انتخابی عذرداریوں کے فیصلے دو سابق وزرائے اعلیٰ کامیاب
2 سابق وزرائے اعلیٰ کے حق میں فیصلوں سے سندھ میں نئے سیاسی امکانات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں
KARACHI:
سندھ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران الیکشن ٹریبونلز نے دو اہم انتخابی عذر داریوں کا فیصلہ سنایا ہے، جن کے تحت دادو سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس ۔ 76 سے پیپلز پارٹی کی خاتون رکن پروین عزیز جونیجو کے مقابلے میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت علی خان جتوئی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے جبکہ خیرپور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 215 سے پیپلز پارٹی کے رکن نواب علی وسان کے مقابلے میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
لیاقت علی خان جتوئی نے رکن سندھ اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ دو سابق وزرائے اعلیٰ کے حق میں الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں سے سندھ میں نئے سیاسی امکانات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پی ایس 76 دادو سے پیپلز پارٹی کی خاتون امید وار پروین عزیز جونیجو 56938 ووٹ لے کر کامیاب قرار دی گئی تھیں جبکہ ان کے مد مقابل لیاقت علی خان جتوئی نے 22803 ووٹ لیے تھے۔ اس طرح 34135 ووٹوں کا فرق تھا جبکہ این اے 215 خیرپور سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب علی وسان 91809 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے تھے جبکہ ان کے مد مقابل سید غوث علی شاہ نے 66481 ووٹ لیے تھے اور وہ 24318 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔
لیاقت علی خان جتوئی اور سید غوث علی شاہ نے ان نتائج کو الیکشن ٹریبونلز میں چیلنج کیا تھا ۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الیکشن ٹریبونلز ان کے حق میں فیصلہ دیں گے کیونکہ بالترتیب 34 ہزار اور 24 ہزار سے زائد ووٹوں کا فرق تھا۔ الیکشن ٹریبونلز کا فیصلہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ حیرت انگیز بھی ہے۔ اگر 34 ہزار اور 24 ہزار ووٹوں سے ہارنے والے دوبارہ گنتی میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر باقی ماندہ انتخابی عذر داریوں پر کچھ بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
سید غوث علی شاہ نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس ۔ 29 پر بھی انتخابی عذرداری داخل کر رکھی ہے۔ اس نشست پر سید قائم علی شاہ کو منتخب قرار دیا گیا تھا اور وہ اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے 44362 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں سید غوث علی شاہ نے 29953 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہاں فرق صرف 14409 ووٹوں کا ہے۔ اگر اسی حلقے کی قومی اسمبلی کی نشست سے سید غوث علی شاہ کو 24 ہزار ووٹوں کے فرق کے باوجود کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے تو 14 ہزار ووٹوں کے فرق پر بھی کوئی فیصلہ آسکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں ابھی سے قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں۔
اگر الیکشن ٹریبونل نے سید قائم علی شاہ کے خلاف فیصلہ دے دیا اور ان کے مقابلے میں سید غوث علی شاہ کو کامیاب قرار دے دیا تو لازمی طور پر سید قائم علی شاہ کو سندھ کی وزارت اعلیٰ چھوڑنی پڑے گی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی میں بھی وزارت اعلیٰ کیلئے کسی شخص کو نامزد کرنے کیلئے نہ صرف مسائل پیدا ہوں گے بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومت کو ایک بڑا جھٹکا لگے گا۔ ابھی سے کچھ لوگوں نے پیپلز پارٹی کے اندر وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے لابنگ اور کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اب سب لوگوں کی نظریں پی ایس۔ 29 خیرپور کے حوالے سے انتخابی عذرداری کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے فیصل آباد کے بعد کراچی کو بند کرنے کے لیے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ مئی 2013 ء کے انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کراچی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ طویل عرصے کے بعد ایم کیو ایم کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے حامی مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ نکلے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی میں بہت بڑے جلسے بھی منعقد کر چکی ہے۔
انتخابی دھاندلیوں کے خلاف سب سے پہلے تحریک انصاف نے کراچی سے تحریک شروع کی تھی۔ 12 دسمبر کو سیاسی طاقت کے مظاہرے کے لیے تحریک انصاف کے کارکن دن رات تیاریوں میں مصروف ہیں اور وہ عوامی رابطوں کے ذریعے لوگوں کو احتجاج کے لیے متحرک کر رہے ہیں۔ یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کراچی صرف پاکستان کا معاشی حب ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سیاست کو بھی یہ شہر بہت حد تک کنٹرول کرتا ہے۔ یہاں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے سے پاکستان کو بہت زیادہ معاشی نقصان ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی یہ کوشش ہو گی کہ یہ شہر بند نہ ہو اور دنیا کو یہ تاثر بھی نہ ملے کہ تحریک انصاف اس شہر پر سیاسی کنٹرول حاصل کر چکی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی طے کر رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بھی تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے کے لیے مختلف انتظامی اقدامات کر رہی ہے ۔ اگر تحریک انصاف کراچی کو بند کر دیتی ہے تو اس کو سیاسی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے۔
سندھ میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران الیکشن ٹریبونلز نے دو اہم انتخابی عذر داریوں کا فیصلہ سنایا ہے، جن کے تحت دادو سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس ۔ 76 سے پیپلز پارٹی کی خاتون رکن پروین عزیز جونیجو کے مقابلے میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت علی خان جتوئی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے جبکہ خیرپور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 215 سے پیپلز پارٹی کے رکن نواب علی وسان کے مقابلے میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
لیاقت علی خان جتوئی نے رکن سندھ اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ دو سابق وزرائے اعلیٰ کے حق میں الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں سے سندھ میں نئے سیاسی امکانات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پی ایس 76 دادو سے پیپلز پارٹی کی خاتون امید وار پروین عزیز جونیجو 56938 ووٹ لے کر کامیاب قرار دی گئی تھیں جبکہ ان کے مد مقابل لیاقت علی خان جتوئی نے 22803 ووٹ لیے تھے۔ اس طرح 34135 ووٹوں کا فرق تھا جبکہ این اے 215 خیرپور سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب علی وسان 91809 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے تھے جبکہ ان کے مد مقابل سید غوث علی شاہ نے 66481 ووٹ لیے تھے اور وہ 24318 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔
لیاقت علی خان جتوئی اور سید غوث علی شاہ نے ان نتائج کو الیکشن ٹریبونلز میں چیلنج کیا تھا ۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الیکشن ٹریبونلز ان کے حق میں فیصلہ دیں گے کیونکہ بالترتیب 34 ہزار اور 24 ہزار سے زائد ووٹوں کا فرق تھا۔ الیکشن ٹریبونلز کا فیصلہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ حیرت انگیز بھی ہے۔ اگر 34 ہزار اور 24 ہزار ووٹوں سے ہارنے والے دوبارہ گنتی میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر باقی ماندہ انتخابی عذر داریوں پر کچھ بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
سید غوث علی شاہ نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس ۔ 29 پر بھی انتخابی عذرداری داخل کر رکھی ہے۔ اس نشست پر سید قائم علی شاہ کو منتخب قرار دیا گیا تھا اور وہ اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق انہوں نے 44362 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں سید غوث علی شاہ نے 29953 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہاں فرق صرف 14409 ووٹوں کا ہے۔ اگر اسی حلقے کی قومی اسمبلی کی نشست سے سید غوث علی شاہ کو 24 ہزار ووٹوں کے فرق کے باوجود کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے تو 14 ہزار ووٹوں کے فرق پر بھی کوئی فیصلہ آسکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں ابھی سے قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں۔
اگر الیکشن ٹریبونل نے سید قائم علی شاہ کے خلاف فیصلہ دے دیا اور ان کے مقابلے میں سید غوث علی شاہ کو کامیاب قرار دے دیا تو لازمی طور پر سید قائم علی شاہ کو سندھ کی وزارت اعلیٰ چھوڑنی پڑے گی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی میں بھی وزارت اعلیٰ کیلئے کسی شخص کو نامزد کرنے کیلئے نہ صرف مسائل پیدا ہوں گے بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومت کو ایک بڑا جھٹکا لگے گا۔ ابھی سے کچھ لوگوں نے پیپلز پارٹی کے اندر وزارت اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے لابنگ اور کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اب سب لوگوں کی نظریں پی ایس۔ 29 خیرپور کے حوالے سے انتخابی عذرداری کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے فیصل آباد کے بعد کراچی کو بند کرنے کے لیے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ مئی 2013 ء کے انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کراچی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ طویل عرصے کے بعد ایم کیو ایم کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے حامی مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ نکلے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی میں بہت بڑے جلسے بھی منعقد کر چکی ہے۔
انتخابی دھاندلیوں کے خلاف سب سے پہلے تحریک انصاف نے کراچی سے تحریک شروع کی تھی۔ 12 دسمبر کو سیاسی طاقت کے مظاہرے کے لیے تحریک انصاف کے کارکن دن رات تیاریوں میں مصروف ہیں اور وہ عوامی رابطوں کے ذریعے لوگوں کو احتجاج کے لیے متحرک کر رہے ہیں۔ یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کراچی صرف پاکستان کا معاشی حب ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سیاست کو بھی یہ شہر بہت حد تک کنٹرول کرتا ہے۔ یہاں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے سے پاکستان کو بہت زیادہ معاشی نقصان ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی یہ کوشش ہو گی کہ یہ شہر بند نہ ہو اور دنیا کو یہ تاثر بھی نہ ملے کہ تحریک انصاف اس شہر پر سیاسی کنٹرول حاصل کر چکی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی طے کر رہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بھی تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے کے لیے مختلف انتظامی اقدامات کر رہی ہے ۔ اگر تحریک انصاف کراچی کو بند کر دیتی ہے تو اس کو سیاسی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہو گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے۔