مشن 44
دنیاتیزی سےاپنےمفادات کی جنگ میں ایک دوسرےکودبوچ رہی ہےاورہم خودکو باشعور کہنےوالےاپنی لاعلمی کاماتم بھی نہیں کرسکتے۔
وہ چاہتے یہ ہیں کہ ہم آنکھیں ضرور رکھیں لیکن صرف وہ دیکھیں جو وہ دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہتے نہیں بلکہ ہمیں اُس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں جہاں ہم صرف اُن کا حکم سُن سکیں۔ ہمارے کانوں میں کسی مظلوم کی صدا نہ آ سکے۔ وہ اپنی بالادستی کو جتانے کے لیے ہمیں اُس پروپیگنڈا کا شکار کر رہے ہیں کہ ہم صرف اُن کی زبان بولیں۔ ہمارے ذہنوں کو اس قدر مفلوج کر دیا جائے کہ ہم ایک مشین کی صورت میں بس اُن کے پیچھے سر کو جھکائے چلتے رہیں۔ اور آپ یقین نہیں کریں گے ۔۔ مگر ایسا ہو گیا۔ ہم اس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔
دنیا تیزی سے اپنے مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے کو دبوچ رہی ہے اور ہم خود کو باشعور کہنے والے اپنی لاعلمی کا ماتم بھی نہیں کر سکتے۔ چھوڑیں اس کہانی کو امریکا ایران کے ساتھ کیوں دوستی کر رہا ہے۔ بھول جائیں اس بات کو چین کس حد تک روس کے ساتھ ہے۔ کم از کم جسے ہم اپنی شہہ رگ کہتے ہیں اُسے تو دیکھ لیں۔ کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ کشمیر ایسا مسئلہ ہے جہاں سے عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
جسے ہم اپنے دل سے قریب جانتے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے وزیر اعظم کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک مہینے میں تین بار کشمیر کا دورہ کرتا ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہم بے خبروں کو معلوم بھی ہے جس کے لیے ہم نے اپنی جانوں کو قربان کیا اُس پر قبضہ کے لیے کس طرح محاذ کھولے جا رہے ہیں۔ کیوں چیف آف آرمی اسٹاف کو ایک بار پھر کہنا پڑا کہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ بھارت کیوں ہمیں اشتعال دلا رہا ہے اور کیوں وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ اب انڈیا خود ہی مذاکرات کی طرف پہل کرے۔
مودی نے مشن 44+ کا جو کھیل شروع کیا ہے لگتا یوں ہے کہ یہ خطا ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر بیٹھ گیا ہے۔ جہالت کا انبار لگانے والا انڈین میڈیا اس کھیل میں برابر کا شریک لگتا ہے لیکن پاکستان کی خاموشی آخر کب ٹوٹے گی۔ کشمیر کو اپنے اشاروں پر نچانے کی چاہ لیے مودی کیوں اتنا سرگرم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کشمیر کے لیے پاکستان کیا سوچتا ہے اور وہاں سیاسی قبضہ کرنے کے بعد وہ پاکستان کو سبق سکھائے گا۔ وہ چین کو آنکھیں دکھائے گا۔ بھاری سیاسی رشوت دے کر وہاں لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔
کشمیر کے ریاستی الیکشن کے تین مرحلے ہو چکے اور دو مرحلے باقی ہیں۔ ریاستی ادارے جس طاقت کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کشمیر کی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹنگ والے انتخابات ہیں اس کے بالکل برعکس رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔ کشمیری جس تیزی کے ساتھ سیاسی عمل میں داخل ہو رہے تھے۔ مودی سرکار کی پالیسی کی وجہ سے وہاں ایک بار پھر پر تشدد کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت کے نعرے کے پیچھے ان تینوں کو پیروں تلے روندھا جا رہا ہے۔
انسانیت کا نعرہ لگانے والی مودی سرکار وہ سیاسی بازی کھیل رہی ہے جس سے انسانیت بھی شرما رہی ہے۔ کشمیر کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے وہاں کے سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن مودی سرکار انسانیت کے نام پر وہاں متاثرین کو بلیک میل کر رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ 1000 کروڑ روپے وہاں لوگوں کو دیے جائیں گے لیکن دلی کی مرضی کے بغیر اُس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جا رہا۔ اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور لوگوں کو زبردستی BJP کے امیدواروں کی حمایت کے لیے کہا جا رہا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں 1000 سے زیادہ کشمیری نوجوان لاپتہ ہیں۔ 8 نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مودی کشمیر میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ 30 سالہ تاریخ میں پہلی بار فوجیوں کو سزا ہوئی۔ لیکن کوئی اُن سے پوچھیں کہ ہزاروں نوجوانوں کے قاتل آج بھی روز کسی نہ کسی گاؤں سے نوجوانوں کو لاپتہ کر رہے ہیں۔ LOC پر فائرنگ اس لیے کی جا رہی ہے لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ وہ کس حد تک خوفزدہ کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس الیکشن کے وقت حریت رہنماؤں کی اکثریت یا تو گرفتار ہے یا پھر نظر بند۔
مقصد وہ ہی ہے جو آج تک BJP کا رہا ہے لیکن اس کو لبادہ جمہوریت کا پہنایا جا رہا ہے۔ جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کی جگہوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اسی طرح کا منصوبہ مودی سرکار کا بھی ہے۔ 90 ء کی دہائی میں کشمیر میں ہونے والی پرتشدد کارروائی میں ہندو پنڈت جس تعداد میں ہجرت پر مجبور ہوئے اُسی تعداد میں مسلمانوں نے بھی ہجرت کی۔ لیکن جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر الگ آبادیاں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمین لے کر وہاں بسانے کا پروگرام بن چکا ہے۔ انڈیا ہوم منسٹری کے مطابق ہر ہندو پنڈت فیملی کو 20 لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں۔
ایک ہزار سے زائد پنڈت نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق کرنے پر حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا بیان اور موقف جان دار نظر آتا ہے۔ وزنی موقف یہ ہی ہے کہ ہندو پنڈت کشمیر کا حصہ ہیں اور انھیں اگر آباد ہی کرنا ہے تو انھیں اپنے اصل گھروں میں ہی منتقل کیا جائے اُن کے لیے الگ آبادیاں نہ بنائی جائیں۔ اگر سیکڑوں ایکڑ پر اس طرح الگ الگ آبادیاں بنائی جائیں گی تو ہندووں اور مسلمانوں میں خلیج بڑھے گی۔ کشمیری یہ ہر گز نہیں چاہتے لیکن لگتا یوں ہے کہ ہندوتوا کا خواب دیکھنے والی مودی سرکار یہ ہی چاہتی ہے۔
کشمیر میں 1950ء سے اب تک 13 گورنر رہ چکے ہیں اور سب کے سب ہندو لیکن اب BJP آرمی کے ایک ریٹائرڈ مسلمان کو گورنر بنانا چاہتی ہے جو اُن کے اشاروں پر چلتا رہے۔ وہ واضح طور پر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے جموں جہاں ہندو اکثریت میں ہو اور کشمیر جہاں مسلمان ہو۔ ایسی ہی پالیسی وہ لداخ کے بدھسٹوں کے لیے بنا رہی ہے۔ کشمیر کے اس الیکشن میں کچھ بھی نیا ہے۔ PS ورما نے کہا تھا کشمیر میں ہونے والے تمام الیکشن ایک ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ ہی سیاسی طور پر نااہلی، وہ ہی جعلی ووٹ اور وہ ہی پورا تماشہ ۔۔ مگر ایک چیز نئی ہے اور وہ ہے BJP کا کشمیر کو ہر صورت میں فتح کرنا۔ اس نشے میں صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورا خطہ متاثر ہو گا۔
مودی سرکار یہ ہی چاہتی ہے کہ کشمیر میں نہ انسانیت رہے نہ کشمیریت نہ ہی جمہوریت ۔۔ اور اس کے لیے وہ حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ ایک طرف سیلاب سے متاثرین ہیں نوجوانوں میں اس حوالے سے غصہ ہے۔ ان کے ساتھیوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے اور پھر دوسری طرف LOC پر جان بوجھ کر فائرنگ کر کے تناؤ پیدا کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کشمیری نوجوان کیا کریں گے۔ جب انھیں سیاسی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہو اور اگر ایسے میں نوجوانوں کو ہتھیار ہی سب سے آ سان طریقہ لگتا ہے۔ تو پھر انڈیا اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کن شعلوں کو ہوا دے رہا ہے۔ اور لگتا یوں ہے کہ مودی سرکار یہ ہی چاہتی ہے۔
کہ کشمیر کے نوجوان خود کو قلم سے دور کر لیں اور ایسے میں یہ لطیفہ بھی کیسا لگتا ہے کہ جب کہیں حملہ ہو جائے تو اُسے پاکستان سے جوڑ دیا جائے کوئی ثبوت نہ ملے تو ایک چکن کی تھیلی پیش کر دی جائے کہ حملہ آور یہ تھیلی بھی پاکستان سے لائے تھے۔ کشمیر میں اپنے قبضے کے بعد اصل ہدف پاکستان ہے اور اُس کے ساتھ چین کو بھی سبق سیکھانا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ بھلا دی جاتی ہے کہ اس طرح کی تمام کوششوں کا نتیجہ کیا ہوا ہے۔ اپنی خواہشات کے لیے جنت کو جنگل میں نہ بدلا جائے لیکن عقل سے پیدل لوگوں کو کسی بھی مسند پر بیٹھا دیا جائے انجام تباہی ہے اور وہ اب زیادہ دور نہیں لگ رہی ۔۔۔۔ انگریزوں سے آزادی کا جشن منانے والے انگریز کے فارمولے پر ہی ہیں، یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو۔