ایبولا وائرس پھیلا کر امریکا نے افریقا میں جراثیمی ہتھیار کا تجربہ کیا شمالی کوریا کا الزام

مغربی افریقا میں ایبولا کی وبا دسمبر 2013ء میں پُھوٹی تھی اور اس کا آغاز گنی سے ہوا تھا


عبدالریحان December 09, 2014
مغربی افریقا میں ایبولا کی وبا دسمبر 2013ء میں پُھوٹی تھی اور اس کا آغاز گنی سے ہوا تھا تاہم پھر لائبیریا اور سیرالیون بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: مغربی افریقا میں موت کا رقص جاری ہے جہاں اب تک چھے ہزار سے زائد لوگ مہلک ترین ایبولا وائرس کے ہاتھوں زندگیاں ہار چکے ہیں، اور ہزاروں مزید موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق لائبیریا، سیرالیون، گنی اور کانگو میں پُھوٹنے والی وبا 30 نومبر تک 6405 زندگیوں کی بھینٹ لے چکی تھی جب کہ مزید 11000 افراد ایبولا کے وائرس کا نشانہ بن کر زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔



مغربی افریقا میں ایبولا کی وبا دسمبر 2013ء میں پُھوٹی تھی۔ اس کا آغاز گنی سے ہوا تھا۔ پھر لائبیریا اور سیرالیون بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ رواں برس اکتوبر میں یہ وسطی افریقا میں واقع ملک کانگو میں بھی وبائی صورت اختیار کرگئی۔ وہاں اب تک ایبولا وائرس کی وجہ سے پچاس ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے ایبولا کو دور حاضر کی بدترین وبا قرار دیتے ہوئے تمام ممالک کو اس سلسلے میں ضروری حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے جس کا اندازہ لائبریا میں سامنے آنے والے 'ڈیتھ سرٹیفکیٹ اسکینڈل' سے ہوتا ہے۔ ایبولا کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والے فرد کی لاش کو مخصوص تھیلے میں بند کرکے دفنایا جاتا ہے تاکہ وائرس کے پھیلنے کا امکان نہ رہے۔ تدفین کی ذمہ داری محکمہ صحت کے اہل کار خود انجام دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے لاش کو لواحقین کے حوالے نہیں کیا جاتا۔



لائبیریا میں محکمہ صحت کے اہل کار، رشوت لے کر، ایبولا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے فرد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنا کر دینے لگے تھے کہ اُس کی موت کا سبب کوئی اور مرض ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کرلیتے تھے اور ان کی آخری رسومات اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ادا کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس اقدام کی وجہ سے بڑی تعداد میں ایبولا کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں دوسرے امراض کے ' کھاتے' میں پڑ گئیں۔

ایبولا کی موجودہ بدترین وبا کا بنیادی سبب اس کے وائرس کا پھیلاؤ ہے مگر شمالی کوریا نے الزام لگایا ہے کہ اس وبا کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے۔ مشرقی ایشیا میں واقع ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا پر تسلط قائم کرنے کے لیے امریکا جراثیمی ہتھیار تیار کررہا ہے۔ اور ان ہتھیاروں کے تجربات کرنے کے لیے اس نے افریقا کے پس ماندہ ممالک کو منتخب کیا ہے۔ ایبولا کی وبا کا پھیلنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔



شمالی کوریا کی مرکزی خبررساں ایجنسی '' کورین سینٹریل نیوز ایجنسی '' (KCNA ) کے مطابق آنجہانی امریکی صدر رونالڈ ریگن کے قریبی ساتھی، رابرٹس نے شمالی کوریا کو خبردار کیا تھا کہ امریکا نے جراثیمی جنگ چھیڑنے کے لیے ایبولا سے ملتا جُلتا وائرس تیار کرلیا ہے۔ ایک امریکی روزنامے کے مطابق رابرٹس سے شمالی کوریا کی مراد پال کریگ رابرٹس ہوسکتی ہے جو معروف ماہر اقتصادیات ہیں۔

کچھ عرصہ قبل پال رابرٹس نے Is The US Government The Master Criminal Of Our Time? کے عنوان سے ایک بلاگ شائع کیا تھا ۔ بلاگ میں دو تحقیقی اداروں کی ایبولا پر کی گئی تحقیق کے اقتباس بھی شامل کیے گئے تھے۔

کے سی این اے کے شائع کردہ مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا نے ایبولا وائرس کی صورت میں جراثیمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کو چودہ کروڑ ڈالر دیے، اور پھر افریقا میں اس کا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ مضمون میں روسی، سنگاپوری اور امریکی روزناموں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ امریکا ایبولا کا توڑ بھی دریافت کرچکا تھا مگر اس نے اپنے مفادات کی خطر اینٹی ایبولا ویکسین سے دنیا کو بے خبر رکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں