انسانی حقوق کا عالمی دن
دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک امریکا میں حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ کالوں کے بچوں کے اسکول علیحدہ ہیں۔
دنیا بھر میں ہر برس 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی جائے، انسان کا انسان پر انفرادی طور پر بھی ظلم ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورے کے پورے معاشرے ظلم و جبر کا شکار ہو جاتے ہیں حیرت کا مقام یہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کرنے والے معاشرے میں تعداد کے اعتبار سے گنتی کے لوگ ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ یہ ظلم و جبر صرف پسماندہ معاشروں تک محدود ہو بلکہ یہ ظلم وجبر کا یہ سلسلہ ترقی یافتہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
آج جب کہ ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک امریکا میں حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ کالوں کے بچوں کے اسکول علیحدہ ہیں کالے لوگوں کے لیے بسیں، اسپتال، ہوٹل، کلب، آبادیاں تک علیحدہ ہیں ستم تو یہ ہے کہ گوروں نے اپنے ہوٹلوں و کلبوں کے سامنے واضح انداز میں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کالوں اورکتوں کا داخلہ منع ہے۔ یہ اسی امریکا کا ذکر ہے جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے بلکہ یہ وہی امریکا ہے جہاں بیمارکتوں و بلیوں کے لیے علاج گاہیں موجود ہیں مگر امریکی گورے لوگوں کو ان کی کالی رنگت کے باعث برابر کے شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک امریکا ہی کیا مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں کالی رنگت والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، پڑوسی بھارت میں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ہونے کا بھی دعوے دار ہے ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے۔
جو اعلیٰ ذات کے گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ چھوٹی ذات والوں پر ہر طرح ظلم کر سکتا ہے۔ جس ذہن میں برتری کا یہ خناس موجود ہو اس انسان کو دوسرے انسانوں پر جبر سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اب اگر ذکر خیر کریں وطن عزیز پاکستان کا تو یہاں گویا حالات یہ ہیں کہ نا تو کسی کو بہ حیثیت پاکستانی یہ ادراک ہے اور نامعلوم کہ انسانی حقوق ہوتے کیا ہیں؟ یہاں اگرچہ ملک آزاد ہوئے 67 برس بیت گئے مگر آج بھی 18 کروڑ 6 لاکھ پاکستانیوں میں 18 لاکھ لوگ نجی جیلوں میں اسیر ہیں۔ ان 18 لاکھ اسیران کو جو خوراک دی جاتی ہے وہ پسی ہوئی لال مرچ کے ساتھ روٹی وہ بھی 24 گھنٹے میں ایک بار۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ لوگ کسی چار دیواری میں اسیر ہوں بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس وڈیرے کے یہ لوگ گویا زرخرید غلام ہوں پس جہاں اس وڈیرے کی جاگیر کی حدود ختم اس سے آگے ان بے بس لوگوں کی آزادی بھی ختم۔
اب اگر ان لوگوں تک اگر کسی کی رسائی ممکن ہو اور وہ ان لوگوں سے یہ سوال کر بیٹھے کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ اور آزاد زندگی کیوں نہیں بسر کر سکتے تو یہ لوگ آزادی اور مذہب کے معنی بتانے سے بھی قاصر ہوں گے اب اگر کوئی سوال کرے کہ ان لوگوں کی آزادی سلب کرنے والے کون لوگ ہیں تو وہ جان لیں بلاشبہ ان کی آزادی سلب کرنے والوں اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کرنے والے وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں تشریف فرما ہیں یا ان کے زیردست لوگ ہیں اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ نجی جیلوں کے ان اسیران کو آزادی کی زندگی کب نصیب ہو گی؟ تو عام فہم جواب یہ ہے کہ جب تک حکومتی ایوانوں میں خان، وڈیرے، جاگیردار و سردار بیٹھے ہیں کوئی بھی ان 18 لاکھ بے بس لوگوں کی آزادی کا تصور بھی نہ کرے۔
انسانی حقوق کی پامالی کی یہ ایک تصویر ہے۔ اب اس کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی بااثر فرد یا افراد کو کسی سے عناد یا عداوت ہے اور مدمقابل کسی اقلیتی مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو وہ بااثر فرد یا افراد اپنے مدمقابل پر توہین رسالتؐ کا الزام عائد کر دیتے ہیں اس سے آگے ان کا کام آسان کرنے کے لیے رجعت پسند مولوی حضرات یا وہ بے عمل جنت میں جانے کے طلب گار خود ہی کر دیتے ہیں۔ یوں بھی ان الزام تراشی کرنے والوں و مذہب کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں و قتل و غارت کرنے والوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں۔
آخر میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے سرکاری ادارے کا بھی ذکر ہو جائے۔ جی ہاں محکمہ پولیس۔ اس محکمے کے ملازم مادر پدر آزاد ہیں۔ یہ لوگ جسے چاہیں حوالات میں بے قصور بند کر دیں اور چور ڈاکو، دہشت گرد ظاہر کر کے جعلی پولیس مقابلے میں اس کی جان لے لیں۔ کسی کی کیا مجال جو ان سے جواب طلبی کر سکے۔ یوں بھی عام شہریوں کی حفاظت کی بجائے یہ لوگ VIP لوگوں کی حفاظت کے لیے زیادہ تر مامور ہوتے ہیں یوں بھی قانون کی پاسداری لوگوں سے کرانے کی بجائے زیادہ توجہ ان لوگوں کی مال بنانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کی بجائے سیاسی بنیادوں و رشوت کے بل بوتے پر محکمہ میں بھرتی ہوتے ہیں جبھی تو ان پولیس والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم سے بڑا طاقتور کون ہے؟
اگر کوئی ہم سے بڑا ہے تو سامنے آئے۔ اب ایسی پولیس سے قانون کی پاسداری یا خیر کی امید رکھنا عبث ہی ہو گا۔ آج انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم حکومتی ایوانوں میں ایسے لوگوں کو بٹھائیں گے جو انسانیت کا احترام کرنے والے و درد دل رکھتے ہوں جو ایسی قانون سازی کریں کہ جس سے ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسانوں کے حقوق پامال نہ ہوں جو وڈیراشاہی نظام کا مکمل خاتمہ کرسکیں جو نجی جیلوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے موجودہ انسان کش کلچر کا خاتمہ کرسکیں جو اقلیتوں کے ساتھ ساتھ تمام مظلوم لوگوں کو تحفظ دے سکیں اگر ایسا کرلیا تو ٹھیک ورنہ اپنے اس زوال پذیر معاشرے کی تباہی کے ہم خود ذمے دار ہوں گے کیا ہم ایسا کرپائیں گے؟