بھیڑیے کی سرگزشت
وہ قدیم اور پرانے لوگ جنھیں میں نے جھاڑ پونچھ کر فعال کردیا تھا اب وہ جماعت میں دھڑے بندیاں کررہے ہیں.
آج تذکرہ اس بھیڑیے کا ہے جس کا ذکر آصف علی زرداری نے اپنی جماعت کے یوم تاسیس پر کیا۔ یوں تو محترم زرداری صاحب کے سیاسی طنز و مزاح بڑی مقبولیت کا درجہ حاصل کرتے رہے ہیں مثلاً ''سیاسی اداکار'' طرز بادشاہت'' وغیرہ لیکن اس بار ان کی اصطلاح بڑی منفرد سی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ''ان دنوں اسلام آباد میں ایک بھیڑیے نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور وہ جماعت کے اندر و باہر کے بھیڑیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ وہ 4 ماہ سے جاری کسی ڈرامے سے متاثر ہوکر جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے۔
جس کے نتیجے میں میرے عزیز ہم وطنو! کہنے والا کوئی آجائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اس سے بہتر ہیں۔ میں نے ان کی تقریر کو بغور سنا۔ سر دھنا، لیکن سمجھنے کے مرحلے میں مجھے چند ایک دشواریوں کا سامنا ہے۔ مثلاً ''نواز شریف ان کی پچ پر کیوں جائیں؟ وہ اگر گئے تو ہماری پچ پر جائیںگے'' گویا ان کا جانا ٹھہر گیا ہے، اب ان کی سازش سے جائیں یا ان کے کھیل سے۔ مجھے ہنستے ہوئے یہ شعر یاد آگیا۔
کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے غیروں سے بھی ملتے رہے
اس کے علاوہ میں سوچتا رہا کہ جماعت کے اندر کا بھیڑیا کون ہے؟ جس کے لیے ان کے مزید جملے یہ تھے کہ ''وہ قدیم اور پرانے لوگ جنھیں میں نے جھاڑ پونچھ کر فعال کردیا تھا اب وہ جماعت میں دھڑے بندیاں کررہے ہیں'' میں تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ اشارہ مخدوم امین فہیم کی جانب تھا۔ عین ممکن ہے کہ میرا خیال غلط ہی ہو۔ لیکن کچھ عرصے سے ان کے بیانات پارٹی پالیسی کے برعکس سنائی دیے۔ مزید برآں ان کی خاموشی اور سیاسی غیر فعالیت بھی معنی خیز سی ہے۔ البتہ باہر کے بھیڑیے کو میں تو کیا وہ خود بھی سمجھ گئے لہٰذا اگلے ہی دن انھوں نے خرخراتے اور غراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ زرداری کے لیے بھیڑیے ہی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالا صورت حال قطعی جمہوری اور Democide کلچر کا حصہ ہے۔ مجھے یا کسی کو بھی اس سے پریشان ہوکر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ الزام برائے الزام کی سیاست ہے بلکہ میں اپنے گزشتہ کالم میں کہہ چکا ہوں کہ در اصل ہمیں جمہوریت کی عادت ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ ملک وجود میں آنے کے بعد ہمیں بہت سے Systems کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے تجربات و حادثات کو جھیلنا پڑا۔ جنھیں اگر کل ملاکر بھی Democracy کا نام دیا جائے تو میں اختلاف کروں گا۔ وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر، آدھی مرغی آدھا انڈا، آدھی فاختہ آدھا کوا۔ معلوم نہیں کیا تھے۔؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ محض طاقت کی حکومت تھی۔
اداروں کی ہو یا افراد کی حتیٰ کہ باہر سے بلائے گئے Democratic کی۔ بہر حال پیچھے 5 سالہ دور حکومت سے جو نظام ملک میں رائج ہے فی الحال ہم اسے جمہوریت کہہ کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کا تسلسل اسے ایک واقعی جمہوریت میں بدل دے۔ لہٰذا زرداری صاحب کے القابات و آداب جس کے جواب میں انھیں بھی مخالف سمت سے کچھ سہل کرنا پڑتا ہے جمہوریت کی ذرہ نوازی ہیں میں تو اس سے محظوظ ہوتا ہوں۔
خاص طور پر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس ملک میں بھی دھرنے لگے۔ احتجاج ہوا اور جاری ہے کسی نے کسی کو بتایاکہ پاکستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ لوگ کسی کی جاگیر نہیں ملک کے اداروں کی سربراہی کے لیے صرف آپ کے اہل خانہ ہی اہل نہیں باقی تعداد میں سے بھی کوئی ذہین و زمانہ شناس ہوسکتا ہے ٹیکس کی ادائیگی سے لے کر الیکشن ریفارمز تک، بیرون ملک بینکوں میں رکھے گئے سرمایہ کثیر سے لے کر ملک میں ہزاروں ایکڑ اراضی اور درجنوں انڈسٹریز تک۔ کوئی حساب مانگ رہا ہے۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ پولیس کا استعمال کیوں اور کس کے لیے کیا جاتا ہے۔ وہ سرکار کا محکمہ ہے آپ کی ذاتی صنعتوں کے ملازمین نہیں۔ کوئی استفسار کررہاہے کہ صحرائے تھر میں ہزاروں معصوم بچوں کی ہلاکت کا ذمے دار کون ہے؟ میں تو نوافل شکرانہ ادا کرتا ہوں کہ اے مالک حقیقی تیرا شکر ہے ملک میں پہلی بار پٹرول 19 روپے سستا ہوا اور فخریہ اس کا اعلان کیا گیا۔
یہ سب کچھ کس امر کا مرہون منت ہے؟ خوف کا، جی ہاں اس خوف کا کہ اب مقابلہ ہوگا لیکن اس کی ہار جیت طے شدہ نہیں ہوگی۔ اب ملک چلے گا آپ کا گھر نہیں۔ الیکشن کا مطلب الیکشن ہوگا، سلیکشن نہیں، کسی نے بتایا۔ پوری قوم کو دھاڑ کر بتایاکہ جب تک تم ایک قوم نہیں بن جاتے تم ظالم اور ظلم پر قائم نظام سے نہیں جیت سکتے۔ سب کی باریاں آجائیںگی لیکن غربت اور مفلوک الحال اپنی ہر باری پر صرف غربت کہلائے گی۔ اس کے معانی تبدیل نہیں ہوں گے۔ ملک کی 98 فی صد متوسط طبقے کی آبادی کا کوئی فرد کبھی اسمبلیوں تک نہیں پہنچ پائے گا۔ ہاں زرداری صاحب آپ نے درست کہا بھیڑیے نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ لگڑ بھگے دم دباکر اپنی کھولیوں میں سرک رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اب بجلی سستی ہوگی، پٹرول کی قیمت مزید کم ہوگی۔ نئی شاہراہیں تعمیر ہوںگی، نئے ڈیمز بنیںگے، انرجی بحران ختم ہوجائے گا، نوکریاں میرٹ پر ملیںگی، زمینیں سونا اگلیںگی۔ مجھے یقین ہے کہ موسم تک بدل جائیں گے۔ کیوں کہ اب حکومت کے سامنے Opposition ہے۔ بھرپور Opposition ۔ ہر ادارہ اپنی حدود پہچان رہا ہے۔ بظاہر آپ اور آپ کے ہمنوا حکمراں جس تحریک کو ملک کا نقصان قرار دے رہے ہیں یہ وہ عظیم فائدہ ہے جس سے ملک 68 سال تک محروم رہا یہ زہر نہیں امرت ہے۔ فرد کی حکومت ختم ہوئی، شخصی اجارہ داری دم توڑ رہی ہے۔ ایک نیا سورج اپنی سنہری کرنیں لیے طلوع ہورہاہے۔ Nationalism کا سورج، حب الوطنی کا اجالا۔ ایک منتشر گروہ ایک قوم بننے جارہا ہے، ہاں زرداری صاحب آپ نے سچ کہا۔ بھیڑیے نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ وہ گرج رہا ہے، دھاڑ رہا ہے لیکن تنہا نہیں پوری قوم کے ہمراہ ۔
جس کے نتیجے میں میرے عزیز ہم وطنو! کہنے والا کوئی آجائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اس سے بہتر ہیں۔ میں نے ان کی تقریر کو بغور سنا۔ سر دھنا، لیکن سمجھنے کے مرحلے میں مجھے چند ایک دشواریوں کا سامنا ہے۔ مثلاً ''نواز شریف ان کی پچ پر کیوں جائیں؟ وہ اگر گئے تو ہماری پچ پر جائیںگے'' گویا ان کا جانا ٹھہر گیا ہے، اب ان کی سازش سے جائیں یا ان کے کھیل سے۔ مجھے ہنستے ہوئے یہ شعر یاد آگیا۔
کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے غیروں سے بھی ملتے رہے
اس کے علاوہ میں سوچتا رہا کہ جماعت کے اندر کا بھیڑیا کون ہے؟ جس کے لیے ان کے مزید جملے یہ تھے کہ ''وہ قدیم اور پرانے لوگ جنھیں میں نے جھاڑ پونچھ کر فعال کردیا تھا اب وہ جماعت میں دھڑے بندیاں کررہے ہیں'' میں تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ اشارہ مخدوم امین فہیم کی جانب تھا۔ عین ممکن ہے کہ میرا خیال غلط ہی ہو۔ لیکن کچھ عرصے سے ان کے بیانات پارٹی پالیسی کے برعکس سنائی دیے۔ مزید برآں ان کی خاموشی اور سیاسی غیر فعالیت بھی معنی خیز سی ہے۔ البتہ باہر کے بھیڑیے کو میں تو کیا وہ خود بھی سمجھ گئے لہٰذا اگلے ہی دن انھوں نے خرخراتے اور غراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ زرداری کے لیے بھیڑیے ہی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالا صورت حال قطعی جمہوری اور Democide کلچر کا حصہ ہے۔ مجھے یا کسی کو بھی اس سے پریشان ہوکر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ الزام برائے الزام کی سیاست ہے بلکہ میں اپنے گزشتہ کالم میں کہہ چکا ہوں کہ در اصل ہمیں جمہوریت کی عادت ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ ملک وجود میں آنے کے بعد ہمیں بہت سے Systems کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے تجربات و حادثات کو جھیلنا پڑا۔ جنھیں اگر کل ملاکر بھی Democracy کا نام دیا جائے تو میں اختلاف کروں گا۔ وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر، آدھی مرغی آدھا انڈا، آدھی فاختہ آدھا کوا۔ معلوم نہیں کیا تھے۔؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ محض طاقت کی حکومت تھی۔
اداروں کی ہو یا افراد کی حتیٰ کہ باہر سے بلائے گئے Democratic کی۔ بہر حال پیچھے 5 سالہ دور حکومت سے جو نظام ملک میں رائج ہے فی الحال ہم اسے جمہوریت کہہ کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کا تسلسل اسے ایک واقعی جمہوریت میں بدل دے۔ لہٰذا زرداری صاحب کے القابات و آداب جس کے جواب میں انھیں بھی مخالف سمت سے کچھ سہل کرنا پڑتا ہے جمہوریت کی ذرہ نوازی ہیں میں تو اس سے محظوظ ہوتا ہوں۔
خاص طور پر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس ملک میں بھی دھرنے لگے۔ احتجاج ہوا اور جاری ہے کسی نے کسی کو بتایاکہ پاکستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ لوگ کسی کی جاگیر نہیں ملک کے اداروں کی سربراہی کے لیے صرف آپ کے اہل خانہ ہی اہل نہیں باقی تعداد میں سے بھی کوئی ذہین و زمانہ شناس ہوسکتا ہے ٹیکس کی ادائیگی سے لے کر الیکشن ریفارمز تک، بیرون ملک بینکوں میں رکھے گئے سرمایہ کثیر سے لے کر ملک میں ہزاروں ایکڑ اراضی اور درجنوں انڈسٹریز تک۔ کوئی حساب مانگ رہا ہے۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ پولیس کا استعمال کیوں اور کس کے لیے کیا جاتا ہے۔ وہ سرکار کا محکمہ ہے آپ کی ذاتی صنعتوں کے ملازمین نہیں۔ کوئی استفسار کررہاہے کہ صحرائے تھر میں ہزاروں معصوم بچوں کی ہلاکت کا ذمے دار کون ہے؟ میں تو نوافل شکرانہ ادا کرتا ہوں کہ اے مالک حقیقی تیرا شکر ہے ملک میں پہلی بار پٹرول 19 روپے سستا ہوا اور فخریہ اس کا اعلان کیا گیا۔
یہ سب کچھ کس امر کا مرہون منت ہے؟ خوف کا، جی ہاں اس خوف کا کہ اب مقابلہ ہوگا لیکن اس کی ہار جیت طے شدہ نہیں ہوگی۔ اب ملک چلے گا آپ کا گھر نہیں۔ الیکشن کا مطلب الیکشن ہوگا، سلیکشن نہیں، کسی نے بتایا۔ پوری قوم کو دھاڑ کر بتایاکہ جب تک تم ایک قوم نہیں بن جاتے تم ظالم اور ظلم پر قائم نظام سے نہیں جیت سکتے۔ سب کی باریاں آجائیںگی لیکن غربت اور مفلوک الحال اپنی ہر باری پر صرف غربت کہلائے گی۔ اس کے معانی تبدیل نہیں ہوں گے۔ ملک کی 98 فی صد متوسط طبقے کی آبادی کا کوئی فرد کبھی اسمبلیوں تک نہیں پہنچ پائے گا۔ ہاں زرداری صاحب آپ نے درست کہا بھیڑیے نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ لگڑ بھگے دم دباکر اپنی کھولیوں میں سرک رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اب بجلی سستی ہوگی، پٹرول کی قیمت مزید کم ہوگی۔ نئی شاہراہیں تعمیر ہوںگی، نئے ڈیمز بنیںگے، انرجی بحران ختم ہوجائے گا، نوکریاں میرٹ پر ملیںگی، زمینیں سونا اگلیںگی۔ مجھے یقین ہے کہ موسم تک بدل جائیں گے۔ کیوں کہ اب حکومت کے سامنے Opposition ہے۔ بھرپور Opposition ۔ ہر ادارہ اپنی حدود پہچان رہا ہے۔ بظاہر آپ اور آپ کے ہمنوا حکمراں جس تحریک کو ملک کا نقصان قرار دے رہے ہیں یہ وہ عظیم فائدہ ہے جس سے ملک 68 سال تک محروم رہا یہ زہر نہیں امرت ہے۔ فرد کی حکومت ختم ہوئی، شخصی اجارہ داری دم توڑ رہی ہے۔ ایک نیا سورج اپنی سنہری کرنیں لیے طلوع ہورہاہے۔ Nationalism کا سورج، حب الوطنی کا اجالا۔ ایک منتشر گروہ ایک قوم بننے جارہا ہے، ہاں زرداری صاحب آپ نے سچ کہا۔ بھیڑیے نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ وہ گرج رہا ہے، دھاڑ رہا ہے لیکن تنہا نہیں پوری قوم کے ہمراہ ۔