خونخوار کانٹے اور ہمارا اتحاد

پاکستان میں دہشت گردی، اغواء کاری اور خود کش حملے کا کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو اس کا عذاب ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid December 09, 2014
[email protected]

ہمارے ملک، ہماری سیکیورٹی فورسز اور ہمارے حکمرانوں پر کوئی غیر ملکی الزام عائد کرتا ہے تو ہمارا دل دُکھتا ہے، روح مجروح ہوتی ہے اور ندامت بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ تقریباً 34برس قبل جب سوویت فوجوں نے افغانستان پر قبضہ کیا، تب سے اب تک پاکستان مسلسل تہمتوں اور آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔

دہشت گردی اور دہشتگرد ہمارے لیے مسلسل بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔گزرے ہوئے ان چونتیس برسوں کے دوران پاکستان میں تقریباً ایک درجن حکمران آئے اور چلے گئے لیکن کوئی بھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اب تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی عالمی فورموں پر بیک زبان اعلان اور دعوے کررہے ہیں کہ دہشت گردوں اور دہشتگردی کی ہر معلوم شکل کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں گے۔ خدا کرے یہ اعلان اور دعوے کامیابیوں سے ہمکنار ہوں کہ اسی میں ہماری قومی نجات ہے اور اسی سے ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہے۔

ہم شاید اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں اور ان کی نوجوان آل اولاد کو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں اور ''اپنوں'' کے ہاتھوں اپنوں کا خون بہائے جانے والے واقعات سے کس قدر شدید سبکی اٹھانا پڑ رہی ہے۔ مجھے جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ایک پاکستانی طالب علم کا رنج و غم میں ڈوبا برقی خط ملا ہے۔ اس طالب علم کا نام ہے: محمد بابر فاروق۔ محمد بابر فاروق نے اپنی ای میل میں لکھا ہے: ''میرا تعلق فیصل آباد سے ہے اور مَیں جرمنی کیHohenhiem Stuttgart یونیورسٹی میں تھرڈ سمسٹر کا طالب علم ہوں۔ میرا شعبہ ''نامیاتی زراعت اور نظامِ خورک'' (آرگینک ایگری کلچر اینڈ فوڈ سسٹم) ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی، اغواء کاری اور خود کش حملے کا کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو اس کا عذاب ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ جس دن پاکستان میں دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے، جرمن ساتھی طالب علم میرے اور دیگر پاکستانی طالب علموں کے گرد اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ناقابلِ برداشت اور دل آزار سوال کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر بھی ان سوالات سے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پالتا بھی ہے اور انھیں پناہ بھی مہیا کرتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پاکستانی طالب علم سب الزامات برداشت کرتے ہوئے بہتیرا کہتے اور دلیلیں دیتے ہیں کہ پاکستان خود بھی ان دہشت گردوں سے بہت تنگ ہے، ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے سویلین پاکستانیوں نے پچاس ہزار سے زائد اور افواجِ پاکستان نے چھ ہزار سے زائد جوانوں اور افسروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

ان دلیلوں کے باوجود جرمن میڈیا جو کچھ پاکستان اور پاکستان میں مقیم دہشت گردوں کے بارے میں دکھاتا ہے، اسی پر یہ لوگ یقین کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستان پر عائد کردہ سنگین الزامات سن سن کر دل ٹوٹ جاتا ہے۔'' جناب محمد بابر فاروق نے دکھے دل سے جو ای میل ارسال کی ہے، یہ دکھ ساری دنیا میں پھیلے پاکستانیوں کا مشترکہ دکھ اور سانجھا غم بن گیا ہے۔ رواں ماہ کے دوران ایسی باتیں سن اور پڑھ کر دل مزید پریشان اور دکھی ہوجاتا ہے کہ یہ وہی مہینہ ہے جس کی سولہ تاریخ کو بھارت نے پاکستان کے خلاف کامیاب دہشت گردی کرکے ہمارا ایک بازو کاٹ ڈالا تھا۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کا منظر دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی۔

جن دو''دوست'' ممالک پر ہمارا تکیہ تھا، وہ بھی ہماری مدد کو نہ پہنچ سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا نصف سفینہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا۔ زیادہ المیے کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت نے مسلح دہشت گردی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی حدود کو روند ڈالا، مکتی باہنی بنائی اور اپنے ایجنٹوں کے تعاون سے ہمیں سرنگوں کردیا لیکن عالمی سطح پر کسی نے بھی بھارتی دراندازی اور ہندو کی دہشت گردی کا نوٹس نہ لیا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس کی چھ تاریخ کو، بائیس برس قبل بھارتی بنیاد پرست اور دہشت گردوں نے بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کردیا تھا لیکن عالمِ اسلام میں کسی مسلمان ملک نے بھارت سے ناتہ توڑا نہ اس کے حکمرانوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔

پاکستان اور اہلِ پاکستان نے دامے درمے اس سانحہ عظیم کے خلاف آواز اور بازو بلند کیے، جیسے مسجد کی شہادت کا مسئلہ صرف پاکستان کا ہے۔ جن دہشت گرد قوتوں نے بابری مسجد شہید کی، وہی قوتیں آج بھارت پر حکمران ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی جب بیت المقدس کی بے حرمتی کرتے ہیں، تب بھی عالمِ اسلام صہیونیوں کی دہشت گردی کے خلاف تقریباً خاموش ہی رہتا ہے۔ اس معاملے میں جب بھی کوئی توانا آواز اٹھتی ہے، پاکستان کی طرف سے ہی اٹھتی ہے۔ ترکی اور مصر تو بالخصوص خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات کے بندھن میں بندھے ہیں۔

یہی وہ مہینہ ہے جس کی تیرہ تاریخ کو بھارتی دہشت گردوں نے خود بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور سارا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا۔ اس بہیمانہ واردات پر بھی عالمی آوازیں حلق سے نہ نکل سکیں۔ مسرت انگیز اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور موجودہ سپہ سالارِ پاکستان قدم سے قدم ملا کر دہشت گردی کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی یہ آواز کابل و لندن میں بھی گونجی ہے اور جنرل راحیل شریف کے الفاظ، کسی بھی ابہام کے بغیر، واشنگٹن کے مقتدر سیاسی ایوانوں اور پنٹا گان کے فوجی دفاتر میں پوری توانائی کے ساتھ سنائی دیے گئے ہیں۔ اسے دشمنانِ پاکستان نے بھی سنا ہے اور محبانِ پاکستان نے بھی۔ 6دسمبر 2014کو پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 80ارب ڈالر کا بھاری نقصان اٹھایا ہے۔

دہشت گردوں کے ہاتھوں ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کا قتل اس کے علاوہ ہے۔ اب وزیراعظم اور جنرل صاحب دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے جس اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں، ممکن ہے اس کی برکات سے مذکورہ دونوں بھاری نقصانات کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ واشنگٹن میں جنرل راحیل کا جو تازہ تازہ شاندار خیر مقدم کیا گیا ہے، یہ دراصل پاکستان کے منتخب وزیراعظم کی بھی یکساں توقیر ہے کہ جنرل صاحب اپنے چیف ایگزیکٹو کی اشیرواد سے ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سینہ تان کر اعلان کرسکتے ہیں۔ اس میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ بہر حال محبِ وطن حلقوں میں تشویشناک ہی قرار دیا گیا ہے کہ ُادھر ہمارے عسکری سربراہ امریکا میں تنے ہوئے رسّے پر چل رہے تھے اور اِدھر ہمارے مشیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع نے ایسے بیانات دے ڈالے جو ہماری عسکری قیادت کے امریکیوں سے حساس معاملات کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو پر منفی اثرات مرتب کرسکتے تھے۔

اگرچہ بعد ازاں متعلقہ وزارتوں کی طرف سے اس کی وضاحت اور تصحیح کر دی گئی۔ یہ کہنے کی بھی ابھی غالباً ضرورت نہیں کہ روس ہماری معاشی اور دفاعی ضرورتوں کا متبادل بن سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں گئے کہ سرکاری اور جہادی سطحوں پر یہ نعرے سنائی دیتے رہے ہیں کہ ہم نے روس کو توڑا، اس کی اتنی درگت بنائی کہ اسے دریائے آمو کے پار جا کر ہی سُکھ کا سانس ملا۔ یقینا ان جذباتی نعروں سے ہزیمت خوردہ روس کی بے حرمتی کا پہلو نکلتا ہے اور اسے روسی خفیہ ایجنسیاں بھولی نہ ہوں گی۔ نہ اُس وقت ڈینگ مارنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی اِس وقت روس سے بغلگیر ہوتے ہی آپے سے باہر ہونے کا مظاہرہ کوئی مناسب اقدام ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور ہمارے قدم آگے تب ہی بڑھ سکتے ہیں جب ہماری عسکری اور منتخب سیاسی قیادتیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر راستے میں بکھرے دہشت گردی کے بے شمار خونیں کانٹے متحد ہوکر چن نہیں لیتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں