرت خواہ ہوں۔
اڑنے سے پیشتر ''ہی'' میرا رنگ زرد تھا
دھونی نے پہلا اوور اپنے بہترین بولر ظہیر خان سے کرایا۔ ظہیر نے پہلی گیند وائیڈ پھینکی اور نو گیندوں پر مشتمل یہ اوور جب ختم ہوا تو اسکور بورڈ پر پاکستان کے 13رنز ہو چکے تھے۔ اوور کی آخری گیند پر سہواگ نے حفیظ کا کیچ بھی چھوڑا۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستانی بیٹنگ کو بھارتی بولنگ پر چھا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عمران نذیر حسب معمول محض 8 رنز پر واپس چلے گئے۔ شاہد آفریدی کو ون ڈائون کی پوزیشن پر بھیجا گیا۔ آفریدی نے اپنے چودہ رنز میں دو چوکے ضرور مارے لیکن کانپتے ہاتھوں سے ایک اونچا شاٹ کھیل کر لالہ جی بھی پویلین لوٹ گئے۔
دوسری طرف کھڑے ہوئے کپتان کے نہ صرف ہاتھ کانپتے رہے بلکہ ٹانگیں بھی کانپ رہی تھیں۔ ناصر جمشید بدقسمت رہے کہ ان کو غلط آئوٹ دیا گیا باقی شعیب ملک، عمر اکمل اور عمر گل کے سوا کسی بیٹسمین نے بھارتی بولنگ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں کی۔ یووراج سنگھ جیسا پارٹ ٹائم بولر دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کر گیا۔ بالا جی کو خاص طور پر پاکستان کے خلاف کھلایا گیا اور انھوں نے اپنے کپتان کو مایوس نہیں کیا۔ وہ شاہد آفریدی سمیت تین وکٹیں لے گئے۔ بالا جی کے پاس اسپیڈ ہے نہ ان کی بولنگ میں کاٹ اور ورائٹی۔
اس سے اچھے بولر لاہور کی کلبوں میں کھیلتے مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی بیٹنگ لائن اپ بہت مضبوط ہے اور سونے پہ سہاگہ صرف 129 رنز کا ٹارگٹ، وہاں بولروں نے کیا کر لینا تھا۔ میچ کے بعد کپتان نے فرمایا کہ اپنے مضبوط بولنگ اٹیک کی وجہ سے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ان کا فیصلہ تب درست ہوتا جب ٹیم 180 کے قریب ٹارگٹ دیتی۔ پاکستانی ٹیم کے ہارنے سے دو فائدے ضرور ہوئے ہیں۔ ایک تو دھونی کی کپتانی بچ گئی اور دوسرا دسمبر میں پاکستانی ٹیم کا دورہ بھارت۔ سچی بات ہے ٹیم جیتے تو ساری غلطیاں کوتاہیاں معاف ہو جاتی ہیں اور ہار جائے تو ہر فیصلہ غلط قرار پاتا ہے۔
اتوار کے میچ کے بعد بھی یہی ہوا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آفریدی کی جگہ عبدالرزاق کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ شاہد آفریدی بے شک بیٹنگ میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں لیکن بولنگ میں ٹھیک پرفارم کرتے ہیں۔ عمران نذیر کی البتہ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ جو کرکٹر اتنے سال میں نہیں سدھر سکا، اسے اب عقل کیسے آسکتی ہے؟ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر بابر غوری کے بیان نے البتہ مجھے کافی مایوس کیا ہے۔ انھوں نے ٹیم کی سلیکشن کو خلاف میرٹ قرار دیتے ہوئے صرف ایک پلیئر کا نام لیا ہے۔
انھوں نے اسد شفیق کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر سخت تنقید کی ہے۔ غوری صاحب اسد شفیق میرا بھی فیورٹ پلیئر ہے لیکن آپ نے ان کا نام لے کر اسے کراچی لاہور کامسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک منتخب نمایندے سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ صوبائیت یا علاقائیت کی بات کرے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اتنے ٹیلنٹڈ پلیئر کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اسد شفیق کی ابھی کافی کرکٹ باقی ہے اور وہ کسی کی سفارش پر نہیں اپنے ٹیلنٹ کے بل پر کھیلتے رہیں گے۔
ورلڈکپ کی بات کی جائے تو اس کے آغاز پر مجھے لگتا تھا جنوبی افریقہ اس بار چیمپئن بن سکتا ہے۔ سپر ایٹ میں پرفارمنس کی بنیاد پر آسٹریلیا اگلا چیمپئن بنتا نظر آ رہا ہے، سری لنکا بھی فیورٹ ہے۔ پاکستان کا ایک میچ باقی ہے لیکن آسٹریلیا کی فارم کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنے زیادہ چانسز نہیں لگتے۔ آسٹریلیا کو ہرانے کی صرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ شین واٹسن کو جلد آئوٹ کر لیا جائے۔ واٹسن کی بولنگ اور بیٹنگ کی فارم قائم رہی تو آسٹریلیا کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انڈین ٹیم نے پاکستان کو ضرور ہرایا لیکن اب بھی اس کا سیمی فائنل میں جانا قریب قریب ناممکن ہے۔ ہمارے گروپ سے جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل میں جانے کے زیادہ چانسز ہیں۔
پاکستانی ٹیم سے امیدیں وابستہ کرنے والے یہ دیکھ لیں کہ ٹاپ فائیو میں کوئی پاکستانی بیٹسمین ہے نہ بولر۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو کپ جیت بھی سکتی ہے ورنہ آسٹریلیا ہاٹ فیورٹ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھی اسے اپنا لوہا منوانا ہے تواسی ورلڈکپ میںکیوں نہیں۔؟میں پاکستانی ٹیم کی جیت کے لیے دُعا گو ہوں... لیکن ساری دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں؟