بلدیاتی انتخابات کی اہمیت اور ضرورت
المیہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات عموماً فوجی حکومتوں کے دور ہی میں ہوتے رہے ہیں
SUKKUR:
بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک میں دو اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک یہ کہ ان انتخابات سے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، دوسرے نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، تیسرا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے بااختیار اور مالی وسائل کے مالک ہوجاتے ہیں اور مقامی مسائل حل کرنے میں مالی وسائل کے استعمال میں آزادی کی وجہ سے مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اسے ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں بلکہ 65 سال سے سیاست اور اقتدار پر قابض اشرافیہ کی سازش ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے پہلوتہی کی۔ فوجی حکمرانوں کی گود میں پلنے والی یہ سیاسی اشرافیہ ویسے تو فوجی حکومتوں کو جمہوریت کے فروغ میں دیوار بننے کا الزام دیتی ہے لیکن یہ مافیا کبھی فوجی حکومتوں کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرتی نظر آتی ہے تو کبھی فوجی حکومتوں کا انتہائی بے شرمی سے حصّہ بنتی دِکھائی دیتی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات عموماً فوجی حکومتوں کے دور ہی میں ہوتے رہے ہیں۔ ناظمین کا نظام بھی ایک فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف ہی نے متعارف کرایا جو ہماری بلدیاتی تاریخ کا اتنا مربوط اور موثر نظام مانا جاتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 2008 کے الیکشن کے بعد بلدیاتی انتخابات شیڈول کے مطابق اپنے وقت مقررہ پر کرادیے جاتے لیکن ہمارے سیاسی ہنومانوں نے اوّل تو بلدیاتی انتخابات کو پس پشت ڈال دیا، دوسرے انتہائی بے شرمی اور بددیانتی سے بلدیاتی نظام کے بجائے کمشنری نظام رائج کرنے کی سازشیں شروع کردیں اور اس خصوص میں ابتدا کے طور پر ایڈمنسٹریٹر کا نظام قائم کردیا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ جمہوریت کے یہ چیمپئن انگریزوں کے چھوڑے ہوئے اس بیورو کریٹک کمشنری نظام پر اصرار کررہے ہیں جسے انگریزوں نے اپنی حکمرانی اور اختیارات کی مرکزیت کے لیے روشناس کرایا تھا۔
ہماری سیاسی اشرافیہ اگر بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتی ہے اور کمشنری نظام پر اصرار کرتی ہے تو اس کی یہ پالیسی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے اقتدار میں تقسیم کو پسند نہیں کرتی اور اقتدار کلی کی مالک بنی رہنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے اسے یہ ڈر بھی لاحق ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے ذریعے اس نے سیاست اور اقتدار پر جو ناجائز قبضہ جما رکھا ہے، بلدیاتی نظام سے اسے خطرہ لاحق ہوجائے گا اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔
لیکن عوامی سیاست کرنے والوں اور عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں کو تو بلدیاتی نظام سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ مڈل کلاس اپنی بے عملی، سیاسی بصیرت کی کمی، منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں بلدیاتی انتخابات میں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی تو اس کا علاج سرگرم منصوبہ بند اور عوامی منشور کی سیاست ہے نہ کہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت اور کمشنری نظام کی حمایت۔
آج کے خوف ناک حالات میں جب کہ شدّت پسندی اور دہشت گردی کراچی سمیت ملک کے ہر علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے، بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے، کیونکہ انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد بلدیاتی نظام ہی ایک ایسی امید ہے جو گلی محلوں تک پھیلی ہوئی اور تیزی سے مضبوط ہوتی ہوئی شدّت پسندی اور دہشت گردی کے آگے ایک مضبوط دیوار بن سکتا ہے۔ کراچی ملک کا سیاسی اور مالیاتی حب ہے، منفی رجعت پسند طاقتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اس حب پر کنٹرول حاصل کرلیں۔ اس گندے مقصد کے حصول کے لیے ان منفی طاقتوں نے خوف و دہشت کی فضا تو قائم کرلی ہے۔
عوام اپنے مسائل اور اپنی غیر محفوظ زندگیوں کی خاطر کسی بھی وقت سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ دہشت گرد اسی انتظار میں ہیں کہ عوام کے غصّے کو کیش کرالیں۔ کیا ہمارے سیاسی اوتار خاص طور پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اہلِ سیاست ان خطرات کا ادراک رکھتے ہیں؟ اگر رکھتے ہیں تو پھر انھیں بلدیاتی انتخابات کے بلاتاخیر انعقاد کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
پاکستان میں اشرافیہ نے کرپشن کو جس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر بلدیاتی نظام بھی کرپشن سے کسی حد تک آلودہ تھا تو اس نظام میں عوام کی براہِ راست شرکت اور علاقائی سطح پر جواب دہی کی وجہ سے اس نظام میں موجود خرابیوں کے دور ہونے کی قوی امید بھی موجود تھی۔ ناظمین کے نظام میں چھوٹی موٹی خرابیوں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر ہماری اقتدار مافیا کیوں کمشنری نظام پر اصرار کررہی ہے، یہ کوئی راز نہیں بلکہ یہ شرم ناک حقیقت ہے کہ یہ باری باری چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آنے والی کم ذاتیہ نہیں چاہتی کہ اس کے اقتدار کلی میں کمی آئے۔
وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ بلدیاتی نظام خصوصاً ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات نہ صرف چھن جاتے ہیں بلکہ سیکڑوں ناظمین کو کنٹرول کرنا اس کے بس سے باہر ہوجاتا ہے جب کہ ایک کمشنر اور چند ڈپٹی کمشنروں کو قابو میں رکھنا اس کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے اور ان بیورو کریٹس سے یہ مافیا اپنی مرضی کے کام کرواسکتی ہے، چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی حکمرانوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے شرم ناک بات یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کی مخالفت درمیانہ طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ سیاست دان اور صوبائی حکمران بھی کررہے ہیں جو عوامی سیاست کے دعوے دار ہیں اور عوام کو قوت کا سرچشمہ کہتے نہیں تھکتے۔ اس حوالے سے پختون خوا کی حکومت، بلوچستان کی حکومت اور سندھ کے قوم پرستوں کا کمشنری نظام پر اصرار اس قدر افسوس ناک ہے کہ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان احساس کمتری کے مارے ہوئے مڈل کلاسر کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ بلدیاتی نظام کے لیے ہونے والے انتخابات ان کی سیاسی حیثیت کا پردہ چاک کردیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں اپنی بے عملی اور غیر منصوبہ بند سیاست کی وجہ سے ایک کونسلر کی سیٹ بھی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں لیکن اس کا ازالہ کمشنری نظام سے کرنا سیاسی وڈیروں کی تابع داری کے علاوہ کچھ نہیں۔