کسی پاکستانی حکمران کے انتظار میں

میں اس دلہن کےسوگ اور ماتم میں شریک ہوں جس نےچند روز بعد اپنی زندگی کی سب سےبڑی خوشی اور خواہش کوپورا ہوتے دیکھنا تھا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
یہ پریشاں حال سطریں لکھتے وقت فیصل آباد برباد ہورہا ہے، سرعام گولیاں چل رہی ہیں اور گولیوں کی زد میں ہزاروں پر جوش فیصل آبادی ہیں۔ انھی میں اصغر بھی ہے اور حق نواز بھی، میں بھی ہوں اور آپ بھی، ہم سب کا حال ایک سا ہے۔ روزی روزگار کی تنگی اور امن عامہ سے ہم سب کی محرومی اس لیے کسی پولیس والے یا اس کے ٹاؤٹ کسی گلو کی گولی کے لیے ہم حاضر ہیں، ویسے ہم سے پہلے اصغر اور حق نواز نے یہ حاضری دے دی ہے۔

میں اس دلہن کے سوگ اور ماتم میں شریک ہوں جس نے چند روز بعد اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور خواہش کو پورا ہوتے دیکھنا تھا۔ دلہن جن کو ایک نئی زندگی بسر کرنی تھی لیکن اس کا دلہا اب زیر زمین فریاد کر رہا ہے اور اس کی یہ دلہن برسر زمین۔ ہر طرف فریاد ہی فریاد ہے۔ بات تو فی الحال ایک شہر فیصل آباد کے بند کرنے کی کی گئی تھی لیکن مخلوق خدا جب انتقام کے جذبے لے کر باہر نکلی تو پھر کسی بازار اور دکان کے بند ہونے یا کھلے ہونے کا معاملہ غائب ہو گیا۔ ایک خونریز افراتفری مچی جس میں خون بہنا شروع ہوا اور ملک بھر میں اس سب سے بڑے صنعتی شہر کے ہنگاموں نے ایک اضطراب پھیلا دیا۔

کراچی اور لاہور کی ٹریفک بھی بند ہو گئی ہے کئی اور شہروں کی بھی اور نہ جانے یہ آگ کہاں کہاں پھیل چکی ہے اور کہاں کہاں پھیلتی چلی جائے گی۔ ٹیلی ویژن کی تصاویر ایک بھیانک منظر دکھا رہی ہیں۔ ایک طرف اندھوں کی سفید لاٹھیاں توڑنے والی پولیس ہے دوسری طرف اندھوں جیسے لاچار پاکستانی ہیں۔ دونوں کے درمیان اپنی ہی سرزمین پر ایک معرکا برپا ہے دونوں طرف پاکستانی ہیں اور پاکستان کے مہربان پڑوسی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے کبھی کرنا تھا وہ ہم خود ہی کر رہے ہیں، میں تو خوش ہو رہا تھا کہ اسٹریٹ پاور جاگی ہے احتجاج کر رہی ہے تا کہ اس کے مسئلے حل ہوں اور حکومت اس قومی اور عوامی احتجاج کا عملاً اثر بھی لے رہی ہے جس کا نتیجہ خیر کی صورت میں نکلے گا لیکن فی الوقت جو نتیجہ نکل رہا ہے اس میں خیر کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہماری حکومت اس قدر طاقت ور اور مضبوط ہے کہ اسے عوام کی کچھ پروا نہیں ہے، وہ عوام جو اب پورے ملک میں فریاد کناں ہیں، کیا ان کی فریاد حکمرانوں کے کانوں تک پہنچتی ہے یا نہیں کیونکہ ع امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے۔

امیر شہر سے گزارش کرنی بے سود بھی ہے اگر حکمرانوں کو اپنے عوام کا کچھ اندازہ ہوتا تو وہ کسی ہوائی جنگلہ بس کی جگہ زمین پر توجہ دے کر زندگی کی ضروریات کو آسان بناتے۔ اندیشہ یہ ہے کہ حالات شاید بہت آگے نکل چکے ہیں اور جمہوریت ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ خیال ہے کہ بگڑتے حالات کے آگے بند باندھنے کے لیے کسی انگلی کو اشارہ کرنا ہی پڑے گا۔ حکمران ہوں یا ان کے مخالف سیاستدان ان کے کارکن اب ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور میدان میں ایسے لوگ بکثرت دکھائی دیتے ہیں جو کسی سیاسی پارٹی سے متعلق نہیں ہیں بس عوام ہیں جو اپنے مصائب اور مسائل کا بوجھ اٹھا کر میدان میں ہیں اور اس بوجھ کو اس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جس نے ان پر اسے پھینک دیا ہے اور اب اسے اٹھائے نہ بنے۔


قوم میں انتشار پھیل گیا ہے حکمران خود ہی اپنی حکمرانی اور طرز حکمرانی کا جائزہ لیں جو وہ ہم آپ سے زیادہ بہتر طریقے سے لے سکتے ہیں تو صورت حال ان پر واضح ہو جائے گی۔ حالات موجودہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ صورت تو یہ ہے کہ حکومت اپنی ناکامی تسلیم کر کے جو عزت بچ گئی ہے اس کو سمیٹ کر کسی عافیت کے گوشے میں آرام کرنے چلی جائے اور ملک اور عوام کو کسی ایسی طاقت کے حوالے کر دے جو حالات پر قابو پانے کی اہل ہو اور جس کے پاس ایسے وسائل موجود ہوں کہ عوام کو ٹھنڈا کر کے انھیں ان کے گھروں اور دکانوں کارخانوں میں واپس بھیج دیں اور زندگی کو معمول پر لانے کی سعی کریں نیک نیتی اور بے لوثی ہو تو یہ کام مشکل نہیں کیونکہ کوئی بھی اس انتشار اور افراتفری میں زندگی نہیں گزار سکتا اور نہ گزارنا چاہتا ہے۔

ان دنوں اپوزیشن کی قیادت عمران خان کے پاس ہے اور کئی سیاسی پارٹیاں اور گروہ اس کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں لیکن عمران خان نے رواروی میں جو آگ لگا دی ہے اسے وہ بھی اب بجھا نہیں سکتے حالات ان کے کنٹرول سے باہر نکل گئے ہیں اور ان کے ساتھ جلسوں میں موجود کوئی ایسی سیاسی شخصیت بھی دکھائی نہیں دیتی جس سے کچھ بھی توقع کی جا سکے۔ بظاہر تو یہ حکومت مخالف سرگرمی کا آغاز ہی ہے اور فیصل آباد میں اس نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ دوسرے شہروں میں بھی حالات بگڑ سکتے ہیں کیونکہ جو مسائل اہل فیصل آباد کے تھے وہ لاہوریوں کے بھی ہیں اور کراچی والوں کے بھی اس لیے جہاں بھی عوام کو باہر نکالا جائے گا وہ نکل آئیں گے۔

فیصل آباد کے بارے میں رپورٹ یہ ہے کہ صبح کے وقت بازار کھلے ٹریفک رواں ہو گئی اور معمول کے مطابق زندگی گزرنے لگی لیکن جب یہ پتہ چلا کہ کوئی کارکن قتل کر دیا گیا ہے اور نوبت معمول کے سیاسی احتجاج سے باہر نکل گئی ہے اور کارکنوں کی خونریزی تک جا پہنچی ہے تو پھر شہر بند ہو گیا اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا جو آپ نے ٹی وی پر دیکھا اور تفصیل کے ساتھ اخباروں میں پڑھ لیا یعنی لوگ پرامن رہے مگر جب ان کے امن کو توڑا گیا تو وہ باہر نکل آئے اور ان کے دبے ہوئے دکھ جاگ اٹھے جو بدنظمی اور سرکاری نااہلی نے ان کو عطا کیے تھے اور جن کا سلسلہ جاری تھا۔

بہر کیف یہ تو وہ باتیں ہیں جو گزر چکی ہیں اب تو حالات کو واپس لانے کے لیے عوام کو تسلی چاہیے کہ ان کا حکمران ان کے مسائل پر دھیان دے گا اور ظاہر آنے والی کسی کوشش کے ذریعے ان کی دادرسی کرے گا۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے بلکہ ہمارے وسائل وافر ہیں اور یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان دنیا کا ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن جائے گا لیکن ہمارے اشرافیہ اور اشرافیہ میں شمولیت کے آرزو مندوں نے پاکستان کو الٹا غریب کر دیا اربوں کھربوں لوٹے گئے اور سرعام لوٹے گئے۔ آج یہ ارب پتی اپنی پرانی اسامیوں کی قیادت کے متمنی ہیں تا کہ اگر ان کی ہڈیوں میں بھی کچھ رہ گیا ہے تو اسے بھی چوس سکیں۔ اب یا تو کوئی پاکستانی آئے گا یا پھر یہ لوٹنے والے سب کچھ لوٹ کر اسے ختم ہی کر دیں گے۔
Load Next Story