بلدیاتی انتخابات پنجاب وسندھ تیاری کریں
عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور سندھ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے لیے ضروری تیاریاں ایک ماہ کے اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا کا بوجوہ گریز ایک معمہ بنا ہوا ہے جس کے لیے آخر کار سپریم کورٹ کو ایک بار حکم جاری کرنا پڑا جس کے تحت عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور سندھ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے لیے ضروری تیاریاں ایک ماہ کے اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے ۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل بینچ نے چیف الیکشن کمشنر کی عدم تقرری کا معاملہ نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ بلدیاتی الیکشن کے لیے سندھ اورپنجاب میں حد بندیوں کا عمل جلد مکمل کرلیا جائے جب کہ دونوں صوبائی حکومتوں کواس ضمن میں ضروری اقدامات اٹھانے اورالیکشن کمیشن سے تعاون کرنے کا کہا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی ہدایت میں واضح طور پر کہا ہے کہ دونوں صوبائی حکومتیں قانون سازی کر لیں تاکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک ماہ میں مکمل ہوجائیں ۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کنٹونمنٹ علاقوں میں انتخابات سے متعلق قانون کا مسودہ حکومت نے تیار کر لیا ہے ، جب کہ دونوں حکومتوں کے نمایندوں نے الیکشن کمیشن حکام سے بھی ملاقات کی ہے ، سندھ نے 30 دن کی مہلت مانگی ہے تاکہ اس دوران حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوسکے جب کہ حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ وہ 15 دن کے اندر مطلوبہ معلومات اور اقدامات سے الیکشن کمیشن کو مطلع کرے گی ۔ عدالت کے اس استفسار پر کہ سندھ 30 دن اور پنجاب 15 دن کے اندر سارے کام کی تکمیل پر تیار ہے ایسا کیوں؟ تو سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شفیع چانڈیو نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے سندھ لوکل باڈیز گورنمنٹ ایکٹ میں بعض ترامیم کے لیے کہا ہے جس کے باعث قانون سازی میں ایک ماہ لگ سکتا ہے جب کہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یونین کونسلوں کی حلقہ بندیوں کے بارے میں وہ الیکشن کی نگرانی پر مامور ادارہ کو تمام مطلوبہ اقدامات سے آگاہ کریں گے۔
ادھر عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق دسمبر کے اختتام تک تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سماعت 8جنوری تک ملتوی کردی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے7 نومبر 2013 کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ 27 نومبر2013 جب کہ پنجاب 7دسمبر2013کو بلدیاتی الیکشن کرائیں ۔شیڈول طے ہوا، اصولًاسندھ، پنجاب اور پختونخوا حکومتوں کو سب کچھ چھوڑ کر عدالتی حکم کی بجا آوری پر لبیک کہتے ہوئے اسی جمہوری اسپرٹ کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کرانے چاہیے تھے۔
جیسا بلوچستان حکومت نے کیا، مگر جب جمہوریت کی بات آجائے تو صوبائی حکومتوں کو عوامی مسائل کے حل کی خاطر الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے مکمل تعاون کرتے ہوئے اس بنیادی جمہوری فرض سے عہدہ برآ ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق عدالتی احکامات کی پیروی سے گریز کیا جاتا رہا۔مگر اب بھی وقت ہے کہ پنجاب ، سندھ اور پختونخوا حکومتیں بلدیاتی الیکشن کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل بینچ نے چیف الیکشن کمشنر کی عدم تقرری کا معاملہ نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ بلدیاتی الیکشن کے لیے سندھ اورپنجاب میں حد بندیوں کا عمل جلد مکمل کرلیا جائے جب کہ دونوں صوبائی حکومتوں کواس ضمن میں ضروری اقدامات اٹھانے اورالیکشن کمیشن سے تعاون کرنے کا کہا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی ہدایت میں واضح طور پر کہا ہے کہ دونوں صوبائی حکومتیں قانون سازی کر لیں تاکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک ماہ میں مکمل ہوجائیں ۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کنٹونمنٹ علاقوں میں انتخابات سے متعلق قانون کا مسودہ حکومت نے تیار کر لیا ہے ، جب کہ دونوں حکومتوں کے نمایندوں نے الیکشن کمیشن حکام سے بھی ملاقات کی ہے ، سندھ نے 30 دن کی مہلت مانگی ہے تاکہ اس دوران حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوسکے جب کہ حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ وہ 15 دن کے اندر مطلوبہ معلومات اور اقدامات سے الیکشن کمیشن کو مطلع کرے گی ۔ عدالت کے اس استفسار پر کہ سندھ 30 دن اور پنجاب 15 دن کے اندر سارے کام کی تکمیل پر تیار ہے ایسا کیوں؟ تو سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شفیع چانڈیو نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے سندھ لوکل باڈیز گورنمنٹ ایکٹ میں بعض ترامیم کے لیے کہا ہے جس کے باعث قانون سازی میں ایک ماہ لگ سکتا ہے جب کہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یونین کونسلوں کی حلقہ بندیوں کے بارے میں وہ الیکشن کی نگرانی پر مامور ادارہ کو تمام مطلوبہ اقدامات سے آگاہ کریں گے۔
ادھر عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق دسمبر کے اختتام تک تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سماعت 8جنوری تک ملتوی کردی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے7 نومبر 2013 کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ 27 نومبر2013 جب کہ پنجاب 7دسمبر2013کو بلدیاتی الیکشن کرائیں ۔شیڈول طے ہوا، اصولًاسندھ، پنجاب اور پختونخوا حکومتوں کو سب کچھ چھوڑ کر عدالتی حکم کی بجا آوری پر لبیک کہتے ہوئے اسی جمہوری اسپرٹ کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کرانے چاہیے تھے۔
جیسا بلوچستان حکومت نے کیا، مگر جب جمہوریت کی بات آجائے تو صوبائی حکومتوں کو عوامی مسائل کے حل کی خاطر الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے مکمل تعاون کرتے ہوئے اس بنیادی جمہوری فرض سے عہدہ برآ ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق عدالتی احکامات کی پیروی سے گریز کیا جاتا رہا۔مگر اب بھی وقت ہے کہ پنجاب ، سندھ اور پختونخوا حکومتیں بلدیاتی الیکشن کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔