تحریکوں میں تنظیمیں بنتی ہیں

نظریاتی سیاست کی حامل سیاسی جماعتوں کا زیادہ زور کارکنوں کی نظریاتی تربیت پر ہوتا ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

تحریکوں کا تعلق تنظیموں سے ہوتا ہے اور تنظیموں کا تعلق کارکنوں سے ہوتا ہے۔ جن تنظیموں میں کارکن بڑی تعداد میں ہوتے ہیں ان تنظیموں کے لیے تحریکیں چلانا مشکل نہیں ہوتا۔ جو تنظیمیں نظریاتی سیاست کرتی ہیں، وہ تنظیمیں اپنے کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرتی ہیں ،کارکنوں کی تربیت کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک علمی ایک عملی۔ علمی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکل چلائے جاتے ہیں اور نظریاتی لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے ،کارکنوں کی نظریاتی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکل اور انقلابی لٹریچر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن انقلابی دانشوروں کا خیال ہے کہ کارکن اور تنظیمیں تحریکوں کے دوران ہی بنتی ہیں۔

یہ مسئلہ ان جماعتوں کا ہے جو نظریاتی سیاست کرتی ہیں، وہ جماعتیں جن کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اور کھانا کمانا جن کا نظریہ ہوتا ہے انھیں نہ نظریاتی کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ اسٹڈی سرکل کی نہ نظریاتی لٹریچر کی چونکہ اس قسم کی جماعتیں کارکنوں کو شخصیت پرستی کا سبق پڑھاتی ہیں لہٰذا ان کے کارکنوں کی وفاداریاں شخصیات سے ہوتی ہیں، نظریات سے نہیں۔پاکستان چونکہ ابھی تک جاگیردارانہ کلچر کا اسیر ہے لہٰذا یہاں شخصیت پرستی کا کلچر بہت مضبوط ہے۔ نظریاتی سیاست کی حامل سیاسی جماعتوں کا زیادہ زور کارکنوں کی نظریاتی تربیت پر ہوتا ہے اور نظریاتی تربیت کے اسکول اسٹڈی سرکل ہوتے ہیں، انقلاب کی داعی جماعتوں کی عموماً کوشش کارکنوں کی اسٹڈی سرکل کے ذریعے تربیت کی ہوتی ہے، یہ عرصہ عشروں پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا حاصل کیا ہے یہی ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے جب تک نظریے کو عمل سے جوڑا نہیں جاتا نہ کوئی تحریک چل سکتی ہے نہ کوئی تنظیم بن سکتی ہے۔

بدقسمتی سے تبدیلیوں کے دعویدار اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویو سے تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اس لیے نہ تبدیلیاں آتی ہیں نہ کارکن نظریاتی بن پاتے ہیں۔ اس نفسیات کی وجہ سے تبدیلیاں خواب بنی ہوئی ہیں کیا یہ غلطیاں ہیں یا دانستہ چشم پوشی؟ اس کا جواب مشکل ہے۔آج اس مسئلے پر گفتگو کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں نظریات کو عمل سے جوڑے بغیر انقلاب لانے کی کوششیں جاری ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے گاڑی کو بیلوں کے آگے باندھ دیا جائے اس حوالے سے میں یہاں ایک ذاتی تجربے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ایوب خان کے دور میں ہم ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کا کام کر رہے تھے یہ ذمے داری ہمارے دوستوں مرزا ابراہیم ، سی آر اسلم وغیرہ نے مجھے دی تھی کہ میں کراچی میں ٹریڈ یونین کو منظم کروں اور کارکنوں کی تربیت کروں، اسٹڈی سرکل اور انقلابی لٹریچر کے ذریعے کارکنوں کی تربیت کا سلسلہ عرصے تک جاری رہا لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

یہ 1968 کی بات ہے انقلابی رہنما اور نیپ کے اہم لیڈر مولانا بھاشانی کراچی آئے ہوئے تھے اس زمانے میں مولانا بھاشانی اپنی تیز و تند تقاریر کی وجہ سے مزدوروں میں بہت مقبول تھے۔ ایک دن ہم مسیح الرحمن کے مکان پر مولانا بھاشانی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک مولانا نے مجھ سے کہا ''کل لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں ہمارا جلسہ کراؤ۔'' میں بڑا پریشان ہوا کہ اس وقت تک لانڈھی کے مزدوروں میں ہم نے کوئی کام نہیں کیا تھا ہمارا کام سائٹ تک محدود تھا، لیکن ہم نے بہرحال حامی بھرلی کہ مولانا کا جلسہ لانڈھی میں کرائیں گے۔

ہم نے اس کے لیے ایک ہنگامی پروگرام بنایا اور دوسرے دن تین دوستوں کے ساتھ جن میں عبدالوحید صدیقی مرحوم، علاؤالدین عباسی مرحوم اور کنیز فاطمہ شامل تھے، لانڈھی کے سب سے بڑی ٹیکسٹائل ملز کے گیٹ پر 7 بجے پہنچ گئے۔ پہلی شفٹ کے مزدور آرہے تھے۔ 8 بجے تک گیٹ پر مزدوروں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا یہ پہلی شفٹ کے مزدور تھے۔ ہم نے کار کی چھت پر کھڑے ہوکر تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ اور جب ہم نے مزدوروں کو بتایا کہ آج مولانا بھاشانی یہاں آرہے ہیں تو مزدوروں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ پہلی شفٹ کے مزدور کی نعرہ بازی سے علاقے کے مزدور جمع ہونا شروع ہوگئے اس کے بعد تیسری شفٹ کے مزدور مل سے باہر نکلے۔


پہلی شفٹ کے مزدوروں نے کام پر نہ جانے اور جلسے میں شرکت کا فیصلہ کیا اور ہزاروں مزدوروں پر مشتمل یہ جلوس انڈسٹریل ایریا کی ملیں اور کارخانے بند کراتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔ دوپہر تک انڈسٹریل ایریا کی ساری ملیں اور کارخانے بند ہوچکے تھے اور لگ بھگ پچیس ہزار مزدوروں کا یہ جلوس جب جلسہ گاہ پہنچا اور فلک شگاف نعرے لگانے لگا تو ارد گرد کے عوام بھی جلسہ گاہ میں آتے گئے اور جلسہ گاہ کے میدان میں ہر طرف سر ہی سر نظر آنے لگے۔ ہم نے اس تاریخی جلسے میں جون ایلیا، سعید رضا سعید اور خالد علیگ کو بھی بلوالیا تھا جو اپنے انقلابی کلام سے مزدوروں کے جوش و خروش میں اضافہ کر رہے تھے۔

مولانا کے آنے میں دیر تھی ہم نے ہر کارخانے اور ملز کے مزدوروں کو دعوت دی کہ وہ اپنے دو دو نمایندوں کو تقریر کے لیے نامزد کریں ایک ایک کرکے ہر مل کے نمایندے اسٹیج پر آکر تقریر کرنے لگے۔ مولانا بھاشانی کے آنے کے بعد بھی پرجوش تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ ایوب خان کے زوال کا آغاز تھا ایوب خان نے کولمبو پلان کے تحت حاصل ہونے والے سرمائے سے کارخانے تو لگوائے تھے لیکن مزدوروں کو غلام بناکر رکھ دیا تھا۔ ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت نہ تھی اگر مزدور چوری چھپے ٹریڈ یونین بنانے کی کوشش کرتے تو انھیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا بعض ملوں میں مالکان نے اپنی پرائیویٹ جیلیں بھی بنادی تھیں۔ دس سالہ ظلم و جبر کے بعد پہلی بار مزدور خوف سے آزاد ہوئے تھے۔

مولانا بھاشانی مزدوروں کے جوش و خروش اور فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف نعرے بازی اور حکومت پر شدید تنقید سے بہت متاثر ہوئے مولانا کی پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ مولانا بھاشانی نے انتہائی کم وقت میں اتنا بڑا جلسہ کرانے پر سب کی بہت تعریف کی۔جلسے کے دوران پہلی بار ہر مل، ہر کارخانے کے مزدوروں نے اپنے نمایندے نامزد کردیے تھے ہم نے دوسرے روز ایک اور تنظیمی جلسے کا اعلان کردیا اس وقت تک علاقے میں کوئی نمایندہ ٹریڈ یونین موجود نہ تھی ہر کارخانے میں سیٹھوں کی بنائی ہوئی پاکٹ یونین موجود تھی۔ دوسرے روز بھی جلسہ گاہ مزدوروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ہم نے اعلان کیا کہ ہر ملز کے مزدور اپنی یونین کے لیے عہدیداروں کا انتخاب کریں۔

یوں تمام اہم ملوں اور کارخانوں کے مزدوروں نے اپنی اپنی یونین کے عہدیدار منتخب کیے اور ہم نے تحریک کے دوران تنظیم کو بنتے دیکھا۔اس جلسہ گاہ میں بننے والی یونینیں اس قدر مضبوط اور منظم تھیں کہ آنے والے دنوں میں ان یونینوں نے مزدور تحریک کو تاریخی بنادیا۔ ایوب خان کے خلاف جب عوامی تحریک میں شدت آنے لگی اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ''گو ایوب گو'' کے نعرے بلند ہونے لگے تو کراچی اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ہم نے مزدوروں کا ایک جلوس نکالا جس کی قیادت متحدہ مزدور فیڈریشن نے کی یہ جلوس ایوب خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

تنظیمیں بنانے کے لیے بلاشبہ مزدور بستیوں اور عوام کی بستیوں میں جانا اور طویل جدوجہد کرنا پڑتا ہے اسٹڈی سرکل وغیرہ میں عوام کی تربیت بھی کرنا پڑتی ہے لیکن حقیقی اور مضبوط نظریاتی تنظیمیں تحریکوں کے دوران ہی بنتی ہیں جس کا تجربہ ہم نے لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں کیا۔ اور یہاں بننے والی تنظیموں نے مزدور تحریک کو تاریخی مزدور تحریک بنادیا۔
Load Next Story