امن ہمارے اندر ہے
پوری دنیامیں سترہویں صدی میں یہ خیال ابھرا کہ انسان آزاد پیدا ہوتاہےلیکن اسےہرجگہ پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑاجاتاہے۔
قدیم ہندوستان میں اشوک اعظم کی طرف سے متعدد شاہی فرمان جاری ہوئے جنہیں حقوق انسانی کے ابتدائی تصورات کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اشوک اعظم نے 265 سے 238 ق۔ م تک ہندوستان اور افغانستان پر حکومت کی۔ اشوک اعظم کو اس ناتے سے ایشیاء میں ''بابائے انسانی حقوق'' کہا جا سکتا ہے۔ کئی دانشور اشوک بادشاہ کے شاہی فرامین کو دنیا میں انسانی حقوق کا پہلا عالمگیر اعلامیہ قرار دیتے ہیں، اشوک بادشاہ نے جانوروں کے حقوق کے متعلق بھی فرمان جاری کیے۔
ہندوستان کی موجودہ ریاست اڑیسہ میں برپا ہونے والی خونی جنگ کے بعد اشوک بادشاہ نے تشدد کو ترک کر کے بدھ مت اختیار کر کے تبلیغ کا راستہ چن لیا اور تمام مذاہب اور عقیدوں کے احترام اور آزادی کی پالیسی اختیار کی۔ اشوک بادشاہ نے بہت سارے فرمان چٹانوں اور ستونوں پر کندہ کروائے بشمول شیر کی شبیہہ والے سارناتھ کے ستون کے جو آج کل ہندوستان کا قومی نشان ہے، چٹا نوں پر کندہ 14 فرمانوں میں سے مندرجہ ذیل بنیادی حقوق سے مناسبت رکھتے ہیں (1) جانوروں کا سر عام ذبح کر نا ممنوع ہو گا (2) جانوروں کے لیے شفا خانے بنائے جائیں (3) وزراء کا فرض ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے دھرم کو فر وغ دیں (4) ہر مذہب کے لوگ اپنے علاقے میں آرام و سکون سے رہیں اس حق میں مداخلت نہ ہو گی (5) دھرم کا مطلب یہ ہے کہ نوکروں، ملازموں کے ساتھ حسن سلوک اور اساتذہ کا احترام (6) تمام جانوروں، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تحمل اور فراخ دلی کا برتاؤ کیا جائے اور کسی بھی جاندار کو قتل نہ کیا جائے ۔
(7) تمام مذاہب کے بنیادی عقائد کو فروغ دیا جائے۔ رواداری اور برداشت کے لحاظ سے دوسرا معتبر اور قابل ذکر نام ہندوستان کے شنہشاہ اکبر اعظم کاہے شنہشاہ اکبر نے کئی انسانی حقوق کو مروج اور مختلف سماجی اور مذہبی روایات کی برداشت کو فروغ دیا جس میں اپنے عقائد کے مطابق پرستش کا حق بھی شامل تھا اکبر شہنشاہ نے تعصب اور عدم رواداری کی ممانعت اور اپنی بادشاہت میں غیر مسلموں پر اضافی ٹیکس کا خاتمہ کر دیا۔ شہنشاہ اکبر اس بات کی وکالت کر تا تھا کہ کسی بھی فرد کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور ہر فرد کو کوئی بھی عقیدہ اختیار کر نے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جب یورپ احیائے علوم سے برسوں پیچھے تھا تو شہنشاہ اکبر اس قسم کی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
شہنشاہ اکبر نے غلامی اور ستی جیسے غیر اخلاقی رواجوں کی حوصلہ شکنی کی، اس طرح شہنشاہ اکبر نے حقوق انسانی کے احترام کو عملی طور پر لاگو کیا۔ پوری دنیا میں سترہویں صدی میں یہ خیال ابھرا کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن اسے ہر جگہ پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، پابندیوں کے ساتھ آزادی کا تصور بے معنی ہے قانونی اعتبار سے بنیادی حقوق جدید دور کی جمہوری ریاست کے شہریوں کی وہ مراعات ہیں جنہیں ریاست تسلیم کر کے نافذ کرتی ہے۔ جب حقوق کو آئینی تحفظ دے دیا جائے تو انھیں بنیادی حقوق کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ انھیں حکومت کی مداخلت بے جا سے بھی تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ بنیادی حقوق کو آئینی دستاویز میں شامل کرنے کا آغاز دور جدید میں امریکن نظام میں ملتا ہے بنیادی حقوق کا تعلق انسانی معاشرے سے اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر ایک اچھے معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
بنیادی حقوق کی تاریخ انقلاب فرانس 1789ء کے بعد شروع ہوتی ہے انقلاب کے بعد انسانی حقوق کی بنیاد رکھی گئی اور باقاعدہ انسانی حقوق کا اعلان نامہ شایع ہوا زمانہ جدید میں جب آئین سازی کا رواج شروع ہوا تو فرانس کی تقلید کرتے ہوئے آئین میں ایک باب بنیادی انسانی حقوق کا بھی رکھا جاتا ہے 1973ء کا آئین پاکستان کا تیسرا قومی آئین ہے یہ آئین 10 اپریل 1973ء کو منظور ہوا 13 اپریل1973ء کو ا س پر صدر مملکت نے دستخط کیے۔ اور 14 اگست 1973ء کو مکمل نافذ ہوا۔ آئین پاکستان میں بنیادی حقوق کا ذکر حصہ دوم کے شروع میں ہے آئین پاکستان میں کل دفعات 280 ہیں بنیادی حقوق کا ذکر دفعات 8 سے 28 تک ہے بنیادی حقوق ہر شہر ی کو بلا امتیاز رنگ و نسل، عقیدے، ذات اور مذہب کے حاصل ہوتے ہیں۔
ملک میں ان بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کا اولین فرض ہے کہ ان بنیادی حقوق کا تحفظ کریں اور یہ اختیار اعلیٰ عدالتوں کو آئین کی دفعہ 184 کے ذیلی دفعہ3 کے تحت حاصل ہے آرٹیکل نمبر9 کے تحت کسی بھی شخص کو زندہ رہنے کے حق جو کہ اسے قانون کے مطابق حاصل ہے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس آرٹیکل کی وضاحت اس طرح ہے کہ زندہ رہنے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے اس بات کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی دوسرے پر ہاتھ اٹھائے اور اس کی زندگی کو ختم کر دے۔ ملٹن کا قول ہے جو آزادی کا دلدادہ ہو اس کو اس سے پہلے دانا اور دیانتدار ہونا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آزادی نہ فروخت ہوتی ہے اور نہ ہی بخشی جاتی ہے بلکہ اس کو حاصل کر نے کے لیے عملی جدوجہد، ایثار، قربانی اور استعداد کی ضرورت ہے۔ اسلام ہمیں سکھا تا ہے کہ امن باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ خود انسان کی ذات کے اندر ہی موجود ہے۔
اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ آدمی کو اپنی فکر میں آزادی اور تنقید کے رویے کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ہمیں صرف اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا منفی سو چ کے بجائے مثبت سوچ پیدا کرنی ہو گی ایک دوسرے کو تسلیم اور برداشت کر نا ہو گا ایک دوسرے سے محبت کرنا ہو گی اور یہی سو چ ہماری تخلیقی سو چ کو آزاد کر دے گی۔ ہم زندگی کی جنگ میں ہار ے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے ہیں۔ آپ کو ئی ایک ملک بتا دیجیے جہاں سو فیصد ایک مذہب، فرقے، زبان، مسلک، رنگ یا نسل کے لوگ رہتے ہوں جہاں تک آپ کی نظریں یا سو چ جا سکتی ہے دیکھ لیں اور سو چ لیں ایک بار پھر دیکھ لیں اور سو چ لیں ہر بار آپ کو احساس ہو گا کہ دنیا بھر کے لوگوں نے اختلاف، مختلف نقطہ نظر، مختلف عقیدوں، مختلف مذاہب کے باوجود امن و محبت و اتحاد کے ساتھ اور ایک ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احترام بھی سیکھ چکے ہیں پوری دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا یہ ہی راز ہے کہ انھوں نے اختلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ یاد رہے بڑے سے بڑا جہاز اس وقت تک نہیں ڈوب سکتا جب تک اس کے اندر سوراخ نہ ہو جائے۔
اختلاف پر اختلاف بڑی جہالت ہے مذہب انسانوں کے ہوتے ہیں ریاست کے نہیں۔ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہوتا ہے عقیدہ انسان کو خدا سے جوڑتا ہے جب کہ ریاست کا تعلق شہریوں سے ہوتا ہے نہ ہر شہری کا مذہب ایک ہوتا ہے نہ عقیدہ نہ ایک زبان۔ ایک ریاست کو چلانے کے لیے ایک غیر جانب دار، غیر مذہبی قانون کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہر شہری اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکے۔ ہمیں 67 سال گزر چکے ہیں مذہبی نفر توں میں جلتے ہوئے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہوئے۔ جون ایلیا کہتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کر نے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔ آئیں ہم بھی پوری دنیا کی طرح اختلاف پر اتفاق کر لیں۔ تا کہ ہمیں بھی ایک دوسرے کی محبت، اخوت، پیار نصیب ہو سکے اور ہم بھی دنیا بھر کے ہم سفر بن سکیں۔