ہم بے قدرے
پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے اسے سنبھال سنبھال کر، بچا بچا کر رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
وقت گزر جاتا ہے لیکن اس کی تلخ یادیں ذہن پر اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں، پاکستان کو بنے ان اڑسٹھ برسوں میں ہجرت کے ان مناظر کو اس دور کے لوگ اب بھی بھلا نہ پائے، گو ان میں سے بیشتر اب ہم میں نہیں رہے لیکن اس دور کے ننھے بچے بھی ان ادھوری تلخ حقیقتوں کو یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہجرت کا یہ سفر ایک بار نہیں دو بار ہوا، ایک بار دو قومی نظریے کے تحت 1947ء میں اور دوسری بار اپنوں کے ہی بنائے ہوئے انا کے نظریوں کے تحت 1971ء میں غیروں نے جو دکھ دیا سو دیا لیکن اپنوں نے جو درد دیا اس کی چبھن بہت شدید ہے۔
دسمبر کا مہینہ سولہ تاریخ تھی ہم جوان بھرپور انداز میں بڑھتے جا رہے تھے، مجھے ابھی تک وہ سکھ سپاہی یاد ہے جو اچانک میرے سامنے آیا تھا مجھے دبوچ کر وہ شاید مجھے زندہ پکڑ کر قیدی بنانا چاہتا تھا، اچھا خاصا صحت مند لمبا چوڑا اور میں ظاہر ہے کہ اس وقت لڑکا ہی تھا۔ نئی نئی آرمی جوائن کی تھی شوق اور جنون زبردست تھا صرف مجھ میں ہی نہیں بلکہ میرے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا، بہر حال جی جیسا ہی وہ سکھ مجھ پر لپکا تو میں نے اپنے دفاع کے لیے اس پر فائر کھول دیا اور وہ لمحہ بھر میں میرے سامنے ڈھیر ہو گیا، فائر کی آواز سن کر میرے ساتھی بھی جلدی سے مجھے کور کرنے آ گئے لیکن پھر اس سکھ سپاہی کی لاش دیکھ کر سمجھ گئے، انھوں نے ایک طویل سانس بھری، اس اثناء میں مجھ پر کوفت سوار ہو گئی لیکن سولہ تاریخ کو ایسا کیا مختلف ہوا تھا کہ بازی ایک دم پلٹ گئی، میرے سوال پر وہ ذرا چونکے۔ ماضی کے دھندلکے انھیں کہاں سے کہاں لے گئے تھے ... ہاں ... میں خود حیران ہوں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ اچانک ہمیں آرڈر ملا کہ ہم ہتھیار ڈال دیں اور پیچھے ہو جائیں حالانکہ ہم تو بہت آگے تک چلے گئے تھے۔ کیا پاکستانی فوج کمزور پڑگئی تھی۔ ہتھیار ڈالے گئے تھے۔
میرے اس سوال پر وہ ذرا جھنجھلائے بھی ... اتنے برسوں بعد بھی وہ کلیئر نہیں تھے کہ کیا ہوا تھا۔ بھئی ہم تو ادھر ہی تھے اپنے پنجاب میں ... پر لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے ... وہ ہمیں بیک اپ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں ہندوستانی فوج کے سامنے شکست ہو۔ ہمارے حوصلے بہت بلند تھے، ہمارے عوام کے حوصلے بہت بلند تھے لیکن شاید ایسا ہی ہونا تھا۔ قدرت کو یہ منظور تھا، میں تو نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ اور اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ میرے والد مرحوم کو جب اطلاع ملی کہ مجھے بارڈر پر بھیج دیا گیا ہے لڑائی کے لیے تو وہ بہت پریشان ہوئے، میں ان کا بڑا بیٹا تھا ان کا بازو، وہ مجھے ڈھونڈنے میں لگ گئے تھے پر سولہ دسمبر کو ہتھیار ڈالنے کی خبر نے انھیں پہلے سے زیادہ پریشان کر دیا تھا، ایک بیٹے کی فکر دوسرا ہتھیار ڈالنے کی ٹینشن ... کچھ بھی ہو اپنے ملک کی بات پر تو دل تڑپ ہی اٹھتا ہے۔
یہی کوئی تین چار برس پہلے لاہور جانا ہوا تھا جہاں اتفاقاً ہماری ایک ایسے صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جنھوں نے پاکستانی فوج کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ 71ء کی جنگ بھی لڑی لیکن اتنے برسوں بعد بھی وہ حیران تھے کہ جو ہو چکا ہے وہ ہوا کیوں تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اتنے برسوں میں پہلی بار انھوں نے اپنی ماضی کی یادیں ہم سے شیئر کی تھیں لیکن آج بھی انھیں وہ مناظر یاد ہیں جب موت ان کے سامنے تھی۔ ایک پختہ تجربہ کار دشمن کے سامنے ایک نئے جذباتی شوقین لڑکے کی اہمیت کیا تھی لیکن ان کے سچے جذبے نے انھیں دشمن کو ڈھیر کرنے کا موقع دیا۔ انھوں نے بہت کچھ کیا اور سننے والوں نے بہت کچھ بڑے شوق سے سنا۔
پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے اسے سنبھال سنبھال کر، بچا بچا کر رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ہر طرح سے، ہر انداز سے اس کی ہیئت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی اور بالآخر 1971ء میں یہ کوشش رنگ لے آئی۔ حال ہی میں بنگلہ دیش میں 71ء کے حوالے سے دی جانے والی پھانسیوں کے سلسلے نے بہت سی راکھ میں دبی چنگاریوں کو پھر سے ہوا دی ہے۔ اس آگ کے علاوہ بھی چنگاریاں اڑتی رہتی ہیں لیکن ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ ہمیں ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔
بہت سی باتیں جوش سے، جذبات سے، سیاست سے اور حماقت سے کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن اس کے در پردہ ان لوگوں سے پوچھیے جو ان باتوں کو عملی طور پر برت چکے ہیں، کڑوا چکھ چکے ہیں۔ ان کے دلوں میں اب بھی یاد کے کانٹے چبھے ہیں میں ابھی ایک فیملی کے بارے میں پڑھ رہی تھی جو 71ء سے پہلے مشرقی پاکستان میں مقیم تھے گھر کا سربراہ حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ شومئی قسمت سربراہ اپنے اہل خانہ سے دور پر امن مقام پر اور بیوی بچے جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں انتہائی مخدوش حالات میں مشرقی پاکستان میں مقیم تھیں کس طرح ایک بہادر ذمے دار خاتون اپنے بچوں کو اس بدترین ماحول میں جب اپنے بھی بیگانے ہو چکے تھے پاکستان لانے میں کامیاب ہوئی۔
ہم جیسے پڑھنے والوں کے لیے شاید یہ ایک مہم جوئی، دلچسپ داستان کے سوا کچھ نہ ہو لیکن جب خود بخود آنکھیں بند ہو جائیں تو پھر یہ داستان فلم کی طرح ذہن میں چلنے لگتی ہے۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی والے اپنے ہی جیسے لوگوں کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ پہلے بھارتی جنگی طیاروں کی بمباری نے حواس باختہ کر دیے تو پھر اپنے جاننے والوں نے تلاش شروع کر دی۔ ایک ہی شہر میں جہاں کبھی خوب صورت وقت گزارا بارہا بار مقامات بدلے اور اپنا گھر مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں کے ہاتھوں راکھ ہونے کی اطلاع نے کیسا دہلا دیا ہو گا۔
کیا اعلیٰ افسر کیا عام بیوپاری سب ان غنڈوں کے ہاتھوں پریشان تھے لیکن انھیں اپنے شکار کی تلاش سے کسی نے بھی روکنے کی ہمت نہ کی لال ساٹھیہ سے جو کہ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ کے قریب علاقہ تھا کسی طرح چھپتے چھپاتے روپ بدلتے کراچی پہنچے چھ مہینے کا یہ سفر لکھنے میں کتنا مختصر، کتنا سہل لگتا ہے لیکن جن پر یہ گزری تھی ذرا ان کے دلوں سے پوچھیے کہ انھوں نے کس طرح پاکستان کی سرحد پر قدم رکھا اور انھیں تب کہیں جاکر قرار ملا ... یہ قرار، یہ سکون، یہ اپنا پن انھیں اپنے ملک کی سرحد میں نصیب ہوا ... بس ذرا کچھ دیر آپ بھی تصور کریں تو آپ کو بھی اس قرار کی قدر محسوس ہو گی۔
دسمبر کا مہینہ سولہ تاریخ تھی ہم جوان بھرپور انداز میں بڑھتے جا رہے تھے، مجھے ابھی تک وہ سکھ سپاہی یاد ہے جو اچانک میرے سامنے آیا تھا مجھے دبوچ کر وہ شاید مجھے زندہ پکڑ کر قیدی بنانا چاہتا تھا، اچھا خاصا صحت مند لمبا چوڑا اور میں ظاہر ہے کہ اس وقت لڑکا ہی تھا۔ نئی نئی آرمی جوائن کی تھی شوق اور جنون زبردست تھا صرف مجھ میں ہی نہیں بلکہ میرے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا، بہر حال جی جیسا ہی وہ سکھ مجھ پر لپکا تو میں نے اپنے دفاع کے لیے اس پر فائر کھول دیا اور وہ لمحہ بھر میں میرے سامنے ڈھیر ہو گیا، فائر کی آواز سن کر میرے ساتھی بھی جلدی سے مجھے کور کرنے آ گئے لیکن پھر اس سکھ سپاہی کی لاش دیکھ کر سمجھ گئے، انھوں نے ایک طویل سانس بھری، اس اثناء میں مجھ پر کوفت سوار ہو گئی لیکن سولہ تاریخ کو ایسا کیا مختلف ہوا تھا کہ بازی ایک دم پلٹ گئی، میرے سوال پر وہ ذرا چونکے۔ ماضی کے دھندلکے انھیں کہاں سے کہاں لے گئے تھے ... ہاں ... میں خود حیران ہوں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ اچانک ہمیں آرڈر ملا کہ ہم ہتھیار ڈال دیں اور پیچھے ہو جائیں حالانکہ ہم تو بہت آگے تک چلے گئے تھے۔ کیا پاکستانی فوج کمزور پڑگئی تھی۔ ہتھیار ڈالے گئے تھے۔
میرے اس سوال پر وہ ذرا جھنجھلائے بھی ... اتنے برسوں بعد بھی وہ کلیئر نہیں تھے کہ کیا ہوا تھا۔ بھئی ہم تو ادھر ہی تھے اپنے پنجاب میں ... پر لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے ... وہ ہمیں بیک اپ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں ہندوستانی فوج کے سامنے شکست ہو۔ ہمارے حوصلے بہت بلند تھے، ہمارے عوام کے حوصلے بہت بلند تھے لیکن شاید ایسا ہی ہونا تھا۔ قدرت کو یہ منظور تھا، میں تو نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ اور اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ میرے والد مرحوم کو جب اطلاع ملی کہ مجھے بارڈر پر بھیج دیا گیا ہے لڑائی کے لیے تو وہ بہت پریشان ہوئے، میں ان کا بڑا بیٹا تھا ان کا بازو، وہ مجھے ڈھونڈنے میں لگ گئے تھے پر سولہ دسمبر کو ہتھیار ڈالنے کی خبر نے انھیں پہلے سے زیادہ پریشان کر دیا تھا، ایک بیٹے کی فکر دوسرا ہتھیار ڈالنے کی ٹینشن ... کچھ بھی ہو اپنے ملک کی بات پر تو دل تڑپ ہی اٹھتا ہے۔
یہی کوئی تین چار برس پہلے لاہور جانا ہوا تھا جہاں اتفاقاً ہماری ایک ایسے صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جنھوں نے پاکستانی فوج کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ 71ء کی جنگ بھی لڑی لیکن اتنے برسوں بعد بھی وہ حیران تھے کہ جو ہو چکا ہے وہ ہوا کیوں تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اتنے برسوں میں پہلی بار انھوں نے اپنی ماضی کی یادیں ہم سے شیئر کی تھیں لیکن آج بھی انھیں وہ مناظر یاد ہیں جب موت ان کے سامنے تھی۔ ایک پختہ تجربہ کار دشمن کے سامنے ایک نئے جذباتی شوقین لڑکے کی اہمیت کیا تھی لیکن ان کے سچے جذبے نے انھیں دشمن کو ڈھیر کرنے کا موقع دیا۔ انھوں نے بہت کچھ کیا اور سننے والوں نے بہت کچھ بڑے شوق سے سنا۔
پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے اسے سنبھال سنبھال کر، بچا بچا کر رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ہر طرح سے، ہر انداز سے اس کی ہیئت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی اور بالآخر 1971ء میں یہ کوشش رنگ لے آئی۔ حال ہی میں بنگلہ دیش میں 71ء کے حوالے سے دی جانے والی پھانسیوں کے سلسلے نے بہت سی راکھ میں دبی چنگاریوں کو پھر سے ہوا دی ہے۔ اس آگ کے علاوہ بھی چنگاریاں اڑتی رہتی ہیں لیکن ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ ہمیں ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔
بہت سی باتیں جوش سے، جذبات سے، سیاست سے اور حماقت سے کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن اس کے در پردہ ان لوگوں سے پوچھیے جو ان باتوں کو عملی طور پر برت چکے ہیں، کڑوا چکھ چکے ہیں۔ ان کے دلوں میں اب بھی یاد کے کانٹے چبھے ہیں میں ابھی ایک فیملی کے بارے میں پڑھ رہی تھی جو 71ء سے پہلے مشرقی پاکستان میں مقیم تھے گھر کا سربراہ حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ شومئی قسمت سربراہ اپنے اہل خانہ سے دور پر امن مقام پر اور بیوی بچے جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں انتہائی مخدوش حالات میں مشرقی پاکستان میں مقیم تھیں کس طرح ایک بہادر ذمے دار خاتون اپنے بچوں کو اس بدترین ماحول میں جب اپنے بھی بیگانے ہو چکے تھے پاکستان لانے میں کامیاب ہوئی۔
ہم جیسے پڑھنے والوں کے لیے شاید یہ ایک مہم جوئی، دلچسپ داستان کے سوا کچھ نہ ہو لیکن جب خود بخود آنکھیں بند ہو جائیں تو پھر یہ داستان فلم کی طرح ذہن میں چلنے لگتی ہے۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی والے اپنے ہی جیسے لوگوں کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ پہلے بھارتی جنگی طیاروں کی بمباری نے حواس باختہ کر دیے تو پھر اپنے جاننے والوں نے تلاش شروع کر دی۔ ایک ہی شہر میں جہاں کبھی خوب صورت وقت گزارا بارہا بار مقامات بدلے اور اپنا گھر مکتی باہنی کے مسلح غنڈوں کے ہاتھوں راکھ ہونے کی اطلاع نے کیسا دہلا دیا ہو گا۔
کیا اعلیٰ افسر کیا عام بیوپاری سب ان غنڈوں کے ہاتھوں پریشان تھے لیکن انھیں اپنے شکار کی تلاش سے کسی نے بھی روکنے کی ہمت نہ کی لال ساٹھیہ سے جو کہ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ کے قریب علاقہ تھا کسی طرح چھپتے چھپاتے روپ بدلتے کراچی پہنچے چھ مہینے کا یہ سفر لکھنے میں کتنا مختصر، کتنا سہل لگتا ہے لیکن جن پر یہ گزری تھی ذرا ان کے دلوں سے پوچھیے کہ انھوں نے کس طرح پاکستان کی سرحد پر قدم رکھا اور انھیں تب کہیں جاکر قرار ملا ... یہ قرار، یہ سکون، یہ اپنا پن انھیں اپنے ملک کی سرحد میں نصیب ہوا ... بس ذرا کچھ دیر آپ بھی تصور کریں تو آپ کو بھی اس قرار کی قدر محسوس ہو گی۔