یہ بچے کہاں جاتے ہیں

پاکستان میں گزشتہ دس سال کے دوران نوزائیدہ بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

sana_ghori@outlook.com

وہ دونوں چھ سال سے بچے کی کلکاریاں اپنے آنگن میں سننے کے لیے بے تاب تھے۔ لیکن ہر طرح کے علاج کے بعد بھی کسی طرف سے کوئی امید نظر نہ آئی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ کوئی بیماری نہیں، یہ خدا کی مرضی ہے کہ آپ کو کب اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے۔ بہت دعاؤں کے بعد آخر خدا نے سن ہی لی اور ان کے گھر ایک ننھے وجود کی آمد کی خبر ملی۔

وہ شاید ان کے لیے اس دنیا کا سب سے خوب صورت دن تھا جب انھیں اپنی اولاد کا لمس پہلی دفعہ اپنے ہاتھوں میں محسوس ہوا۔ مبارک باد کا سلسلہ جاری تھا اور اسپتال میں رشتے داروں کا تانتا بندھا ہوا تھا کہ اچانک نرس نے بچے کو نرسری شفٹ کرنے کے لیے کہا۔ شاید کوئی ٹیسٹ ہونا باقی تھا۔ لہٰذا بچہ نرس کے سپرد کردیا گیا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب بچہ واپس نہیں آیا تو اسپتال انتظامیہ سے اس کی بابت سوال کیا گیا، جس کا جواب سنتے ہی بچے کا باپ غش کھا کر زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق ان کی کوئی نرس بچے کو نرسری ٹیسٹ کی غرض سے لے کر ہی نہیں گئی تھی۔

اسپتالوں میں بچے اغوا ہونے کی خبریں تو وہ عرصہ دراز سے سنتے آرہے تھے، لیکن آج یہ سانحہ ان پر گزر جائے گا اس کا تصور بھی ان کے پاس نہ تھا۔ نرس کو بہت تلاش کیا گیا، لیکن اس کا اسپتال میں وجود ہی نہ تھا۔ ایک ایسی عورت جو شادی کے کئی سال بعد ماں بنی تھی، اولاد کے لمس کو فقط چند لمحے ہی محسوس کرسکی اور اب اس کی جھولی پھر خالی تھی۔ وہ دھاڑیں مار مار کر روتی رہی، فریاد کرتی رہی، اپنے بچے کو پکارتی رہی، لیکن سب کچھ بے سود ثابت ہوا۔

بچہ اغوا ہوچکا تھا اور اب پولیس کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ مغوی بچے کے والدین چھ ماہ تک تھانے کے چکر لگاتے رہے لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ وہ پھر سے ماں بنی لیکن اپنے اس بچے کو کبھی نہ بھول پائی جس نے اسے مامتا کے احساس سے سرشار کیا تھا اور آج آٹھ سال گزرنے کے باوجود وہ اپنے پہلے بچے کے لیے روتی اور تڑپتی ہے۔

میں بھی ایک ماں ہوں۔ اسپتالوں میں جب کسی نوزائیدہ بچے کے اغوا ہونے کی خبر سنتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری اپنی اولاد کو کوئی ہمیشہ کے لیے میری نظروں سے دور لیے لے جارہا ہو۔ نوماہ اپنے وجود میں پالنے کے بعد جب جیتا جاگتا وجود ہاتھوں میں آتا ہے تو ساری تکلیفیں سارا دکھ یوں غائب ہوجاتا ہے جیسے کسی نے کوئی منتر پھونک دیا ہو۔ ننھا وجود ماں باپ اور دیگر اہل خانہ کے لیے خوشیاں، نئی زندگی اور آنے والی خوشیوں کا پیغام لاتا ہے، لیکن اگر وہ بند آنکھیں، معصوم چہرہ، نرم روئی کے گالوں جیسا وجود، وہ خوشیوں کی نوید اچانک نظروں سے غائب ہوجائے تو کیا ہوگا؟ کیا میں اور آپ لمحہ بھر کے لیے بھی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ہمارے گھر کا بچہ ہم سے اچانک یوں دور کردیا جائے کہ ملنے کی کوئی امید بھی نہ رہے۔

مرنے والوں کا ماتم کرکے دل کو سکون مل جاتا ہے، لیکن زندگی کے سفر میں یوں بچھڑنے والے جن کی زندگی کی امید باقی ہے، جن کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ بھی اسی آسمان کے نیچے دھرتی پر کہیں سانس لے رہے ہیں جہاں ہم موجود ہیں، لیکن وہ ہم سے مل نہیں سکتے، ان کا سراغ اب کبھی نہ ملے گا تو روح گھائل ہوجاتی ہے۔ بظاہر کسی عیب سے پاک وجود کسی معذور جسم کی مانند ہوجاتا ہے۔ ایک زندہ لاش جسے بس سانسوں کی ڈور گھسیٹ رہی ہو۔

یہ وہ ماں باپ ہیں جن کے بچے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی ان سے جدا کردیے گئے۔ وہ روتے ہیں، سسکتے ہیں، ہر لمحہ اپنے پھول کی یاد میں آنکھوں کو لہو کرتے ہیں، لیکن یہ سب رائیگاں جاتا ہے۔ ان میں سے کم ہی ہیں جنھیں اپنا کھویا ہوا بچہ واپس مل سکا ہو۔


سرکاری اسپتالوں میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں اب ایک عام مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں غریب کے لیے زندگی گزارنا تو مشکل تھا ہی، اب تو زندگی کی امید اس کی اولاد کو بھی کسی شے کی طرح اٹھا کر کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیا جاتا ہے، جیسے اس غریب خاندان پر اس خوشی کا کوئی حق ہی نا ہو۔ پاکستان میں گزشتہ دس سال کے دوران نوزائیدہ بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس معاملے میں بھی حکومت کے دعوے لفاظی تک محدود ہیں۔ سیکیورٹی کے انتظامات سخت کرنے کی غرض سے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے لیکن وہ بھی ایسے جن میں سے آدھے سے زیادہ کام ہی نہیں کرتے یا جن میں ریکارڈنگ کا کوئی سسٹم ہی موجود نہیں ہے۔

کچھ عرصے پہلے کراچی کے ایک مشہور اسپتال سے ایک منظم گروہ کو گرفتار کیا گیا تھا، جو نومولود بچوں کے اغوا میں ملوث تھا۔ اس گروہ میں ڈاکٹر، نرسز اور وارڈ بوائے اسٹاف شامل تھا، لیکن اسپتال کا نام خراب ہونے کے ڈر سے نہ صر ف میڈیا کا منہ بند کروادیا گیا، بلکہ کیس کو بھی فائلوں کے نیچے دبا دیا گیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ جرم چھپانے اور فقط اسپتال کی ساکھ خراب ہونے کے ڈر سے کیس کو دبادینے والے بھی اسی طرح اس جرم میں شامل ہیں جس طرح نوزائیدہ بچوں کے اغوا جیسا گھناؤنا کام کرنے والے۔

ایک گروہ کی گرفتاری کے بعد توقع تھی کہ یہ سلسلہ رکے نہیں تو ان وارداتوں میں بڑی حد تک کمی ضرور آجائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اسپتالوں سے بچوں کے اغوا کی وارداتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ سول اسپتال کراچی میں سکیورٹی اور انتظامیہ کی نااہلی کے سبب ڈیڑھ ماہ کی بچی اغوا ہوگئی۔ سرکاری اسپتالوں میں سکیورٹی اہلکاروں میں کمی اور بیشتر سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہونے کے سبب سکیورٹی انتظامات سخت نہیں کیے گئے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود سول اسپتال کو مزید 50 گارڈ فراہم نہیں کیے گئے، سول اسپتال میں کیمروں کا نظام سینٹرلائزڈ نہیں کیا جاسکا، اسپتال کے بیشتر کیمرے خراب ہیں۔

اس حوالے سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں صرف کراچی کے سرکاری اسپتالوں سے 8 بچے اغوا ہوئے، جن میں سول اسپتال سے 4، سوبھراج اسپتال سے 2 اور جناح اسپتال سے ایک بچہ شامل ہے۔ 2012 میں بھی سرکاری اسپتالوں سے بچوں کے اغوا کی وارداتیں جاری رہیں۔ 2013 میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ عباسی شہید اسپتال سے نامعلوم عورت 15 دن کے عبد الکریم ولد محمد صابر کو اغوا کرکے فرار ہوگئی۔ رواں سال بھی غنچوں کو شاخوں سے توڑ لینے کا ظالمانہ چلن جاری رہا۔ گزشتہ ماہ سول اسپتال کراچی سے دوماہ کی ایک بچی اغوا کرلی گئی۔ یہ اعداد وشمار صرف کراچی کے ہیں، ورنہ ملک کے دوسرے شہروں میں بسنے والے کتنے ہی والدین پر بھی یہ قیامت ٹوٹ چکی ہے۔

نومولود بچوں کا اغوا کتنا بڑا مسئلہ ہے، یہ تو وہی جان سکتا ہے جو اس سانحے کا شکار ہوا ہو۔ سوال یہ ہے کہ مغوی بچے کہاں لے جائے جاتے ہیں؟ اگر یہ وارداتیں منظم گروہ کر رہے ہیں تو یہ محض کوئی انفرادی یا انتقامی کارروائی نہیں، بلکہ ایک منافع بخش دھندا ہے۔ چند روز قبل فیس بک پر ایک تصویر دیکھ کر سمجھ میں آگیا کہ یہ ظلم کیوں ڈھایا جارہا ہے۔ یہ ایک خستہ حال عورت کی تصویر تھی، جو ایک بچے کو گود میں لیے بھیک مانگ رہی تھی اور تصویر کے کیپشن میں دنیا بھر میں نومولود بچوں کے اغوا کے حوالے سے اعدادوشمار دیے گئے تھے۔

آپ میں سے ہر ایک نے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ کوئی بھکارن اپنے بچے کو کڑی دھوپ میں لٹائے بھیک مانگ رہی ہے اور بچہ مسلسل سورہا ہے۔ یہ کیسی مائیں ہیں جو پیسے کے لیے اپنے بچوں کو دھوپ میں جلاتی ہیں؟ ان میں یقیناً بہت سے حالات سے مجبور مائیں بھی ہوں گی، لیکن متعلقہ ادارے ایسی عورتوں سے تفتیش تو کرسکتے ہیں، ان کی گود میں موجود بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ان بچوں کو باہر ممالک میں بھاری داموں فروخت کیا جاتا ہے۔

اسپتالوں میں سیکیورٹی کے موثر انتظامات ہونا ضروری ہے۔ یہ کوئی معمولی ایشو نہیں، اسے منتخب ایوانوں میں اٹھایا جانا چاہیے، منتخب نمایندے اور حکمراں اپنے نومولود بچے سے محروم ہوجانے والی کسی ایک ماں کو ایوان میں بلاکر بس ایک بار اس کی آہ وبکا سن لیں، مجھے یقین ہے کہ وہ اس مسئلے کو پہلی ترجیح کے طور پر حل کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
Load Next Story