صرف چار حلقوں کا سوال ہے بابا

یہ تعصب کی عینک کا کرشمہ ہے کہ جو سامنے ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا جب کہ جو نظر آتا ہے وہ سامنے نہیں ہوتا۔


Jabbar Jaffer December 09, 2014

KARACHI: 30 نومبر کو اسلام آباد میں جو تحریک انصاف کا جلسہ ہوا اس کے حریف بھی دیکھ رہے تھے اور وہی جلسہ اس کے حلیف بھی اور تو اور یہی جلسہ ملک کے عوام بھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جو جلسہ تحریک انصاف کے حامیوں کی نظر میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا وہی جلسہ اس کے مخالفین کی نظروں میں سوئمنگ پول تھا، جب کہ غیر جانبدارانہ عوام کی نظروں میں یہ جلسہ رنگین، سریلا اور شاندار بھی تھا اور جانبدار بھی۔

سوال یہ ہے کہ جلسہ ایک ہے، دیکھنے والے مختلف ہیں لیکن آنکھیں تو ایک جیسی نہیں تو پھر کسی کو سمندر اور کسی کو سوئمنگ پول کیوں نظر آتا ہے؟ دراصل یہ تعصب کی عینک کا کرشمہ ہے کہ جو سامنے ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا جب کہ جو نظر آتا ہے وہ سامنے نہیں ہوتا۔

میرے خیال میں کامیاب جلسہ وہ ہے جس میں جلسہ گاہ گنجائش کے مطابق بھر جائے کیوں کہ اس کے بعد عوام کی تھپی لگائی جاسکتی ہے نہ چنائی کی جاسکتی ہے۔

عمران خان کے لیے مذاکرات کا بہترین موقع اس وقت تھا جب نواز شریف نے آرمی چیف سے تعاون کی اپیل کی تھی، کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت (ن) لیگ کی حکومت نواز شریف کے استعفے کے علاوہ عمران کے تمام مطالبات ماننے کو تیار تھی۔ لیکن استعفیٰ کے تعلق سے عمران خان کے غیر لچکدار رویے نے گیارہ سیاسی پارٹیوں کو اسمبلی میں متحد کردیا اور گھاگ سیاست دانوں نے تھرڈ ایمپائر کی انگلی پکڑتے پکڑتے اس کا پونچا پکڑ لیا۔ سودا کاری کا زرین اصول یہ ہے کہ موت کی ڈیمانڈ کرو اور بخار پر سمجھوتہ کرلو۔ ویسے بھی اگر نواز شریف مستعفی ہو بھی جاتے تو عمران خان کا چانس پھر بھی نہیں بنتا۔ (ن) لیگ کا کوئی اور رہنما آجاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے بنیادی مطالبات یعنی چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات پر ہی جمے رہنا چاہیے تھا۔ ساری پارٹیوں کو دھاندلی کی شکایات تھیں۔ کھلے بندوں حمایت نہ بھی کرتیں تو غیر جانبدار تو رہتیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت چار حلقوں میں تحقیقات کرا دیتی؟ میرا خیال یہ ہے کہ بالکل نہیں کراتی۔ اگر کرانا ہوتا تو بات اتنی بگڑتی ہی کیوں؟ وہ چار کے بجائے آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات کرادے گی مگر چار حلقوں میں تحقیقات نہیں کرائے گی۔

کیوں کہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ دھاندلی تو ہوئی، لیکن جیسی ہر جگہ ہوتی ہے جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی اگر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انقلابی انتخابی اصلاحات نہیں ہوئیں تو مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو سارے شہروں کی داستان غم ہے، کیا دیہی علاقوں میں جہاں جاگیرداری سسٹم قائم ہے فرشتے بستے ہیں؟ عمران خان کے لیے وزیراعظم بننے کے دو راستے ہیں A بذریعہ انتخابات، B بذرریعہ شارٹ کٹ۔

A۔ آیندہ انتخابات میں عمران خان کو ووٹ اسلام آباد میں دھرنا دینے سے، ملک کا پہیہ جام کرنے سے نہیں ملیں گے، اس کے لیے KPK کو دوسرے صوبوں کے لیے مثالی صوبہ بنانا پڑے گا۔ تاکہ عوام خود سوچیں کہ عمران جب ایک صوبے کو مثالی صوبہ بناسکتا ہے تو ملک کو مثالی ملک کیوں نہیں بناسکتا؟

B۔ شارٹ کٹ کے لیے چاروں حلقوں کے انتخابات میں دھاندلی ثابت ہو، سارے انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، نئے انتخابات بذریعہ پرانے سیٹ اپ سوالیہ نشان بن جائیں۔ ملک میں انارکی پھیل جائے، ملک کی بقا کا سوال پیدا ہوجائے، نتیجتاً میرے عزیز ہم وطنو! دو تین سال کے لیے ٹیکنو کریٹک قومی حکومت قائم ہوجائے تاکہ 67 سال کا گند صاف ہو'' الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہو، انقلابی انتخابی اصلاحات ہوں اور انتخابات اتنے شفاف ہوں کہ مخالفین بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں، سارے کام کے لیے جنونی وزیراعظم کی اشد ضرورت محسوس کی جائے جب ''لے کے رہیں گے کشمیر'' کا نعرہ کامیابی کی ضمانت تھا لیکن افسوس کہ جب کشمیر لینے کے بجائے مشرقی پاکستان دینے پڑ گئے تو اس نعرے کو ترک کرنا پڑا۔

اس کے بعد روٹی، کپڑا، مکان والے نعرے کا دور آیا، چالیس سال بعد پتہ چلا کہ جو دال روٹی میسر تھی اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک جوڑا کپڑے بچ گئے کیوں کہ پہنے ہوئے تھے ورنہ کرپٹ سیاست دان وہ بھی لنڈا بازار میں بیچ کھاتے، یہی وجہ ہے کہ جس جلسے میں بھی ٹیکس ڈاکوؤں اور مینڈیٹ چوروں کو لٹکانے کا نعرہ بلند ہوتا ہے کرسیوں پر بیٹھا ہوا عوامی سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ باپ دادا کا چھوڑا ہوا ایک مکان تھا جو قرض داروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بک چکا۔ ویسے اکیسویں صدی کے عوام بھی بڑے چالاک ہیں، ان حالات میں بھی برے وقتوں سے بچنے کے لیے ایک گردہ بیچنے کے لیے بچا رکھا ہے۔ جب بھید کھل ہی گیا ہے تو آیئے سب مل کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاکر دعا کرتے ہیں ''یا اﷲ ! آج سے پاکستان کے ساتھ ساتھ لٹیرے سیاسی گروہوں سے 18 کروڑ گردوں کی حفاظت بھی فرما، آمین ثم آمین! پاکستان پایندہ باد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں