دنیا بھر سے ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘

انسانی حقوق کے ان تمام ٹھیکیداروں نے مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں مگر پھر بھی ہم انہی سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔


محمد حسان December 10, 2014
حیرانگی کی بات ہے ترقی پزیر ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اوران میں موجود سپر پاورز کے کردار پر کوئی واویلا کیوں نہیں مچایا جاتا؟ فوٹو: اے ایف پی

میری اگر 15نجی جیلیں ہوں جن میں سینکڑوں افراد حبسِ بے جا میں رکھے گئے ہوں،مجھ پر قتل کے 8مقدمات چل رہے ہوں،اغواء کے 21کیسیز میرے نام پر درج ہوں اور دہشت گردی سمیت چھوٹے موٹے جرائم کے بھی کئی مقدمات میں میرا نام شامل ہو اور میں ایک این جی او چلا رہا ہوں جس کا موٹو''انسانی حقوق کا تحفظ''کرنا ہو تو یہ کس قدر مضحکہ خیز ہوگا۔

براعظم ایشیاء اور افریقہ میں موجود بیشتر ممالک جن میں مسلمان ممالک کی بھی ایک بڑی تعداد ہے،کے نام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست میں انتہائی نمایاں کر کے پیش کیئے جاتے ہیں ،سپر پاورزاوردیگر ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ان ترقی پذیر ممالک پربغیر کسی امداد کے خوب دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ان خلاف ورزیوں کو فوراً روکا جائے،ان ترقی یافتہ ممالک نے انسانی حقوق کے نام پر ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز کھول رکھی ہیں جو عالمی سطح پر کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،کوئی خواتین کے حقوق کا علمبردار بنا ہوا ہے تو کوئی چائلڈ لیبر کے نام پر اپنی دکان چمکا رہا ہے،کوئی اپنی تعلیمی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے تو کوئی دہشت گردی کی بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے،غرض یہ کہ ہر طرف بڑے زوروشور سے انسانی حقوق کے نام پر ایسا کام جاری ہے جس کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اگر تیسری دنیا کے کسی ملک اور خصوصاً کسی اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ساری دنیا بہت شور مچاتی ہے لیکن اگر خود ان سپر پاورز اور ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ایسا کچھ ہو جائے تو ایسا سنّاٹا چھا جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم میں امریکہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس میں سیاہ فاموں اور مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے،ان ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی کو کیوں نظر نہیں آتیں؟افغانستان، عراق، شام، مصر، لیبیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور ان میں موجود سپر پاورز کے کردار پر کوئی واویلا کیوں نہیں مچایا جاتا؟

ستم ظریفی دیکھیے کہ آج انسانی حقوق کا دن منایا جارہا ہے اور آج ہی امریکی سینیٹ کی جانب سے اپنی ہی ادارے سی آئی اے پر 11 ستمبر 2001 کے واقع کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار مشتبہ افراد پر سی آئی اے کی سزائیں کو قانونی حدود سے تجاوز قرار دیتے ہوئے بربریت سے تشبیح دی ہے۔

دنیا میں بسنے والے وہ انسان جن کا خون انتہائی سستا سمجھا جاتا ہے ان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں ،فلسطین میں پوری پوری جیتی جاگتی ہنستی بستی آبادی کو سیکنڈز میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے،شہر کے شہر بمباری کر کے ہموار کر دیئے جاتے ہیں لیکن کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا، کوئی سپر پاور دیگر معاملات کی طرح خدائی فوجدار بن کے میدان میں نہیں کودتی بلکہ بعض اوقات ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کرتے دکھائی دیتی ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ظلم و ستم اور بر بریت کی اَن گنت داستانوں سے کون واقف نہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں اب تک 94000 سے زائدکشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے،ایک لاکھ سے زائدافراد کو بغیر کسی ثبوت کے کال کوٹھریوں میں ڈالا ہوا ہے،لاپتہ افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے،ایک لاکھ سے زائد عمارات ، دکانیں اور مکانات تباہ کیئے جا چکے ہیں،10ہزار سے زائد معصوم خواتین سے زیادتی کے کیسز سامنے آ چکے ہیں،کشمیری روزگار اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،انہیں جبری ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جا تاہے،خواتین کو ہراساں کرنا ایک عام بات بن چکی ہے،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک ہندوستان کے کشمیر میں کیئے جانے والے یہ مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیاں پتا نہیں کس طرح دنیا کی نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرف بھی دیکھیں ہمارا ہی خون ارزاں ہے،ہر طرف ہم ہی مارے جارے رہے ہیں،انسانی حقوق کے ان تمام ٹھیکیداروں نے ان مظالم پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ،ہم بھی ان کے دہرے معیار سے واقف ہونے کے باوجود انہی سے آس امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ لوگ اسی طرح انسانی حقوق کے نام پر نشستند گفتند برخاستند ٹائپ کی محفلیں، سیمینارز اور کانفرنسز سجاتے رہیں گے اور ہمارا خون بہتا رہے گا ۔

10دسمبرکو ہر سال انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن دنیا کے ہر فردکو ذات پات ، رنگ ونسل اورمذہب و قومیت سے بالا تر ہو کر اپنی آواز ضرور بلند کر نی چاہیئے کیونکہ انسانیت ان تمام پہچانوں سے پہلے آتی ہے۔اس دن اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے انسانی حقوق کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کریں،اپنی حکومتوں اورعالمی دنیا تک اپنا پیغام ضرور پہنچائیں،لوگوں کو آگاہ کریں اور اپنے حصے کا دیا ضرور جلائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں